ColumnImtiaz Ahmad Shad

موت کا ایک دن متعین ہے! .. امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

 

موت کا کوئی بھروسہ نہیں، مرنے کیلئے کسی مذہب پر کاربند ہو نے کی بھی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی خاص خطے کے لوگ موت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ہم پیدا ہوتے ہی موت کی جانب پیش قدمی شروع کردیتے ہیں۔ یقیناً اگر موت کا تصور یا موت نہ ہوتی تو زندگی کا کوئی مزہ نہ ہوتا۔ موت کا مقصد ہی یہی ہے کہ قدرت کی نعمتوں کا احترام کرو اور ان کا غلط استعمال نہ کرو۔موت ایک انتہائی کڑوا سچ اور اٹل حقیقت ہے۔ موت کے لاتعداد بہانے ہیں۔ یقیناً دنیا کے تمام مذاہب اس بات پر متفق ہوں گے کہ ’’موت کا ایک دن متعین ہے‘‘ اور اگر نہیں بھی ہیں تو ایسا ہی ہے۔ دنیا میں ایسے بھی خطے ہیں جہاں انسان کی عمریں اوسط عمر سے زیادہ ہیں مگر اس کا مطلب یہ قطعی نہیں لیا جاسکتا کہ وہاں تک موت کی رسائی نہیں۔ اسلام کی رو سے یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ جو پیدا ہوا ہے اسے مرنا پڑے گا کب، کہاں اور کیسے یہ تو کاتبِ تقدیر کی صوابدید پر منحصر ہے۔ موت خودکش حملہ آور کو بھی آنی ہے اور اسے بھی جو ہزاروں افراد کے حفاظتی اور آہنی حصار میں ہے۔ شاید دنیا میں کسی بھی ذی روح کیلئے موت سے بڑھ کر اور کوئی خوف نہیں ہو سکتا۔ نہ جانے موت کے خوف میں مبتلا لوگ دوسرے لوگوں کو موت کی گھاٹ اتارنے پر کیوں تلے رہتے ہیں۔ انسان کی سوچ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کا حصول جب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ جب بٹوارے میں کم لوگ ہوں یا پھر کوئی اور نہ ہو۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جیسا ہم سوچ رہے ہیں جس طرح ہمیں شیطانی سوچوں نے گھیرا ہوا ہے بالکل اسی طرح کوئی دوسرا بھی سوچ سکتا ہے اور اس سے بڑھ کر سوچ لیتا ہے۔ بزرگوں سے یہ کہتے سنا کہ قدرت جب کسی کی بربادی کا فیصلہ کرلیتی ہے تو سب سے پہلے اس کی عقل پر پردے ڈال دیتی ہے۔ عقل پر پردے ڈالنے سے مراد کہ وہ سیدھا کام بھی کرے گا تو وہ الٹا ہوتا چلا جائے گا۔ یہ ایک غور طلب بات ہے اور اس کی وضاحتیں ہمارے اردگرد ہونے والے واقعات میں پوشیدہ ہیں۔
وہ بھی حاکم تھے جو اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ ان کی حکومت میں کوئی جانور بھی بھوکا مرے گا تو اس کا جواب روزِ محشر دینا پڑے گا، عدل کی ایک اعلیٰ مثال یہ ہے کہ جنگل میں کسی چرواہے کی بکری شیر نے کھالی۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ چرواہا مدینہ پہنچا اور استفسار کیا کہ کیا خلیفہ وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نہیں رہے۔ معلوم ہوا کہ آپ کا وصال ہوگیا ہے۔ کیا یقین تھا۔ یہ مسلمان حکمرانوں کیلئے اعلیٰ ترین مثال ہے۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے مروجہ قوانین نافذ ہیں اور ان ممالک کے معاشرے دنیا میں امن و ترقی کی اعلیٰ میعار قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہاں بندے ہر لمحے بھوک افلاس کی وجہ سے، علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے، لاقانونیت کی وجہ سے لقمہ اجل بنتے جا رہے ہیں مگر حاکمِ وقت نرم گداز اور پر تعیش شبستانوں میں نہ صرف خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں بلکہ خلق خدا کی حالت زار پر قہقہے بھی لگا رہے ہیں۔وطنِ عزیز میں اسلامی نظام رائج ہے یہاں اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر مجھے یہ لکھتے ہوئے شرم محسوس ہورہی ہے کہ اس ملک میں عوام دھماکوں کی زد میں آکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں،دہشت گردی پر قابو پانے کے بڑے بڑے دعوئوں کے باوجودپشاور ایک مرتبہ پھر لہو لہو ہے، مگر ہمارے حکمران آج بھی وی آئی پی پروٹوکول میں گھومتے ہیں۔ حکمرانوں کے حفاظتی حصار کی حد یہ ہے کہ ایک طرف ساری ٹریفک معطل تو دوسری طرف شہر کی آدھی سے زیادہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نفری ان کی حفاظت پر مامور ہوتی ہے۔ عام آدمی کی زندگی کسی سرکاری ہسپتال کے کوریڈور میں پڑی دم توڑدیتی ہے اور کوئی اس کے ورثا کے آنسو پونچھنے والا نہیں ہوتا۔ عوام کو بھی بہت اچھی طرح علم ہے کہ ہمارے حکمران کس طرح کے لوگ ہیں۔ دوسری طرف عوام کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والے ادارے جو کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بناتے ہیں خود اپنے گرد آہنی و ناقابلِ تسخیر دیواریں بناتے نظر آتے ہیں۔ جن کا اولین کام عوام کو تحفظ فراہم کرنا ہے وہ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ ہمارے منصف کسی بھی قسم کا فیصلہ کرنے سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم ہماری عدالتوں نے کبھی کوئی ایسا فیصلہ صادر کیا ہو جسے بعد میں کالعدم نہ ٹھہرایا گیا ہو۔ہم لوگ خوف
زدہ ہیں۔ ہمارا خوف کون دور کرے گا۔ موت ان کو بھی آجائے گی جو نا قابلِ تسخیر قلعوں میں رہتے ہیں اور ان کو بھی جو بغیر چھت اور دیوار کے رہتے ہیں۔ جب ہم سب کو موت کا مزہ چکھنا ہی ہے تو پھر کیوں موت سے اتنے خوفزدہ رہتے ہیں۔ کوئی ہے کہ ہر وقت مرنے کیلئے تیار بیٹھا ہے اور کوئی ہے کہ مر مر کر بھی زندہ ہے۔ پشاورکا واقعہ اپنی سنگینی کی نوعیت سے کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ہر بار نقصان اٹھانے کے بعد ہی کیوں تدبیریں کی جاتی ہیں اور یہ تدبیریں وقتی کیوں ہوتی ہیں۔ کیوں ہمارے ادارے ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کا انتظار کرتے ہیں۔ ہم بطور قوم ہمیشہ سے ہی اپنے دشمنوں کے خلاف ایک ہیں لیکن قانون ساز اداروں میں قانون شکن لوگ بیٹھے ہوں، قانون کی بالادستی قائم کرنے والے غیر محفوظ ہوں اور جہاں قانون کے مطابق ملک چلانے کا درس دینے والے آنکھوں پر پٹی باندھے رکھیں، ایسے ملک کی اور اس کے عوام کی حفاظت کی ذمہ داری کون لے گا۔ہماری اخلاقی موت ہو چکی،دہشت گردی ہماری دو دہائیاں کھا گئی،ہماری معیشت کا جنازہ کب کا پڑھا جا چکا،آئی ایم ایف کب سے ہمارے گلے میں پٹہ ڈال ملک ملک گھماتا پھر رہا ہے۔غیرت ،حمیت او ر خودداری کی ٹرین نہ صرف زنگ آلود ہو چکی بلکہ وہ پٹڑی ہی ہم نے اکھاڑ دی جس پر وہ ٹرین کبھی چلا کرتی تھی۔بزدلی ،حماقت اور حرام خوری ہمارے خون کے تمام خلیوں میں سرائیت کر چکی۔ سیاست کے طرم خانوں اور ریاست کے کرتا دھرتائوںنے عوام کے اندر سے وہ مدھم روشنی بھی گل کر دی جسے امید کا دیا سمجھ کر کبھی کبھار عوام نام کی بھیڑ بکریاں اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آ جایا کرتی تھیں۔افسوس کہ ہم بطور قوم ہر روز جیتے اور مرتے ہیں۔ 22کروڑ مویشیوں کو ریورڑ جس طرف جو چاہتا ہے ہانک کر لے جاتا ہے۔یاد رکھنا جس موت کا ذکر اللہ تعالیٰ کیا ہے وہ موت یقینی ہے مگر یہ موت جس کا سامنا ہمیں ہر روز کرنا پڑتا ہے یہ موت ہماری بے حسی اور بد نیتی کے وجہ سے ہے، اسے موت نہیں سزا کہتے ہیں جس کے بارے میں ٹیپو سلطان نے کہا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔

جواب دیں

Back to top button