شرح سود میں تین فیصد اضاف

شرح سود میں تین فیصد اضافہ
پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین کافی زیادہ معاملات طے پا گئے ہیں۔چار پیشگی شرائط میں سے پاکستان نےتین پر عملدرآمدکر لیا ہے۔ان شرائط میں بجلی کے آئندہ مالی سال کے لیے سرچارج میں اضافہ ، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور شرح سود میں ا ضافہ شامل تھے، لہٰذا پاکستان نے ان تینوں شرائط پر عملدرآمد کر دیا ہے،یہی نہیں بلکہ پاکستان نے کسان پیکیج اور برآمدی شعبے کے لیے بجلی کے بلوں پر سبسڈی ختم کردی ہے اور پیشگی اقدامات پر عملدرآمد کے بعد توقع ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اگلی قسط کے لیے سٹاف سطح کا معاہدہ آئندہ ہفتے ہوجائے گا۔آئی ایم ایف کی شرائط میں شرح سود میں دو فیصد اضافہ کرنے کی شرط رکھی گئی تھی لیکن ہماری حکومت نے دو کی بجائے تین فیصد اضافہ کردیا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے شرح سود 3 فیصد بڑھانے کااعلان کیا جس کے بعد ملک میں شرح سود 20 فیصد پر پہنچ گئی ہے، ڈالر اس کے ساتھ ہی ڈالر کی قیمت288.50روپے تک پہنچ گئی اور آئی ایم ایف کی شرائط سے کرنسی مارکیٹ میں بھونچال سا آگیا۔سٹیٹ بینک آف پاکستان نے پہلے تو مہنگائی بڑھنے کی نوید سنائی مگر پھر حوصلہ دیا کہ مہنگائی بڑھنے کے بعد بتدریج کم ہوتی جائے گی حالانکہ ملکی تاریخ میں آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا کہ مہنگائی کم ہو یا کوئی چیز مہنگی ہوکر سستی ہو بہرکیف زری پالیسی کمیٹی کے مطابق جاری کھاتے کا خسارہ کم ہوا ہے۔ مالی استحکام کو لاحق خطرات قابو میں ہیں، توانائی بچت کے لیے فوری ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ زری پالیسی کمیٹی کے مطابق اقتصادی پالیسیوں اور بیرونی حالات نے قلیل مدتی مہنگائی کا منظر نامہ بگاڑا ہے یوں رواں مالی سال مہنگائی کی شرح 27سے 29 فیصد رہے گی کیونکہ حکومت نے جنرل سیلز ٹیکس ، ایکسائز ڈیوٹیز اور توانائی کے تمام ذرائع کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کیا اور سبسڈی میں کمی کی یابالکل ختم کردی گئی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے جیسے ہی شرح سود میں اضافے کا اعلان کیا ایک ہی جھٹکے سے ڈالر کی قدر میں ایک روپے 89پیسے اضافہ ہوگیا پس یہی سٹے بازی ہورہی ہے جیسے ہی معیشت یا سیاست سے جڑی کوئی اہم خبر سامنے آتی ہے سٹے باز اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ وزیرمملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ روپے پر دباؤ بڑھتا رہا تو آئندہ تیل مہنگا ہوسکتا ہے اور جب تیل مہنگا ہوگا تو بلاشبہ بجلی بھی مزید مہنگی ہوگی اور پھر وہی بدترین صورت حال، جس کا عوام اور انڈسٹری کو سامنا ہے کیونکہ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ملک کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے جن میں معیشت اور دہشت گردی سب سے بڑے چیلنجز ہیں اور بلاشبہ دونوں تب تک رہیں گے جب تک ملک میں سیاسی عدم استحکام رہتا ہے لہٰذا ہم مصدق ملک کی اِس بات سے متفق ہیں کہ استحکام سے متعلق معاملات پر جن لوگوں کے پاس اتھارٹیز ہیں انہیں بھی غور کرنا چاہیے اور یہی بات ہم بارہا گوش گذار کرچکے ہیں اور اِس سے زیادہ مشکل صورت حال کا انتظار کیا جارہا ہے؟ بلاشبہ غیریقینی صورت حال میں ملک چلانا انتہائی مشکل ہے اور حکومت کو درپیش مشکلات نظر بھی آرہی ہیں مگر ان بحرانوں سے نکلنے کا کیا حل ہے اور کیا اُس حل سے گریز کیا جارہا ہے یا ایسی حکمت عملی سے ملک بحرانوں سے باہر نکل آئے گا؟ دیکھا جائے تو تجربہ کار وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی موجودہ معاشی بحران میں اپنی صلاحیتوں کا ویسے مظاہرہ نہیں کرسکے جیسی اُن سے امیدیں اور دعوے وابستہ کیے گئے تھے۔ کرنسی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا ڈالر ریٹ افغان بارڈر ڈالر ٹریڈ کے ساتھ منسلک کرنا بہت بڑی زیادتی ہے اِس سے معیشت کا برا حال اور روپے کا جنازہ نکل جائے گا، افغان بارڈر پر ڈالر 20روپے اوپر ہی ہوتا ہے جس کا کوئی حل نہیں لہٰذا حکومت کو آئی ایم ایف اور امریکہ سے بات کرنی چاہیےجبکہ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلے ہفتے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پر بھی ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں ٹلے گا، مگر دوست ہی نہیں دشمن بھی نہیں چاہتے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرے۔ دوسری طرف معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دوست ممالک ہم سے بدظن کہ پاکستان جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں ،کیونکہ ہم دو تین بار اپنے معاہدوں سے مکر چکے ہیں مگر اب ہمیں قطر اور سعودی عرب کو بتانا ہوگا کہ ہم معاشی بھنور میں پھنسے ہوئے ہیںبہرکیف ہماری قیادت کو اپنے رویے اور ادائوں پر غور کرنا چاہیے کہ برادر اسلامی ممالک بھی ہم پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں اور معاشی حالات قابل رحم ہوچکے ہیں ، لوگ دو وقت کی روٹی کی جستجو کے لیے کس نہج تک جارہے ہیں اشرافیہ اِس سنگینی کا اندازہ کیے بغیر مسلسل دعوے دار ہے کہ ملک ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر سبسڈی واپس لیکر برآمدی شعبے اور عام پاکستانی پر اضافہ معاشی بوجھ ڈال کر کس طرح بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے، آپ کی نمود و نمائش ، آسائشیں اور طرز زندگی تبدیل نہیں ہوا، کفایت شعاری کے نام پر ابتک اٹھائے جانے والے انتظامات انتہائی ناکافی اور حکمرانوں کی معاشی بحران سے متعلق سنجیدگی ظاہر کرتے ہیں، ڈالر کی وجہ سے آج سب سے زیادہ متاثر وہ طبقہ ہے جس کا ڈالر سے دور تک کوئی تعلق نہیں اور شاید اِس طبقے نے زندگی بھر ڈالر کو شاید دیکھا بھی نہ ہو ۔ ڈیفالٹ کے خطرات اور معاشی خرابیوں کا قرض بھی وہی اُتار رہے ہیں جو اِس کے ذمہ دار یا حصہ دار کبھی نہیں رہے مگر اُن کا کام اِن خرابیوں کے بدلے میں اپنی قربانیاں پیش کرنا ہے۔ آپ نے برآمدی شعبے کے لیے بجلی، گیس، ایندھن مہنگا کردیا ہے ، ٹیکسوں کی شرح میں بھی اضافہ کردیا ہے، ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور رہی سہی کسر شرح سود بڑھانے سے نکل جائے گی۔ آنے والے دنوں میں عام پاکستانیوں کے لیے مزید مہنگائی کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں اور یقیناً مہنگائی مزید بڑھے گی، مہنگائی بڑھنے کی کتنی وجوہات کو ختم کریں گے اور کب ختم کریں گے، آئی ایم ایف ہر وہ کام شرط لگارہا ہے جس کے نتیجے میں معاشی بوجھ غریب ملک کے عوام پر پڑے اور وہ بالآخر سراپا احتجاج ہوں، سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اور معاشی حالات کس طرف جارہے اور ان کا بالآخر نتیجہ کیا نکلے گا، سری لنکا اور دوسرے ممالک میں ایسے بحرانوں میں کونسی غلطیاں ہوئیں اور کیا ہم ویسی ہی غلطیاں تو نہیں دھرارہے؟ حالانکہ ہم ویسے ہی طرز عمل کے ساتھ وہ سب کچھ کیے جارہے ہیں جس کی تلافی ممکن نہیں مگر ہم مجبور ہیں ان کے علاوہ وقت گزارنے کے لیے اور کوئی چارہ بھی تو نہیں۔ بہرکیف ہم ایک بار پھر یاد دلانا چاہتے ہیں کہ بندش کے قریب کاروبار، اور کاروباری طبقہ اب کاروبار سے پیسہ نکال کر بینکوں میں جمع کرادے گا تاکہ اس کو منافع ملے، بیرون ملک سے سرمایہ کار ہمارے بینکوں میں پیسہ جمع کرائیں گے کیونکہ یہاں بلند ترین شرح سود ہے، جب ہمارے کارخانے اور کاروبار بند ہوں گے تو لوگ بھی بے روزگار ہوں گے اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ان لوگوں کو اُس کیفیت میں متوجہ کرے گا اور خدانخواستہ ملک دشمنوںکی طرف سے عوام کو مشتعل کرنے کے لیے ایسے جواز پیدا کیے جاسکتے ہیں جن کے نتیجے میں ریاست عدم استحکام کا شکار ہو۔ افسوس کہ ہم مرض کاکینسر بننے تک انتظار کرتے ہیں اور پھر اِس کو لاعلاج قرار دے کر تمام وسائل اِس کے لیے جھونک دیتے ہیں۔ افغان بارڈر پر ڈالر کے بازار سجے ہوئے ہیں، ملک بھر میں ڈالرز کی زخیرہ اندوزی ہورہی ہے، بلیک مارکیٹ عروج پر ہے، لوگ ڈالر خرید خرید کر گھر میں رکھ رہے ہیں، جس طرح ہم گندم، چینی سمگلنگ اور زخیرہ اندوز مافیا کے سامنے بے بس ہوتے ہیں ، ہم اب ڈالر کے معاملے پر بھی بے بس نظرآرہے ہیں ، لہٰذا چیزیں سامنے بگڑ رہی ہوتی ہیں لیکن ہم متوجہ نہیں ہوتے یا متوجہ ہونے کے بعد ہمیں متحرک نہیں ہونے دیاجاتا پس جو کچھ ہورہا ہے ایسا زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، نظام میں موجود خرابیاں اور رویے بدلنا پڑیں گے۔