ColumnKashif Bashir Khan

کس کس کا کندھا؟ .. کاشف بشیر خان

کاشف بشیر خان

 

آج بدھ ہے اور لاہور ہائیکورٹ کے واضح احکامات کے باوجود آئین پاکستان کو اپنے مقاصد کیلئے موم کی ناک بنانے کی بھرپور کوششیں جاری ہیں۔ایک جانب سیاسی مخالفین پر تیزی سے بغاوت کے مقدمات ایسے درج کئے جارہے ہیں جیسے کسی مارشل لاء کے دور میں بھی درج نہ ہوئے دوسری جانب آئین پاکستان سے جبر کرنے کی بھرپور کوششیں کرنے والوں کو کھلا چھوڑ کرآئین پاکستان اور ریاست کو مذاق بنا دیا گیا ہے۔پاکستان کو ایسی ریاست کا نمونہ بنایا جا رہا ہے جہاں جنگل کا قانون ہوتا ہے اور جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مصداق جس کا اقتدار اُس کا قانون اور آئین والا معاملہ چل رہا ہے۔
الیکشن کمیشن کے ذرائع اور ترجمان کے مطابق گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن اور الیکشن کمیشن کے حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات میں گورنر پنجاب نے سردست صوبائی اسمبلی پنجاب کے انتخابات کی تاریخ نہیں دی اور سیکرٹری الیکشن کمیشن نے گورنر پنجاب کو جب بریف کیا کہ عدالت عالیہ کے حکم کے مطابق صوبہ میں جنرل الیکشن صوبائی اسمبلی پنجاب کے انعقاد کی تاریخ پر مشاورت کیلئے الیکشن کمیشن کی ہدایت پر یہ میٹنگ ہو رہی ہے توگورنر پنجاب نے کہا کہ، کیوں کہ پنجاب اسمبلی انہوں نے تحلیل نہیں کی لہٰذ ا وہ آئین کے تحت الیکشن کی تاریخ دینے کے مجاز نہیں۔ اس صورتحال میں ان کی تجویز الیکشن کمیشن پر Binding نہیں ہوگی اور وہ کوئی ماورائے آئین و قانون اقدام اٹھانا نہیں چاہتے۔ اس کے علاوہ گورنر پنجاب نے یہ بھی کہا کہ عدالت عالیہ کا فیصلہ تشریح طلب ہے جس کیلئے ہم قانونی راستہ اختیار کر رہے ہیں تاکہ آئین و قانون کی ضروری تشریح کی جائے۔ لہٰذا انہوں نے سردست صوبائی اسمبلی پنجاب کے انتخابات کی تاریخ نہیں دی۔اس کے علاوہ گورنر پنجاب کا کہنا تھا کہ چیف سیکریٹری اور آئی جی پنجاب 8 فروری کو الیکشن کمیشن سیکریٹریٹ اسلام آباد میں پنجاب کے فنانشل اور سیکورٹی مسائل کے حوالے سے الیکشن کمیشن کو تفصیلی بریفنگ دے چکے ہیں لہٰذا آج کے مشاورتی اجلاس میں دوبارہ بریفنگ کی ضرورت نہیں۔
وفاقی حکومت قومی اسمبلی میں برسر اقتدار ہے اور اتحادی جماعتوں کی خواہش ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں جو ان کی اپنے لوگوں پر مشتمل نگران حکومتیں بنی ہیں ان کی مدت کو بڑھایا جائے لیکن شاید وہ ایسا کرنے کی کوشش میں بھول چکے ہیں کہ ریاست پاکستان کا ایک آئین بھی ہے جس کی حفاظت کا ذمہ عدالتوں کا ہے اور اگر اتحادی حکومتوں کو آئین پاکستان سے کھلواڑ کی اجازت دے دی گئی تو پھر پاکستان میں نہ تو جمہوریت باقی رہے گی اور نہ ہی عدلیہ کی آزادی۔یہ حقیقت ہے کہ جس بھی ریاست میں سیاسی استحکام نہیں ہوتا وہاں معاشی استحکام کا سو ا بھی نہیں جا سکتا اور پاکستان میں تو تمام وہ لوگ اقتدار میں ہیں جو ماضی میں اربوں کی کرپشن میں ملوث رہے اور ان پر سابقہ نیب پر مقدمات چل رہے تھے کہ انہیں اٹھا کر حکومت تھما دی گئی۔قانون قدرت کے برعکس جن لوگوں کو برسر اقتدار کیا گیا وہ اب سمجھ چکے ہیں کہ عوام کی عدالت میں ان کوجانے میں انتہائی مشکل ہوگی اور انہیں سپریم کورٹ کی جانب سے نیب قوانین میں مشکوک ترامیم ختم کرنے کا دھڑکا بھی لگا ہوا ہے۔پاکستان کے عوام کو اضطراب میں مبتلا کرنے والے سیاستدان و ہی ہیں جو جنرل ضیالحق کے سیاسی بطن سے برآمد ہوئے اور انہوں نے پاکستان کی سیاست میں گالی گلوچ کرپشن اور سیاسی خریدوفروخت کا چلن عام کیا۔آج پاکستان جس دوراہے پر کھڑا ہے وہاں آگے گڑھا اور پیچھے گہری کھائی ہے جو پاکستان کی سالمیت کے تناظر میں نہایت ہی خطرناک ہے۔
دوسری جانب جس طریقے سے وفاقی حکومت نے سیاسی انتقام پر مشتمل کارروائیاں شروع کی ہوئی ہیں اس نے سیاست دانوں اور صحافیوں میں خوف و ہراس کے ساتھ شدید غم و غصہ کو جنم دیا ہے اور بغاوت کے مقدمات کو تو مذاق بنا دیا گیا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان میں جس بھی حکومت نے انتقامی کارروائیاں کی تھیں، ان کے دن گنے گئے۔ اندازہ کریں کہ جس ملک کا سب سے بڑا وفاقی تحقیقاتی ادارہ غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی آڈیو کال پر سابق وزیر خزانہ شوکت ترین پر بغاوت کا مقدمہ درج کر کے انہیں گرفتار کرنے جا رہا ہو وہاں کون سا طرز حکومت ہے اور آئین پاکستان کو روندنا کون سے بڑی بات ہے۔
جمہوریت میں سیاسی جماعتوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے اور یہ سیاسی جماعتیں ہی ہوتی ہیں جو انتخابات میں اپنے منشور اور منصوبوں کے وعدوں کے ساتھ انتخابات لڑتی اور جیتتی اور ہارتی ہیں لیکن جب اقلیتی جماعتیں بزور خفیہ طاقت اقتدار میں آتی ہیں تو پھر وہ وہی کچھ کرتی ہیں جواس وقت اتحادی جماعتیں اس وقت کر رہی ہیں یعنی آئین پاکستان کو روند کر انتخابات سے راہ فرار۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال نہایت خطرناک ہو چکی ہے اور میرے وہ نادان اور کم علم دوست جو کچھ مہینوں سے مجھ سے یہ گلہ کر رہے تھے کہ آپ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کو 1971 سے کیوں مماثل قرار دے رہے ہیں تو ان سے اپیل ہے کہ اب روشنی ڈالیں کہ جس طرح جنرل یحییٰ خان نے 1971 میں اقتدار منتقل نہیں کیا تھا اسی طرح موجودہ حکمران کیا اقتدار بچانے کیلئے انتخابات سے نہیں بھاگ رہے؟اس وقت تو پاکستان کے پاس آئین بھی نہیں تھا جبکہ آج تو آئین پاکستان بھی موجود ہے اور موجودہ اتحادی حکمران آئین پاکستان کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال پاکستان کی سالمیت سے کھلواڑ کرنے والوں نے وہاں پہنچا دی ہے جہاں تباہی ہی تباہی نظر آ رہی ہے اور پاکستان میں جو لنگڑی لولی جمہوریت تھی اس کا جنازہ اب دو گام پر ہی نظر آ رہا ہے۔ملک میں نظام کو تباہ برباد کرنے والے آئین پاکستان اور جمہوریت کا جنازہ نکالنے کیلئے ہر حد تک جاتے دکھائی دے رہے ہیںاور اگر فوراً سے پیشتر اعلیٰ عدلیہ نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو پھر جمہوریت کا نماز جنازہ ہو گا،مگر کندھا کس کس کا ہوگا اُن سب کو پتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button