ColumnImtiaz Ahmad Shad

پانی ،ایک توجہ طلب مسئلہ .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جسے اللہ نے ہر قسم کی نعمت سے نوازا ہے۔ چراگاہیں،ذرخیز زمینیں، ریگستان، نخلستان، پہاڑ، گلیشئیرز اور سب سے بڑھ کر ہر قسم کے موسم، یہ بلاشبہ کسی نعمت سے کم نہیں۔انہی میں سے ایک نعمت پانی ہے، اکثر ہم نے سُنا ہوگا کہ پانی زندگی ہے، اس جملے میں اس قدر گہرائی ہے کہ شاید ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے، پاکستان ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل ہے جن کے پاس پانی کے بڑے بڑے ذخائر ہیں لیکن اب یہ ذخائر گویا اپنے خاتمے کی طرف جارہے ہیں تبھی تو اِرسا(انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) نے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ صورتحال یہی رہی تو ممکن ہے کہ 2025 تک ملک میں پانی کا شدید بحران ہوگا۔ پانی کا یہ مسئلہ نیا نہیں لیکن آہستہ آہستہ سنگین نوعیت اختیار کررہا ہے، ہم دنیا کے ان 36 ممالک میں شامل ہیں جہاں پانی کا سنگین بحران ہے۔دنیا میں پانی کے بحران کا شکار ممالک کی فہرست میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے،علاوہ ازیں پاکستان کے24 بڑے شہروں میں رہنے والے 80 فیصد لوگوں کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے،اور صرف کراچی کی کچی آبادیوں میں رہنے والے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ گھروں میں پانی آتا ہی نہیں۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق پاکستان میںتین کروڑ افراد صاف پانی تک رسائی سے بھی محروم ہیں اوریہاں فی شخص سالانہ پانی کی دستیابی ایک ہزار کیوبک میٹر سے بھی کم ہے،اگر یہ فی شخص سالانہ 500 کیوبک میڑ تک پہنچ جاتا ہے تو عین ممکن ہے کہ 2025 تک پانی کی قطعی کمی واقع ہوجائے۔پاکستان میں پانی کے بحران میں بہت سے عوامل کارفرما ہیں، جیسے شہری علاقوں میں آبادی میں تیزی سے اضافہ، زراعت، پانی کے نظام کی بد انتظامی اور آب و ہواماحولیاتی تبدیلی۔آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے 2017میں یہاں آبادی اٹھارہ کروڑ تھی جو اب بائیس کروڑ سے تجاوزکر چکی ہے،اس لحاظ سے 2025 تک پاکستان کی پانی کی طلب 274 ملین ایکڑ فٹ،جبکہ پانی کی فراہمی 191 ملین ایکڑ فٹ تک ہوسکتی ہے۔پاکستان زرعی ملک ہے اور ہماری معیشت کا انحصار بھی زراعت پر ہی ہے۔ پُرانے فرسودہ کاشتکاری کے رائج طریقہ کار کی وجہ سے فصلوں کی کاشت میں 95 فیصد ملک کا پانی استعمال ہوجاتا ہے جو نہایت سنگین ہے،آبپاشی کے ناقص نظام کی وجہ سے 60 فیصد ملک کا پانی ضائع ہورہا ہے۔پاکستان بارش،برف اور گلیشیئر پگھلنے سے اپنا
پانی حاصل کرتا ہے کیونکہ ملک کا 92 فیصد حصہ نیم بنجر ہے لہٰذا پاکستان اپنی پانی کی فراہمی کیلئے بارش پر منحصر ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی کی وجہ سے مٹی میں موجود پانی بھی تیزی سے بخارات بن کر سوکھ رہا ہے، جس سے فصلوں کیلئے پانی کی طلب میں بھی اور اضافہ ہورہا ہے۔واش واچ اورگنائزیشن کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق آزادی کے وقت پاکستان میں فی صد پانی کی مقدار 5 ہزار چھ سو کیوبک میٹرز تھی جبکہ اب وہ کم ہو کر فی صدایک ہزار 17کیوبک میٹرز رہ گئی ہے جوکہ ایک پریشان حد تک کم سطح ہے لگ بھگ ایک کروڑ 60 لاکھ لوگوں کے پاس گندا پانی پینے کے سوا اور کوئی چارا ہی نہیں۔پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملک میں بیماریوں کی وجہ سے ہونے والی اموات میں 40 فیصد اموات پیٹ کی بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جس کی بنیادی وجہ آلودہ پانی کا استعمال ہے۔
2009 کی ایک رپورٹ کے مطابق 2030 تک ترقی پذیر ممالک میں پانی کی طلب 50 فیصد تک بڑھ جائے گی۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2025 تک آدھے سے زائد دنیا پانی کی قلت اور کسی حد تک خشک سالی کا شکار ہوجا ئے گی، اس کا مطلب ہے کہ آدھی سے زائد دنیا پانی سے محروم ہو جائے گی۔پاکستان ریسرچ ان واٹر ریسورسس کے مطابق، 2005 میں پاکستان میں آبی قحط کی حد عبور کی جاچکی ہے، دنیا کے سب سے زیادہ پانی استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں ہم چوتھے نمبر پر ہیں جہاں پانی کے استعمال کی شرح خطرناک حد تک ہے جبکہ پانی کی شدت کی شرح فی یونٹ جی ڈی پی میں استعمال ہونے والے پانی کی مقدار پریشان کن ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ایک اہم مسئلہ ڈیموں کی قلت بھی ہے ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی مناسب نظام نہیں ہے، پاکستان پانی کا صرف10 فیصد ہی ذخیرہ کرپاتا ہے۔ارسا پہلے ہی خبردار کرچکا ہے کہ اگر
ملک میں مون سون کی بارشیں نہیں ہوتیں تو پانی کا بحران مزید بڑھ جائے گا جبکہ آئی ایم ایف، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی مختلف رپورٹس میں بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پانی کا بحران تیزی سے
بڑھتا جا رہا ہے اور 2040 تک پاکستان خطے کا سب سے کم پانی والا ملک بن سکتا ہے، پورے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کے صرف 2بڑے ذرائع ہیں جن کی مدد سے محض 30 دن کا پانی جمع کیا جاسکتا ہے۔کیا یہ ہمارے لیے کافی ہے؟سال 2017 میں ارسا نے سینیٹ میں بتایا تھا کہ پانی کے ذخائر
نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال 21 ارب روپے مالیت کا پانی ضائع ہوجاتا ہے اور جتنا پانی سمندر میں جاتا ہے اسے بچانے کیلئے منگلا ڈیم کے حجم جتنے 3 مزید ڈیموں کی ضرورت ہوگی۔پاکستان کو پانی کے شدید بحران سے بچانے کیلئے ضروری ہے کہ ڈیم بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کے ضیاع کو روکنے کے اقدامات بھی کئے جائیں۔ 2017 میں حکومتِ پاکستان نے مقامی اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ دو ڈیموں کی تعمیر کیلئے چودہ بلین ڈالر کے منصوبے کیلئے فنڈنگ میں مدد فراہم کریں، جس کے سبب ڈیم سے ضائع ہونے والے پانی کو محفوظ رکھنا ممکن ہوسکے گا تبھی ہم اپنی آنے والی نسل کیلئے پانی بچا سکتے ہیں۔اگرچہ عوام سمیت کئی پاکستانی مشہور شخصیات نے بھی ڈیم کیلئے چندہ دیا ہے، لیکن اس منصوبے کو مکمل کرنے کیلئے ابھی بھی بہت زیادہ رقم درکار ہے۔اسکے علاوہ پہلا قدم جو اٹھایا جانا چاہیے وہ یہ ہے کہ عوام کو حالات سے واقفیت کیلئے پروگرام اور پیغامات چلائے جائیں جس سے عوام انفرادی طور پراس مسئلے کو سمجھیں اور پانی کے تحفظ کی پوری کوشش کر سکیں۔ پاکستانی عوام کو صورتحال سے اچھی طرح آگاہ کیا جانا چاہیے، تاکہ وہ ممکنہ طور پر زیادہ سے زیادہ گیلن پانی کی بچت کرسکیں۔مزید برآں، ماہرین نے ملک میں پانی کی قلت پر قابو پانے اور اس کے بے دریغ استعمال کو روکنے کیلئے نیشنل واٹرپالیسی کے مطابق واٹر ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم تربیلا ڈیم جیسے پانچ بڑے ڈیمز جتنا پانی ضائع کر رہے ہیں اور اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو ملک کو فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ بھی درپیش ہوسکتا ہے۔ہمیں بحیثیت قوم کچھ کرنے کی ضرورت ہے، موقع کی نزاکت کو سمجھنا نہایت ضروری ہے اور ہمیں چاہیے کہ انفرادی طور پر اپنا کردار ادا کریں، ایسا نہیں کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے ہم خود اپنی روزمرہ زندگی میں پانی کو احتیاط سے استعمال کرکے کچھ بہتری لاسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button