ColumnQaisar Abbas

پاگل پن .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

 

ایک عجیب طرح کی رٹ پٹیشن اعلیٰ عدالتوں کے ڈائری کلرکوں کے سامنے رکھی فائلوں کا حصہ تھی۔ پٹیشن کے آخری پیرے میں پٹیشنرز کی استدعا بھی کچھ غیر معمولی تھی کہ ’’ہمیں پاگل قرار نہ دیا جائے ، ہمارے امتحانی پرچے سامنے رکھ کر ہماری سچائی کو پرکھا جائے‘‘ پٹیشنرز مومل شہزادی ایم فل ریاضی کی طالبہ ہے اور پٹرول ہائی وے پنجاب ریجن کی مضافاتی چیک پوسٹ پر تعینات ہے ۔
گزشتہ ہفتے کے آخری روز مومل شہزادی کو ایس پی پٹرول ہائی وے ہما نصیب کے ذاتی حکم پر نشتر ہسپتال کے نفسیاتی علاج کے وارڈ میں بلایا گیا تھا ۔ چند سب انسپکٹر درجے کے اہلکار اپنی افسر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے مومل کی ویڈیو فلم بنا رہے تھے اور مومل خود کو نفسیاتی اور شعوری طور پر صحت مند قرار دینے پر تلی تھی ۔ مبینہ طور پر ایس پی میڈم ہما نصیب کے بھائی شعبہ نفسیات میں ڈاکٹر ہیں ۔ یہ تماشا دیکھنے والوں نے ہسپتال کی لابی میں جب سوال و جواب کئے تو معلوم ہوا کہ مومل کے نفسیاتی ٹیسٹ کئے جانے کا حکم نہ تو کسی عدالت سے جاری ہوا تھا اور نہ ہی اس ٹیسٹ کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا ۔ ون مین پاور کے تحت کانسٹیبل مومل کا ٹیسٹ ون مین ڈاکٹر نے لینا تھا ۔
اصل کہانی محکمانہ پروموشن امتحان سے جڑی تھی۔ چند خواتین اہلکاروں کو یقین تھا کہ ان کا امتحانی پرچہ بہت اچھا ہوا تھا مگر ذاتی پسند و ناپسند کے سبب انہیں فیل قرار دیا گیا تھا۔ مومل ، کشش اور دیگر پٹیشنرز کا مطالبہ تھا کہ ہمارے جوابی پیپرز افسران بالا کے سامنے رکھ کر چیک کر لیے جائیں اگر وہ واقعی فیل ہوں تو انہیں نوکری سے برخاست کر دیا جائے ۔ ان کا یہ مطالبہ ناجائز بھی نہیں تھا ۔ بلا کا اعتماد اور وثوق ان کے موقف کو ناقابل تردید بناتا تھا ۔ ان کا یہ بھی موقف تھا کہ پیپرز کی مارکنگ جونیئرزسے کروائی گئی تھی جبکہ وہ ایسی پیپر مارکنگ کے مجاز ہی نہ تھے ۔
پٹیشنرز کی جرأت اظہار پر محکمہ ان کے پرچہ جات سامنے رکھ کر تسلی کروانے کے بجائے انہیں پاگل قرار دے کر ملازمت سے برخاست کرنے پر تلا تھا ۔ اعلیٰ افسران بھی کانسٹیبل کی بات پر ایک چومکھی تجربے کی حامل ایس پی کی بات کو وزن دینے پر تلے تھے ۔
نشتر ہسپتال میں لوگوں کا ایک ہجوم باوردی اہلکاروں کا تماشا دیکھ بھی رہا تھا اور فلما بھی رہا تھا ۔ تعجب اس بات پر ہے کہ میڈم ایس پی کو ایک کانسٹیبل کی ذرا سی پروموشن پر اعتراض کیوں تھا ۔ اس پیپر میں پاس ہونے کے بعد ان کانسٹیبلان نے ایس پی تو بالکل بھی پروموٹ نہیں ہونا تھا۔ ریاست کے اندر بہت سی ریاستوں کی طرح یہ محکمہ بھی قبائلی ریاست بن چکا ہے اور یوں بھی عوام کو اس محکمے کے وجود کا کبھی کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا ۔
اگر انہیں پاگل قرار دینے کے بجائے ان کے پیپرز سامنے رکھ کر فیصلہ کر لیا جاتا تو زیادہ مناسب ہوتا اور ایک ایسے محکمے کا تماشا بھی نہ بنتا جو عوامی خزانے پر بوجھ ہے۔ 28 فروری کو لیے جانے والے بی ون کے امتحان کا نتیجہ راتوں رات جاری کرتے ہوئے اگلی صبح انٹرویوز بھی لے لیے گئے ۔ دنیا بھر میں ہر فیصلے کے خلاف اپیل کا حق موجود اور محفوظ سمجھا جاتا ہے مگر فورسز کے اندر شخصی آمریت یہ حق بھی پاگل پن میں ضم کرنے پر بضد ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ دس سال سے ایس پی کے ریڈر کو بھی ان کی سیٹ سے ہلایا نہیں جا سکا ۔ ریڈر اپنی پروموشن کے باوجود کم درجے کی پوسٹ پر تعینات ہے اور اپنا قانونی حق مانگنے والی کانسٹیبلز کو اب بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی اور لمحہ لمحہ رپورٹ چیکنگ پر نفسیاتی مریض بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ شعبہ نفسیات میں ڈاکٹر بھی تو اپنے ہی بھائی ہیں ۔ ہماری خواہش ہے کہ ایس پی صاحبہ کو اپنے عہدے کا خیال رکھتے ہوئے کانسٹیبل کی سطح پر نہیں اتر آنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button