ColumnZameer Afaqi

ملکی صورتحال پر معاشی دانشوروں کی تجاویز .. ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

 

پاکستا ن کی معاشی ،سماجی اور سیاسی صورتحال پر ہر طبقہ ہائے فکر میں تشویش پائی جارہی ہے المیہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے کہیں کوئی سنجیدگی نظر نہیں آرہی، اب کئی دو رائے نہیں رہی کہ اس وقت پاکستان کاعام آدمی انتہائی پریشانی کے عالم میں زندگی گزار رہا ہے، مہنگائی لاقانونیت اور سرکار کی غیر فعالیت نے رہی سہی کسر نکال کر رکھ دی ہے۔ گزشتہ دنوں تاجروں کی مرکزی دانش گاہ لاہور چیمبر آف انڈسٹری میں صدر کاشف انور کی دعوت پر لاہور کے دانشوروں ،صحافیوں کالم نگاروں، ریٹائر بیوروکریٹ اور ممتاز تاجروں کیلئے فکری نششت کااہتمام کیا گیا جس کی میزبانی لاہور چیمبر کے سابق صدر اور پولٹری انڈسٹری کے ممتاز صنعتکار عبدالباسط نے کی جبکہ سابق بیوروکریٹ اور فیئر گروپ کے چیئرمین ڈائریکٹر وفاقی متحسب برائے انشورنس باسط خان کی زیرقیادت فیئر گروپ کے دیگر ممبران ، ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم،حامد ولید، ڈاکٹراکرام الحق ،حزیمہ بخاری ،شیر علی خالطی میاں سیف الرحمن اور میاں حبیب سمیت دیگر احباب نے شرکت کی اور موضوع سے جڑے امور پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ،اس اجلاس میں میں ملکی معاشی صورت حال پر کھل کر با ت کی گئی بلکہ انتہائی اہم تجاویز بھی سامنے آئیں جن میں سستی بجلی سے لیکر سیاحت ،فلم انڈسٹری کے فروغ کے ساتھ مقامی صنعت کو مراعات دینے کی بات بھی کی گئی بلکہ ٹیکسز کی وصولی کے طریقہ کار کو شفاف اور صاف بنانے کے ساتھ زور دیا گیا کہ ہمارے ٹیکسوں کا استعمال عوامی مسائل کے خاتمے کیلئے ہونا چاہیے ناکہ حکومتی اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ ہو۔
ایوان صنعت و تجارت کے نمائندگان اور معاشی ماہرین اور دانشووں نے ملک کی اقتصادی صورتحال، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور موجودہ مارکیٹ کی صورتحال اور مستقبل کے اقدامات پر بات چیت کرتے ہوئے۔تاجروں نے ملک کے ممتاز ایوانوں اور معاشی شعبوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اقتصادی سرگرمیوں کے فروغ اور طویل اور قلیل مدت کی بنیاد پر معیشت کے استحکام کیلئے مختلف تجاویز پیش کیں ،انہوں نے کہا کہ بعض عناصر ملک میں اقتصادی غیریقینی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملکی تاجر ملکی معیشت کے استحکام کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملک کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مقابلہ کرنے کیلئے جدید ٹیکنالوجی میں ترقی عصر حاضر کی اشد ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی جدیدٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کرنے کیلئے نجی شعبہ سے تعاون اور عملی مدد کیلئے کوئی آسان لائحہ عمل ترتیب دینا ہو گا۔ پاکستان میں ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے شعبہ میں بھی کمی محسوس ہوتی ہے۔ صنعتکاروں اور تاجروں کا مشورہ تھا کہ وہ تجارت کے فروغ کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یقینی بنائیں، اس سے پاکستانی کمپنیوں کی تکنیکی صلاحیتیں نکھریں گی، پیداواری صلاحیتوں میں بھرپور اضافہ ہو گا۔ حکومت کوصنعتکاروں اور تاجروں کے مسائل کے حل پو خصوصی توجہ دینا ہو گی تاکہ تاجر برادری پر سکون اور باوقار ماحول میں اپنے کاروباری امور کو آگے بڑھا سکے۔ ملکی، معیشت کو بھنور سے نکالنے کیلئے تاجر برادری نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہاں پر یہ بھی کہا گیا کہ حکومتی سطح پر پاکستانی مصنوعات کی خریداری کے رجحان کو فروغ دیا جائے تاکہ ملکی صنعت ترقی کر سکے۔
دانشوروں کا یہ گروپ گاہے اس طرح کے اجلاس جس میں ملکی اہم امور زیر بحث لائے جاتے ہیں ،کا انعقاد کرتا رہتا ہے جس کا مقصد ملکی ایلیٹ تک مسائل کی نشاندہی کے ساتھ تجاویز پہنچانا ہے تاکہ پاکستان ایک آزاد خود مختار ملک کے طور پر جانا جاے۔ یہ سچ ہے کہ اس وقت جو اعداد و شمار سامنے آرہے ہیں اور جو رپورٹ نظر سے گزر رہی ہے وہ تشویش میںمبتلا کرنے والی ہیں۔ تیزی سے بڑھتی مہنگائی ، ملکی معاشی صورتحال اور ملکی سمت پر عدم اطمینان کا اظہار کرنیوالے پاکستانیوں کی شرح میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ابھی حال ہی میں ایک موقر جریدے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ
میں بتایا گیا ہے کہ مارچ2021میں 32فیصد پاکستانی مہنگائی کو اہم مسئلہ کہتے تھے لیکن اب 44فیصد بڑھتی مہنگائی پر پریشان ہیں۔ ملکی سمت کو غلط کہنے والے پاکستانیوں کی شرح جو گزشتہ سال 73 فیصد تھی اب 80فیصد ہوگئی ہے۔ اسی طرح ملکی معیشت کی موجودہ صورتحال پر مایوسی کا اظہار کرنے والے پاکستانیوں کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 14فیصد اضافے کے بعد 41فیصد پر آگئی ہے، مستقبل میں معاشی بہتری کے سوال پربھی 49فیصد پاکستانی مایوس ہیں اور معیشت کے کمزور رہنے کا خدشہ ظاہر کررہے ہیں۔ اس بات کا انکشاف ریسرچ کمپنی اپسوس پاکستان کے 2022 کےکنزیومر کانفیڈنس سروے کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ میں ہوا۔ جس میں ملک بھر سے 1ہزار سے زائد افراد نے حصہ لیا۔ یہ سروے24فروری سے یکم مارچ 2022 کے درمیان کیا گیا تھا۔سروے میں دیکھا گیا کہ مہنگائی کو اہم مسئلہ کہنے والے پاکستانیوں کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 12فیصد اضافے کے بعد 44فیصد ہوگئی ہے۔جس کے بعد 16 فیصد پاکستانی بیروزگاری کو ملک کا اہم مسئلہ کہتے ہیں۔ 11فیصد غربت ، 6فیصد ٹیکسوں کے اضافی بوجھ،4 فیصد بجلی کی قیمتوں میں اضافے، 3فیصد کرونا وائرس کی وبا، 3فیصد روپے کی قدر میں کمی ،2 فیصد کرپشن، رشوت ستانی، ملاوٹ اور اقربا پروری،2 فیصد قانون اور انصاف کے نفاذ میں امتیازی سلوک، 1فیصد دہشت گردی جبکہ 1فیصد صحت اور علاج کی سہولتوں کے فقدان کو ملک کا اہم مسئلہ خیال کرتے رہے ہیں۔سروے میں دیکھا گیا کہ اگست 2019 کے بعد سے پاکستانی بیروزگاری اور مہنگائی کو مسلسل اہم مسائل کی فہرست میں سب سے اوپر شمار کرتے ہیں۔ سروے میں ملکی مجموعی سمت کے سوال پر ہر 5 میں سے 4 پاکستانی یعنی 80فیصد نے ملکی سمت کو غلط کہا جبکہ 20 فیصد نے ملکی سمت کو درست قرار دیا۔گزشتہ سال کی پہلی سہ ماہی میں ملکی سمت کو غلط کہنے والوں کی شرح 73فیصد تھی۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال پر البتہ یہ دیکھا گیا کہ 51 فیصد پاکستانیوں نے اس پر درمیانہ موقف اختیار کیااور اسے نہ کمزور نہ مضبوط کہا، لیکن 41 فیصد نے دو ٹوک رائے دی اور ملکی معیشت کو کمزور کہا جبکہ 8 فیصد نے ملکی معیشت کو مضبوط کہا۔ گزشتہ سال پہلی سہ ماہی کی سروے رپورٹ میں ملکی معیشت کو کمزور کہنے والوں کی شرح 27فیصد تھی اورموجودہ سروے میں اس میں 14فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔مندرجہ بالا سوالات غور فکر کی دعوت دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button