عدلیہ کےخلاف نیامحاذ! ۔۔ کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان
ماضی میں سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیااور اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور دوسرے محترم ججوں کے ساتھ جو پرتشدد کارروائیاں کی گئی تھیں اس کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی،اس کے بعد پاکستان میں بیک وقت دو ،دو سپریم کورٹ بنائے گئے وہ سیاہ کلنک آج بھی ریاست پاکستان کے ماتھے پر بہت بڑی شرمندگی ہے۔1997 میں نواز شریف کودو تہائی اکثریت دلائی گئی تو ریاست پاکستان کے قوانین کو اپنے مفادات کے حصول کے لیے فوراً ہی روندنا شروع کردیاگیا۔اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس سجاد علی شاہ نے جب آئین پاکستان کے تابع رکھنے کے لیے کچھ پٹیشنز سماعت کے لیے منظور کیں اور نواز شریف کو جب چیف جسٹس سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے جرم میں سپریم کورٹ طلب کیا۔معاملات بہت خراب ہو گئے تھے اور پھر ایک دن جب نوز شریف کو توہین عدالت میں سپریم کورٹ بلایا گیا تو لاہور سے ٹرکوں اور گاڑیوں میں لوگ بھر کر اسلام آباد پہنچائے اور سپریم کورٹ پر حملہ کر کے ججوں کو تشدد کا نشانہ بنایاگیا اس کے بعد مرحوم رفیق تارڑ نے مبینہ طور پر پشاور اور کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کچھ ججوں کو مینج کر کے دوسرا سپریم کورٹ بنا دیا اور سجاد علی شاہ کو بطور طاقت فارغ کر دیا گیا تھا۔جسٹس اجمل میاں کی سربراہی میں ایسا سپریم کورٹ تشکیل دیا گیا جو حکومت وقت کے عزائم کے سامنے خاموش تھا۔لاہور کی ایک بدنام زمانہ ورکر جس کا نام نور جہاں بلے تھا، نے مبینہ طور پر چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو جوتے سے مارا تھا اور انہیں 2008 کے بعد انعام کے طور پر صوبائی مشیر اور وزیر اعلیٰ شکایت سیل کا انچارج بنایا گیا تھا جبکہ ججوں کو مینج کرنے والے جسٹس رفیق احمد تارڑ کو ان کی خصوصی خدمات کے عوض صدر پاکستان جیسا اعلی ترین عہدہ ملا تھا۔اس کے بعد جو ہوا وہ بھی تاریخ کا سیاہ باب ہے اور پارلیمنٹ میں جعلی دو تہائی اکثریت کے سہارے تمام ریاستی اداروں کو روندتے ہوئے امیر المومنین تک بننے کی ترمیم تیار کر لی گئی تھی۔یہی وہ دور تھا جس میں جسٹس قیوم والی آڈیو اور شریف برادران کی ہدایت پر بینظیر بھٹو کے خلاف عدالتی فیصلے آئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے جسے 1993 میں نواز شریف کی اسمبلی بحال کرنے کے اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو چمک کا نتیجہ کہا تھا۔ ویسے ہی اس دور کے فیصلوں کو کینگرو کورٹس کے فیصلے کہاگیا لیکن نواز شریف کی حکومت اپنے اقدامات کے باعث 1999 میں کارگل میں پاکستان سے بیوفائی کی حقیقت کا شکار ہوئے اور پھر جب انہوں نے جہانگیر کرامت سے جبراً استعفیٰ لے لیا تو وہ سمجھے کہ شاہد اب وہ سیاہ و سفید جو بھی کریں انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جب سری لنکا کے سرکاری دورے پر گئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف کو نہایت بھونڈے طریقے سے ہٹا کر اپنے خاص جنرل ضیالدین بٹ(جو آرمی کے انجینئرنگ کور سے تھے)کو آرمی چیف لگاتے ہوئے جنرل مشرف کے جہاز کو پاکستان کے کسی ایئرپورٹ پر اترنے پر پابندی لگائی۔ نواز شریف کے کارگل پر ایجنڈے کی تکمیل پر زخم خوردہ پاک آرمی حرکت میں آئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ نواز شریف وغیرہ جیل میں تھے لیکن ایک ہی سال میں نواز شریف 10 سال کا معاہدہ کرکے بیرون ملک چلے گئے۔
خیر ماضی میں بات چلی گئی۔قارئین کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ 2008 میں پاکستان واپس آنے کے بعد فرینڈلی اپوزیشن اور چارٹر آف ڈیموکریسی کے بینر تلے جس طرح نواز شریف اور زرداری فیملی نے پاکستان کوآج کے بدترین حالت میں پہنچایا لیکن آج جب میں شہباز شریف کا بطور وزیر اعظم یہ بیان سنتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے دو ججوں کو ہمارے کیسیز اور بالخصوص نوے دن میں حکومت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے الیکشن نہ کروانے کے غیر آئینی اقدام کو روکنے کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کے بنائے گئے نو رکنی بنچ میں نہیں بیٹھنا چاہیے تو مجھے جسٹس آصف سعید کھوسہ کے مافیاز بارے دیئے گئے کومنٹس یاد آ جاتے ہیں دو سال قبل جس طرح سرعام مریم نواز اور نواز شریف وغیرہ افواج پاکستان اور پاکستان کے ججوں کو للکارتے اور ان کے خلاف زبان استعمال کرتے رہے وہ بھی دنیا کی کسی ریاست میں کم ہی دیکھا گیا ہے لیکن میرا استدلال اس وقت بھی یہی تھا کہ ریاستی اداروں بالخصوص عدلیہ اور فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو مثالی سزائیں ملنی چاہئیں لیکن اس وقت مقتدر حلقے خاموش تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب بھی ججوں کے نام لے کر ان کی کردار کشی ہی نہیں کی جارہی بلکہ ان کی جعلی آڈیوز بھی ریلیز کی جارہی ہے۔
رانا ثناءاللہ ملک کے وزیر داخلہ ہوتے ہوئے پریس کانفرنس میں ججوں بارے جعلی آڈیوز ریلیز کر رہے ہیں عطا تارڑ اورمریم اورنگزیب وغیرہ کا کیا گلہ کرنا کہ عطا تارڑ نے شریفوں کی حمایت میں عدلیہ کو رگیدنے کا درس اپنے دادا سے حاصل کیا اور مریم اورنگزیب کی توروزی روٹی ہی ایسے بیانات کے ساتھ وابستہ ہے لیکن عدلیہ کو بدنام کرنے کا معاملہ اتنا سیدھا نہیں کہ اس کے پیچھے پاکستان کے عوام کا مینڈیٹ غضب کرنے کی غیر آئینی کوششیں،نیب قوانین پر سپریم کورٹ سے ممکنہ فیصلہ اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کا حق ختم کرنے کے بدنیتی پر مشتمل اتحادی حکومت کے اقدامات پر اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے ممکنہ فیصلوں کا ڈر ہے۔اگر پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان پر ایک چھوٹی عدالت کی جج کے خلاف کارروائی کرنے کے بیان پر توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے تو سپریم کورٹ کے معزز ججوں کی جعلی آڈیو ریلیز کرنے، اپنے حق کا بنچ بنانے اور ان کے خلاف بیانات دینے کا معاملہ تو بہت سنگین ہے اور ریاست پاکستان سے بغاوت کا سیدھا سیدھا معاملہ ہے۔
سنجیدہ محب وطن طبقے موجودہ صورتحال جس میں اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو صرف اس لیے شدید تنقید کا نشانہ بنا کر کردار کشی کی جارہی ہے کہ ان سے اپنے من پسند فیصلے کروائے جا سکیں ،کو نہایت ہی خطرناک سمجھ رہے ہیں۔اب بھی اگر غیر آئینی و عوامی تائید سے محروم برسر اقتدار ٹولے کو توہین عدالت پر مثالی سزائیں نہ دی گئیں تو پھر یہ چلن عام ہو جائے گا اور پاکستان جو پہلے ہی بدترین معاشی قانونی اور سیاسی ابتری کا شکار ہے کاوجود خطرے میں پڑھ سکتا ہے۔