تازہ ترینخبریںپاکستان

اب چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ وہ فل بینچ بنائیں یا چھوٹا بینچ

پی ٹی آئی کے وکیل سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ پانچ رکنی بینچ ٹوٹ گیا اب چیف جسٹس کی مرضی ہے کہ وہ فل بینچ بنائیں یا چھوٹا بینچ۔

پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے التوا کے خلاف پی ٹی آئی کی دائر درخواست کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بینچ ٹوٹنے کے بعد مذکورہ کیس میں تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ کل قاضی فائزعیسیٰ کے بینچ کا ایک فیصلہ آیا تھا جس کے بعد یہ بینچ ٹوٹ گیا۔ چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں گے اور یہ انکی صوابدید پر ہے کہ وہ فل کورٹ بینچ بناتے ہیں یا 5، 7 رکنی بینچ۔ پی ٹی آئی اور بطور وکیل ہمیں اس پر اعتراض نہیں ہے۔

سینیٹر علی ظفر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ججمنٹ آگئی بینچ نے اپنا پوائنٹ آف ویو دیا ہے۔ پریشانی کی بات نہیں یقین ہے جلد نیا بینچ بن جائے گا اور وہ اس کی سماعت کرے گا۔ چیف جسٹس اور سینئر ججز بیٹھ کر فیصلہ کرینگے اسکے مطابق ہی ہم پیش ہونگے۔ ایشو یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان انتخابات میں تاخیر کر سکتی ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ آخری ڈیفنس لائن ہے۔ ادارے کو مضبوط کرنا اچھی بات ہے اس پر قانون سازی ہونی چاہیے لیکن اس حوالے سے سینیٹ میں عجلت میں بل پیش کیا گیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بل میں کچھ چیزیں غلط ہیں جن کو درست کرنے کی ضرورت ہے اور اس پر بات ہوسکتی ہے۔

پی ٹی آئی سینیٹر نے ایوان میں پہنچ کر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ راتوں رات جو بل آیا اس پر دو تحفظات ہیں۔ ایک اعتراض اس بل کی ٹائمنگ پر ہے کیونکہ سپریم کورٹ میں ایک کیس چل رہا ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ ملک میں دہشتگردی ہے اور پیسہ نہیں ہے۔ عدالت میں بحث ہو رہی ہے کہ آئین میں کہاں لکھا ہے کہ الیکشن میں تاخیر کی جائے۔ ابھی اس کی سماعت جاری ہے کہ راتوں رات ایک میٹنگ کے بعد قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جاتا ہے۔ اس بل کے تحت یہ سپریم کورٹ کے اختیارات کو تبدیل کرنے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بل پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آپ اپیل کا حق دینے جا رہے ہیں۔ نظرثانی اپیل کی اجازت دینگے تو سپریم کورٹ آگے کام نہیں کرسکے گا۔ یہ بل ایسا ہے جو نارمل قانون کی طرح پیش کیا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر آئینی ترمیم ہونی چاہیے، اگر یہ بل پاس ہو بھی گیا تو اس قانون کو آئندہ 15 سے 20 دن میں کالعدم قرار دے دیا جائے گا کیونکہ خلاف آئین کوئی قانون پاس نہیں کیا جا سکتا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اختیارات کی تبدیلی کا جو بل پیش کیا گیا ہے وہ آئین کے خلاف ہے اور آئین میں ترمیم کیے بغیر عدالت عظمیٰ کے اختیارات کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ میں ایسے بل کا حصہ نہیں بنوں گا جو آئین سے متصادم ہو جب کہ خود حکومتی بینچز پر بیٹھے سینیٹرز کے دل میں بھی ہے کہ یہ غلط کام ہو رہا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سینیٹ کمیٹی کہتی ہے آرٹیکل 184 تھری کو صرف آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہم صرف فیڈرل قانون فہرست میں ہی قانون سازی کر سکتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے اختیارات پر قانون سازی نہیں ہوسکتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button