Ahmad NaveedColumn

دیپالپورکی عظیم تاریخ .. احمد نوید

احمد نوید

 

دیپالپور کا ایک عظیم ماضی ہے اور یہ ایک بہت قدیم قصبہ ہے۔یہ شہر خوبصورت مذہبی فن کی نمائندگی کرتا ہے۔یہاں بے شمار ان کہی کہانیاں موجود ہیں۔ دیپالپور برصغیر میں اپنی 84 مساجد اور 84کنوؤں کی وجہ سے مشہور تھا۔مؤرخین کے مطابق امیر خسرو دیپالپور کی جیل میں بند رہے اوربابا گرو نانک نے بھی کچھ عرصہ دیپالپور میں قیام کیا تھا۔ بنگالی مورخ ابناش چندر داس کے مطابق، قریباً 2000 سال پہلے دیپالپور آریوں کا مسکن تھا۔ دیپالپور کی بنیاد قبل از مسیح راجہ دیپال راجپوت نے رکھی تھی۔چند سال قبل مصر میں ایک مصری بادشاہ کے مقبرے کی دریافت نے دھوم مچادی تھی یہ مقبرہ 525ء قبل مسیح میں تعمیر ہوا تھا۔ اس مقبرے سے ملنے والے برتن، پختہ اینٹوں اور دیگر اشیا پر اب بھی تحقیق جاری ہے۔ ماہرین مصر کا خیال ہے کہ اس تحقیق سے جن نتائج کے سامنے آنے کی توقع ہے وہ نہایت اہم ہوں گے۔ اس مقبرے کی دریافت کو اہل مصر اپنی ایک اہم کامیابی تصور کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی کم و بیش اس زمانے کے آثار قدیمہ موجود ہیں مگر نہ تو سرکاری محکمہ زیادہ فعال ہے اور نہ ہمارے ماہرین عمرانیات اور مورخین نے اس ارتقاء کو کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ قدیم قصبہ دیپالپور اس کی ایک مثال ہے۔
یہاں سے ملنے والے پرانے سکوں سے یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ جگہ 175قبل مسیح سے پہلے آباد تھی اس کی قدامت کی گواہی وہاں موجود شکستہ عمارات کے آثار دے رہے ہیں۔ یہاں موجود ایک قلعہ، مندر اور وسیع سرائے گزشتہ دور کے شان و شوکت کی کہانی سنارہی ہے
تاریخ میں دیپالپور ایک فوجی سرحدی چوکی کی حیثیت سے مشہورتھا۔ جس نے تیرہویں اور چودہویں صدی عیسوی میں سلطنت کے دفاع میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ مغلیہ دور میں اس قصبے کو ‘سرکاری حیثیت حاصل تھی۔ انگریزوں کے دور حکومت میں اس قصبے کی حیثیت ختم ہو کر رہ گئی۔ دیپالپور میں موجود قلعے کو دیکھ کر اس کی قدامت کا اندازہ تو کیا جا سکتا ہے مگر یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ یہ کتنا قدیم ہے؟کیوں کہ تاریخ میں یہ ذکر نہیں ملتا۔ 1285ء میں شہنشاہ بلبن کا بیٹا محمد خان یہاں کا حکمران تھا۔ وہ منگولوں کے خلاف ایک خون ریز معرکے میں مارا گیا۔
امیر خسرو کو بھی اس قلعہ میں قید کیا گیا تھا اور اس کام کو بھی منگو لوں نے سرانجام دیا تھا۔ اس قلعہ کے چار دروازے ہیں اور بہت اونچی فصیل پر واقع ہے۔قلعے کے چاردروازوں میں سے دو ابھی تک موجود ہیں اورزمانہ رفتہ کی شان و شوکت کی گواہی دے رہے ہیں۔یہ وہ قلعہ ہے جہاں سکندر ِیونانی کے قدم روکے گئے اور و ہ یہاں سے زخمی ہوکے گیا۔ دیپالپور میں ایک قدیم مندر بھی موجود ہے۔ اس مندر سے ایک روایت بھی منسوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ دیپاچند کے بیٹے لعل راج کو اس کی سوتیلی ماں رانی دھولراں نے بدعادی کہ جائو تم زمین میں غرق ہو جاو۔ لعل راج ایک کم سن بچہ تھا وہ کھڑا کھڑا زمین میں دھنسناشروع ہو گیا۔ یہ دیکھ کر رانی پریشان ہو گئی اور اسے پکڑنا چاہا مگر رانی کے ہاتھ صرف بچے کے بال ہی آ سکے۔ بچہ زمین میں زندہ دفن ہو گیا۔ راجہ دیپاچند کو علم ہوا تو اس نے رانی کو ہلاک کر دیا اور اپنے بیٹے کی یاد میں یہ مندر تعمیر کیا۔ اس مندر کا کھنڈر آج بھی موجود ہے۔
مندر کے نزدیک ایک عالی شان سرائے بھی تعمیر کی گئی تھی، جہاں مندر میں آنے والے لوگ قیام پذیر ہوتے تھے۔سرائے میں چاروں کھلے کھلے ہوا دار کمرے،درمیان میں بہت بڑا صحن اور چار دروازے تھے۔مغل حکمران دہلی اور لاہور کے درمیان سفر کرتے تو دیپالپور میںہی قیام کرتے تھے۔اکثر کتابوں میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ 1518ء میں شہنشاہ اکبر اپنے بیٹے شہزادہ سلیم کے ہمراہ جب حضرت فرید گنج کے دربار پر حاضری کے لیے آیا تو اس نے بھی دیپالپور میں ہی قیام کیا ۔یہ وہ دور تھا جب عبدالرحیم خان دیپالپور کا گورنر تھا گویا مغلیہ دور تک اس کی اہمیت برقرار رہی۔
اس لیے اس علاقے میں علم و ادب، تہذیب و ثقافت اور سیاست و معاشرت کے نقوش پائے جاتے ہیں۔اسی بنا پر یہاں علمی، ادبی، سیاسی، سماجی اور ثقافتی تاریخ کا ایک گراں مایہ سرمایہ موجود ہے۔ دیپالپور میں معتدد قدیم عمارتوں کے آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔ان میں لالوجسراج کا مندر، شاہجاں دور کے وزیر خان خاناں کی تعمیر کردہ مسجد، امام شاہ اور محمود شاہ نامی بزرگوںکے مزارات قابلِ ذکر ہیں۔
ہماری حکومت پنجاب اور خصوصاً لوکل گورنمنٹ تحصیل دیپالپور سے درخواست ہے کہ اس قلعہ کو دوبارہ تعمیر کروایاجا ئے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے سکیورٹی کا انتظا م کیا جائے تاکہ اس قلعہ کو سیاحتی پوائنٹ بنایا جاسکے۔ہجرت کے بعد لوگ قلعے کے اندر رہنے لگے اور اس کی وجہ سے یہ اثاثہ مرجھا رہا ہے۔ قانون سازی، پابندیوں اور دیگر ہدایات کے باوجود اسے پرکشش بنانے کے لیے کوئی دیکھ بھال کا کام نہیں کیا جا رہاہے۔ پاکستان کے قدیم ترین اثاثے آہستہ آہستہ ختم اور زوال پذیر ہیں۔
منگولوں نے ملک کے اس حصے پر بار بار حملہ کیا اور انہیں دیپالپور میں غیاث الدین بلبن اور اس کے بیٹے شہزادہ محمد نے پسپاکیا۔ 1285ء میں پنجاب پر آخری حملے کے دوران پیر محمد خان منگول کو دیپالپور میں شکست ہوئی لیکن پسپائی اختیار کرنے والے منگولوں کے تعاقب کے دوران شہزادہ محمد مارا گیا۔ دیپالپور میں بادشاہی مسجد کے مغرب میں مقبرہ کس کا ہے۔ کسی بھی مستند ذرائع سے کنفرمیشن دستیاب نہیں ہے۔
تیمور کے حملے کے وقت دیپالپور جسامت اور اہمیت میں ملتان کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ قصبہ تیمور کے حملے اور پرانے دریائے بیاس کے خشک ہونے کی وجہ سے ویران ہو گیا تھا۔
آج پاکستان کا شاندار ورثہ تباہی اور زوال کا شکار ہے، حکومت نے آنکھیں بند کر کے ثقافتی مقامات کی حفاظت اور تحفظ کی طرف مائل نہ ہونے کی قسم کھا رکھی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button