ColumnNasir Naqvi

آئینی زلزلوں کے جھٹکے .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

پاکستان کا دارالحکومت اسلام آباد موجودہ دور میں معاشی، سیاسی طوفان کو برداشت نہیں کر رہا بلکہ آئینی زلزلوں کے جھٹکوں کا سامنا بھی اس کا مقدر بنا ہوا ہے۔ جس بارود، بارودی سرنگوں اور دھماکوں کی وجہ سے اسے اس صورت حال کا مقابلہ کرنا پڑا رہا ہے اس میں ہر ذمہ دار، طاقت ور اور عاقبت نااندیش سیاست دانوں کا نہ صرف حصّہ ہے بلکہ ان جھٹکوں میں شدت پیدا کرنے کیلئے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا غیر ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ مجھے ایک دوست نے پیغام دیا کہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے بھلا پارلیمنٹ اور پارلیمانی نظام میں اس کی گنجائش ہے؟ اس کا دعویٰ تھا کہ پارلیمنٹ بے وقعت ہو گئی ہے؟
میں نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘
غصّے میں بولے ’’ہمارے منتخب نمائندوں نے مل کر اس کا گلا گھونٹ دیا۔ قوم نے جس پر اعتبار کرکے منتخب کیا، مسیحا جانا، وہ پہلے سیاسی حملے میں ہی پارلیمنٹ سے باہر نکل دوڑا، اسے ہر کسی نے سمجھایا، عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ نے بھی نرم گرم لہجے میں مشورہ دیا کہ پاکستان ایک آزاد جمہوری ریاست ہے آئین اور پارلیمان موجود ہے۔ عوامی مسائل، ملکی استحکام اور ترقی و خوشحالی کے راستے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر افہام و تفہیم نہیں، تو لڑ جھگڑ کر جمہوری انداز میں نکال لو، لیکن وہ نہیں مانے۔ یوں پارلیمانی نظام کا سب سے بڑاادارہ منتخب ایوان پارلیمنٹ اپنا وقار کھو بیٹھی۔ ہوئی بے وقعت کہ نہیں؟
میں نے جواب دیا صبر و استقامت سے کام لو، ہوا بالکل ایسا ہی ہے کیونکہ کسی بھی دور میں پارلیمنٹ کو اس کا مقام دیا ہی نہیں گیا۔ آمرانہ دور میں تو آئین بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے لیکن لنگڑی لولی یا مثالی جمہوریت تو اسی آئین کے تابع ہوتی ہے پھر بھی مفادات اور آقائوں کے اشاروں پر ہمارے ہاں متفقہ آئین کو بھی موم کی ناک سمجھتے ہوئے جدھر چاہا، جس نے چاہا، موڑ لیا۔آپ اور میں کس باغ کی مولی ہیں؟ ہر دور کے منتخب نمائندے دعوے دار ہیں کہ انہوں نے جو کچھ کیا آئین و قانون اور ملک و ملت کے مفادات کے مطابق کیا۔ راز تو اقتدار سے محرومی کے بعد کھلتے ہیں بالکل اسی طرح جس طرح ریاست مدینہ کے دعویدار ، سپریم کورٹ سے صادق و امین کی ڈگری حاصل کرنے والے سابق وزیر اعظم عمران خان اس وقت مقدمات میں پھنسے ہیں، ان مقدمات کا حاصل کیا ہو گا؟ اس بارے میں فی الحال کچھ بھی کہنا قبل از وقت اس لیے ہو گا کہ ماضی کے تمام چور، اچکے، ڈاکو، لٹیرے قرار دئیے جانے والے حکمران آج کے معززین اور قد آور شخصیات میں شامل ہیں۔ اس لیے کہ کسی کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں کیا جا سکا۔ ان میں سب سے زیادہ عرصہ جیل کاٹنے والے سابق صدر آصف علی زرداری اور سب سے زیادہ مرتبہ وزیراعظم بننے اور نکالے جانے والے ریکارڈ ہولڈر نواز شریف بھی شامل ہیں۔ وہ پانامہ کیس میں پھنسے اور اقامہ میں سزاوار ٹھہرے، ایک نہیں دو مرتبہ خود ساختہ جلاوطنی بھی اختیار کی لیکن پُرعزم ہیں وہ بھی اور ان کے متوالے بھی کہ وہ پاکستان واپس آئیں اور ملک و ملت کی بھنور میں پھنسی معاشی اور سیاسی کشتی کو نکالیں، اسی طرح اگر عمران خان پکڑے جائیں اور زندگی بھر کیلئے نااہل بھی کر دئیے جائیں تو کیا نکلے گا؟ ہمارا ماضی بتا رہا ہے کہ نہ کبھی کچھ ہوا ہے اور نہ ہی کچھ ہو سکے گا کیونکہ ان کے سہولت کار ملکی ہوں کہ غیر ملکی یا بین الاقوامی ان کے ذمہ داران انہیں ریسکیو ضرور کریں گے اس لیے کہ مستقبل میں بھی یہی چراغ جلیں گے تو ان کے مفادات کی روشنی قائم رہ سکے گی۔
موجودہ حالات پر ذرا سنجیدگی سے غور کریں تو نواز شریف کو پانامہ سے اقامہ میں سزا دینے والے کون؟ انہیں بیماری کی حالت میں سہولیات مہیا کرکے زندگی موت کا مسئلہ بتا کر ملک سے باہر بھجوانے والے کون؟ کیا احتساب کے نعرے پر چوروں اور ڈاکوئوں سے حساب لینے والے اس سہولت کاری میں شامل نہیں تھے؟ اگر یہ سب ماضی کے حکمران چور لٹیرے اور ملک و ملت کو نقصان پہنچانے والے نہیں تھے، اگر تھے تو پھرا نہیں جیلوں میں سڑنے مرنے کیوں نہیں دیا گیا؟ اور اگر مقدمات محض الزامات تھے تو پھر جھوٹے مقدمات کا اندراج اور ناجائز قید و بند کی سزا دلوانے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ ہم اور آپ سے زیادہ عمران خان اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ ظلم کا معاشرہ چل سکتا ہے انصاف کے بغیر کوئی معاشرہ پھول پھل نہیں سکتا۔ان کا دعویٰ تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت میں امیر غریب کیلئے قانون برابر ہو گا پھر ایساان کی حکومت میں بھی کیوں نہیں ہو سکا؟ اگر ایسا دس فی صد بھی ہو جاتا تو خان اعظم کو جن مسائل و مشکلات، مقدمات اور الزامات کا سامنا ہے اس میں کمی نہ بھی ہوتی تو بھی شدت میں کمی ضرور پائی جاتی لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے ہم سب کے سب آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں لیکن عملی مظاہر ہ ا س سے بالکل مختلف کرتے ہیں اور عمران خان صاحب نے تو نیا فارمولا ’’یوٹرن‘‘ ایجاد کر کے اس پر فخر کرنا شروع کر رکھا ہے حالانکہ ماضی کی روایت میں اپنی بات سے مُکر جانا یا پھر بات بات پر موقف میں تبدیلی برائی سمجھی اور بے اعتباری کی علامت ہوا کرتی تھی۔
ہمارے دوست انتہائی معصوم شخصیت کے مالک ہیں جب ہی تو کہہ رہے ہیں کہ پارلیمنٹ بے وقعت ہو گئی۔ حقیقت میں ہم پارلیمنٹ کو سب سے بڑا آئینی و قانونی پلیٹ فارم جانتے ہوئے بھی اسے کسی بھی دور میں اس کا حقیقی مقام نہیں دے سکے۔ اس سے بڑی افسوس ناک بات اور کیا ہو گی کہ جس آئین و قانون 1973ء کا ذکرکرتے ہماری زبانیں نہیں تھکتیں ہم نے اسے بالائے طاق رکھ کر ملکی تاریخ کا متفقہ آئین بنانے والے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایک آمر کے ذریعے پھانسی چڑھوا دیا اور اس کے بعد اس کی پیپلز پارٹی تین مرتبہ برسر اقتدار آئی لیکن اس عدالتی اور ناجائز قتل کا کچھ نہ کر سکی۔ آج بھی مقدمہ عدالتی سردخانے میں موجود اور آج بھی حکومت کا اہم عہدہ اور اہم اتحادی پیپلز پارٹی ہی ہے، یہی نہیں اس نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ لگا کر ایک دوسرے زبردستی کے صدر پرویز مشرف کو جمہوریت کی بحالی کی خوشی میں گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا۔ پھر قدرت نے ہمیں یہ دن بھی دکھائے کہ آئین کی پامالی پر اس کے خلاف کارروائی ہوئی۔ جسٹس سیٹھ وقار نے اس کی غیر موجودگی میں نہ صرف سخت سزا سنائی بلکہ بعد از مرگ بھی عمل درآمد کا حکم دیا لیکن سب نے دیکھا، کچھ نہیں ہو سکابلکہ وطن عزیز کی سرزمین میں وہ آمر ایک مرتبہ پھر سلامی کے بعد سپرد خاک کر دیا گیا۔ وہ کتنا اچھا تھا یا بُرا، آئین توڑنے کے حوالے سے یقیناً قومی مجرم تھا۔ اس نے مقدمے کا سامنا بھی نہیں کیا اور زندگی نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا۔ دین حق کے حوالے سے جزا و سزا ہمارا ایمان ہے لیکن ہم دنیاوی طور پر اس سے بہت دور ہیں۔ اسی لیے کوئی آئین کی موجودگی میں بھی اس کی پاسداری کیلئے فکرمند نہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت کے دور میں عوامی مسائل مہنگائی، بے روزگاری کے مقابلے میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز چیخ چیخ کر ججز، جرنیل اور جرنلسٹوں کو چیلنج کر رہی ہیں انہیں علم ہے کہ اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90روز میں الیکشن ضروری ہیں لیکن الیکشن کمیشن، حکومت کی حکمت عملی سے قطع نظر ان کا مطالبہ ہے کہ نظام کی خرابی میں چار ججز اور ایک جنرل نے بنیادی کردار ادا کیا، لہٰذا الیکشن سے پہلے انصاف کے ترازو کے دونوں پلڑے برابر کئے جائیں۔ نواز شریف کی سزائیں ختم کر کے ناانصافی کا ازالہ کیا جائے اور عمران خان کو کٹہرے میں لایا جائے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ گھڑی چور سابق وزیراعظم کو’’ آستانہ فیض عالم‘‘ کے چیلے اپنے تعویزوں سے بچانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن تاریخ میں لکھا جا چکا ہے کہ فتنہ خان جن ججز کے کندھوں پر بیٹھ کر دوبارہ اقتدارچاہتا ہے وہ کندھے ہی نہیں رہیں گے۔
سوال وہی ہے کہ پارلیمنٹ بے وقعت ہوگئی ہے کیوں؟ میری جمع تفریق میں آج 75سال بعد ہمیں یہ احساس ہو رہا ہے کہ اگر اسے پہلے محسوس کر لیا جاتا تو یہ حالات ہی پیدا نہ ہوتے، پارلیمنٹ کا کام ہے کہ ایسے قوانین بنائے جس سے ملک و ملت کی بہتری کیلئے راستے نکلیں، لیکن یہ کام بطریق احسن نہیں ہو سکا، لہٰذا نتائج سب کے سامنے ہیں۔ معاشی، سیاسی بحران کے بعد آئینی بحران بھی قوم کا مقدر بن گیا، پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دی گئیں لیکن یہ انداز متنازعہ بنا اور گورنرز نے الیکشن کی تاریخ نہیں دی ۔ مجھے روز اوّل سے ہی یہی خدشہ تھا کہ پارلیمنٹ کے مثبت کردار کی غیر موجودگی میں معاملات عدالت میں جائیں گے لہٰذا اندیشہ درست ثابت ہوا اور آج آئینی بحران کے باعث پوری قوم آئینی زلزلے کے جھٹکے محسوس کر رہی ہے۔ اب اگر جائزہ لیا جائے تو منتخب اداروں کے سیاستدانوں، اسٹیبلشمنٹ، عدالتی فیصلوں کی مداخلت، صدارتی حکم سب کے سب اس قدر متنازعہ یا اختلافی بن گئے، صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ دی اور پھر ان کے وکیل کی جانب سے صدارتی اختیار سے تجاوز پر خیبر پختونخوا کا اعلان واپس لے لیا گیا۔ نو رکنی بینچ سوموٹو کے لیے بنایا گیا اورپھر وہی حالات کے تحت پانچ رکنی ہو گیا۔ سینئر ججز کو شامل نہیں کیا گیا۔پاکستان بار کونسل کی جانب سے ریفرنس کا اعلان ہوا، نو رکنی بینچ کے ارکان کی جانب سے اختلاف، پھر دو جسٹس کی جانب سے رجسٹرار کو تمام ریکارڈ کے ساتھ طلبی، یہ وہ معاملات ہیں جس سے آئینی زلزلوں کے جھٹکے بڑھیں گے کیونکہ اس مصیبت سے نجات صرف اور صرف استحکام پارلیمنٹ سے ممکن ہے۔ ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں اور منتخب نمائندوں کی عام آدمی سے کہیں زیادہ ہے۔ آئینی بھونچال پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کے بعد بھی رکتا نہیں لگتا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button