Editorial

دہشت گردوں کا کراچی پولیس آفس پر حملہ

کراچی پولیس آفس پر طالبان کے خودکش دستے کے حملے کے نتیجے میں رینجرز اور پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد شہید اور انیس زخمی ہوئے لیکن سکیورٹی اہلکاروں اور کمانڈوزکے دستوں کی فوری جوابی کارروائی میں تینوں دہشت گرد جہنم واصل ہوگئے۔ دہشت گرد چوتھی منزل تک پہنچے، اِن کی قانون نافذکرنے والے اداروں کے جوانوں کے ساتھ دوبدولڑائی ہوئی اور پولیس ترجمان کے مطابق پولیس کمانڈوز نے مقابلے کے دوران تین دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ ایک دہشت گرد پولیس کی فائرنگ کے دوران جیکٹ پھٹنے سے جبکہ دو پولیس کی فائرنگ کے تبادلے میں جہنم واصل ہوئے۔رینجرز ترجمان کے مطابق آپریشن کے دوران رینجرز کا ایک سب انسپکٹر تیمور شہید ہوا جبکہ سات جوان زخمی ہوئے۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے مطابق پشاور کے بعد کراچی میں بھی دہشت گردوں نے پولیس کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر حملہ کیا ہےکیونکہ دہشت گروں کے لیے پولیس دفاتر میں داخل ہونا نسبتاً آسان ہوتا ہے ۔کراچی میں دہشت گردوں نے اِس وقت حملہ کیا جب پاکستان سپرلیگ میں شریک ٹیمیں کراچی میں موجود تھیں اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کی نظریں اِس سنسنی خیز ٹورنامنٹ کے میچز دیکھنے کے لیے ٹی وی سکرین پر مرکوز تھیں، لہٰذا دہشت گردوں نے ایک طرف اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تو دوسری طرف پشاور کی طرح پولیس لائن کو ٹارگٹ کیا، یاد رہے کہ پشاور میں ہی دہشت گردوں کے خلاف پہلے محاذ پر سرگرم کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے کمپائونڈ پر حملہ آور ہوچکے ہیں، وزیر دفاع کے مطابق دہشت گرد پولیس کو سافٹ ٹارگٹ سمجھتے ہیں حالانکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پولیس اپنے حصے کا کام دیانت داری کے ساتھ کررہی ہے تاہم دہشت گردوں کا ایک مقصد پولیس میں خوف پیدا کرنا بھی واضح ہے لیکن بلاشبہ پولیس کے جوان اِس سے خوفزدہ نہیں ہوں گے مگر بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعد کراچی کا دہشت گردوں کی تاک پر آنا تشویش ناک ہے کیونکہ پاکستان پنے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے،تمام سٹیک ہولڈرز میں قومی اتفاق رائے ہو تو معیشت اور دہشت گردی کے بڑے چیلنجز کا دلیری اور دانائی کے ساتھ مقابلہ کیا
جائے مگر اِس وقت معیشت اور دہشت گردی کے ساتھ سیاسی عدم استحکام اور کھینچاتانی نے بھی تیسرے چیلنج کے طور پر جگہ بنالی ہے اور بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اربابِ اختیار کے نزدیک سب سے بڑا چیلنج ہی سیاست ہے اور دہشت گردی اور معیشت اِس کے بعد کے چیلنج ہیں۔ پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش حملے کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہاگیا تھا کہ پاکستان کی بقا، سلامتی اور ترقی کے بنیادی مفادات کا نہایت جرأت و بہادری مستقل مزاجی اور ثابت قدمی سے تحفظ کیا جائے گا۔ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں، پوری قوم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف ایک بیانیہ پر متحد ہے اور پاکستان کو للکارنے والوں کو پوری قوت سے جواب ملے گا۔ دہشت گرد پاکستان کے دشمن ہیں،قوم کی دعائیں اپنی بہادر افواج کے ساتھ ہیں، دہشت گردی کے خلاف آہنی عزم اور ثابت قدمی کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کی جائیں گی۔اِس افسوس ناک واقعے کے بعد وزیراعظم محمد شہباز شریف نے معیشت اور دہشت گردی کی صورت حال پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کیا لیکن آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد بھی سیاسی کھینچاتانی اور سیاست کی نذر ہوگیا اگر سیاسی قیادت حالات کی سنگینی کا درست ادراک کرتی تو یقیناً آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے ایک متفقہ لائحہ عمل قومی سطح پر سامنے آتا جو یقیناً معیشت اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ایک واضح تحریر ہوتی مگر سیاست دانوں کی کج بحثی اور آپس کی لڑائی نے سارا معاملہ ہی چوپٹ کردیا۔ سوال یہ ہے کہ دہشت گرد جس طرح منظم انداز میں پیش قدمی کررہے ہیں کیا اِن کی پیش قدمی روکنے کے لیے ہماری تیاریاں مکمل ہیں؟ ہم سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں یا نظریات کی بنیاد پر جتھوں میں تقسیم ہیں؟ اِن حالات میں جب دہشت گرد پولیس کی اہم تنصیبات کو ٹارگٹ کررہے ہیں اور متذکرہ تینوں کارروائیاں اُنہوں نے اندر داخل ہوکر کی ہیں کیا سڑکوں پر موجود عامۃ الناس اِن کی پہنچ سے دور ہیں؟ کیا ایسے حالات میںانتخابات کے انعقاد کا رسک لیا جاسکتا ہے، اِس وقت ترجیح کیا ہونی چاہیے ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ معیشت؟ صوبوں میں پھیلے منظم دہشت گرد؟ تاریخ کی بلند ترین مہنگائی ؟ عوام کے بنیادی مسائل یا پھر سیاسی کشمکش؟ حالات گمبھیر اور دور اندیشی کو مدنظر رکھنے کا تقاضا کررہے ہیں، سبھی کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی وگرنہ سبھی ذمہ دار ہوں گے، پاک فوج اور سکیورٹی فورسز کے جوان تو اپنے حصے کا کام کررہے ہیں، ہم اپنے حصے کا کام کرنے میں کب سنجیدہ ہوں گے؟ سیاسی قیادت نے آئین سے چھیڑ چھاڑ، انتقامی سیاست، عدم برداشت کو کبھی ختم ہی نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والے دن کے ساتھ قائدین کے درمیان فاصلے بڑھ رہے ہیں مگر اب لمحہ موجود میں بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے قوم کو دلاسے دینے کی بجائے اپنی اپنی روش پر غورکرنا چاہیے ، اپنا اپنا محاسبہ کریں وگرنہ یہی صورتحال برقرار رہی تو نقصان میں سبھی برابر کے شریک ہوں گے۔ اگر سیاسی قیادت نے اب بھی معیشت اور دہشت گردی کو بڑے چیلنجز کے طور پر نہ لیا تو اِس کے نقصان سے پوری قوم کودوچار ہونا پڑے گا، دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے لیے پاک فوج پرعزم ہے لیکن معاشی عدم استحکام کا خاتمہ کرنے کے لیے کیا آپ پُرعزم ہیں اور آپ کے پاس واقعی اِس کا کوئی حل ہے؟نیشنل ایکشن پلان بھی موجود ہے، دنیا کی بہترین فوج اور تجربہ کار سکیورٹی ادارے بھی، مگر سیاسی قیادت ایک پیج پر متفق نہیں ۔ آج وطن عزیز میں ایک بار پھر دہشت گردسر اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں، بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں عام شہریوں اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے، لہٰذا بلاتاخیر ان عناصر سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے جو ریاستی کے کلیدی تصور کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کا جائزہ لینا چاہیے اور جن نکات پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہوا، اُن پر بلاتاخیر کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر عمل کیاجائے کیونکہ قومی سطح پر اتفاق رائے کے بعد بیس نکاتی نیشنل ایکشن پلان ترتیب دے کرطے کیا گیا تھا کہ وطن عزیز کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے سنگین خطرات سے کیسے نجات حاصل کی جائے گی اور کس طریقے سے اس مخدوش صورتحال کا موثر اور مربوط طریقے سے سامنا کیا جائے گا۔وطن عزیز کی سیاسی اور عسکری قیادت نے ہمیشہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی مذمت بھی کی ہے اورفوری قلع قمع پر زور بھی دیا ہے، لہٰذا اب پوری طاقت کے ساتھ دہشت گردوں کو کچلنے کی ضرورت ہے، پہلے بھی پاک فوج اورسکیورٹی اداروں نے ملک کے کونے کونے سے دہشت گردوں کو ڈھونڈ نکالا، جو سرنڈر ہوئے انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایاگیااور جو اپنے انجام کو پہنچنا چاہتے تھے، وہ موقعے پر ہی جہنم واصل ہوئے ، ہمیں اِس عفریت سے بہرصورت نجات حاصل کرنی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button