ColumnRoshan Lal

کراچی میں بلدیاتی انتخابات ۔۔ روشن لال

روشن لعل

 

صوبہ سندھ کے کراچی اور حیدرآباد ڈویژنوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر چھائے شکوک و شبہات کے تمام بادل چھٹ چکے ہیں ۔تاریخ پہ تاریخ ملتے رہنے کے بعد اب یہ بات حتمی سمجھی جارہی ہے کہ 15 جنوری 2023کو کراچی اور حیدرآباد ڈویژنوں میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن ہو کر ہی رہیں گے۔ ملک کی سب سے بڑی ڈویژن حیدر آباد،نواضلاع ٹھٹھہ،بدین، سجاول، دادو، مٹیاری، جام شورو، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمد خان اور حیدر آباد پر مشتمل ہے جبکہ کراچی ڈویژن کے سات اضلاع کے نام کراچی ایسٹ، کراچی ویسٹ، کراچی سائوتھ، کراچی سینٹرل، ملیر، کیماڑی اور کورنگی ہیں۔
سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے انعقاد کی تاریخوں اور شیڈول کا اعلان اپریل2022 کو ایک ساتھ کیاگیا تھا۔ پہلے مرحلے کے الیکشن تو شیڈول کے عین مطابق 24 جون 2022 کوہو گئے مگر دوسرے مرحلہ قریباً سات ماہ بعد اب 15 جنوری 2023 کوہورہا ہے۔ جب سندھ میں بلدیاتی الیکشن کے شیڈول کا اعلان ہوا تومخالف سیاسی جماعتوں نے سندھ حکومت پر یہ الزام لگایا تھاکہ جن اضلاع میں پیپلز پارٹی کی جیت یقینی ہے وہاں اس لیے پہلے مرحلے میں بلدیاتی الیکشن کرائے جارہے ہیں تاکہ قبل ازیں حاصل ہونے والی جیت کے تاثر کا فائدہ حیدر آباد اور کراچی ڈویژن کے الیکشن میںا ٹھایا جاسکے۔ بلدیاتی انتخاب کے شیڈول کے متعلق ظاہر کیے گئے مذکورہ خدشات کواگر درست مان لیا جائے تو پھر بھی خاص علاقوں میں خاص اوقات کے دوران الیکشن کرانے کے شیڈول کو حکمت عملی تو کہا جاسکتا ہے مگر قبل از انتخاب دھاندلی تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان میں کیونکہ کوئی ایک انتخابی عمل بھی دھاندلی کے الزامات سے پاک ثابت نہیں ہو سکااس لیے ملکی روایت کے عین مطابق دیگر مخالف جماعتیں عمومی اور ایم کیو ایم خاص طور پر دل کھول کر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر قبل از الیکشن اور الیکشن کے دوران ممکنہ دھاندلی کرنے کے الزامات لگا رہی ہے۔
15جنوری2023کوبلدیاتی انتخاب حالانکہ ان حلقہ بندیوں کے مطابق ہوگا جن پر ایم کیو ایم کے امیدواروں نے کسی قسم کا اعتراض ظاہر کیے بغیر 2022 میں اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے مگراس کے باوجود ایم کیو ایم نے نئی حلقہ بندیوں کے بعد بلدیاتی الیکشن کا مطالبہ کر دیا اور یہ مطالبہ منظور نہ ہونے کو جواز بنا کر پیپلز پارٹی پر قبل از الیکشن دھاندلی کا الزام بھی لگا دیا۔ نئی حلقہ بندیوں کا مطالبہ نہ مانے جانے پر ایک طرف ایم کیو ایم احتجاج کر رہی ہے اور دوسری طرف اس کے امیدوار اپنی انتخابی مہم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔گو مگو پر مبنی اس رویے کے متعلق کہا جارہا ہے کہ ا یم کیو ایم اور اس سے علیحدہ ہونے والے لوگوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ کراچی کے عوام کا اعتماد ان پر متزلزل ہو چکا ہے ، اس احساس کے تحت ہی وہ انتخابات سے فرار اختیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
کس پر کراچی اورحیدرآباد کے عوام کا اعتماد متزلزل ہو چکا ہے اور کس پر وہ 15 جنوری کو اپنا اعتماد ظاہر کریں گے اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح رائے سامنے نہیں آسکی۔ سندھ کے جن علاقوں میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے ، ان کے انعقاد سے قبل یہ اندازے سامنے آئے تھے کہ پیپلز پارٹی واضح اکثریت سے جیت جائے گی۔ ان اندازوں کے عین مطابق پہلے مرحلے میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں نے اپنے مخالفوں کے مقابلے میں 2655 سیٹیں جبکہ جی ڈی اے نے 106، جے یو آئی نے 75 آزاد امیدواروں نے 54 اور پی ٹی آئی نے صرف 27 نشستیں حاصل کی تھیں۔ دوسرے مرحلے کے الیکشن کی حتمی سمجھی جانے والی تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے اور حتیٰ کہ جماعت اسلامی تک یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ کراچی کے عوام ان پر ہی اپنے اعتماد کا اظہار کریں گے مگر غیر جابندار مبصر نہ تو ان دعووں کوغلط یا درست کہہ رہے ہیں اور نہ ہی ان پر اپنی کوئی رائے پیش کر رہے ہیں۔
حیدر آباد اور خاص طور پر کراچی کے بلدیاتی انتخاب کے نتائج کیلئے کسی قسم کا کوئی اندازہ پیش نہ کیے جانے کی وجہ وہاں کے مہاجر کہلانے والے عوام کا وہ عمومی رویہ ہے جس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ وہ کسی سوچی سمجھی سکیم کے تحت یہ دیکھے بغیر کہ ان کی پسندیدہ سمجھی جانے والی ایم کیو ایم کے نام پر کوئی الیکشن لڑ رہا ہے یا نہیں لڑ رہا ، انتخابی عمل کا حصہ بننے سے گریز کر رہے ہیں۔ سندھ میں قبل ازیں آخری بلدیاتی الیکشن 2015 میں منعقد ہوا تھا ۔ اس الیکشن کے دوران ایم کیو ایم نے 135،پیپلز پارٹی نے 24 اور پی ٹی آئی نے 10 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ 2015 کے بعد پھر 2016 کا وہ سال آیا جس میں ایم کیو ایم کے بانی نے اپنی زندگی کی ایسی متنازعہ ترین تقریر کر ڈالی کہ اس پر مر مٹنے کے دعوے کرنیوالوں نے اس کا دفاع کرنے کی بجائے ایم کیو ایم کو ہی اس کی سب بڑی مخالف سیاسی جماعت بنا ڈالا ۔کراچی اور حیدرآباد کے مہاجر کہلانے والے لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اپنے لیڈر کے عمل دخل کے بغیر ظاہر ہونے والی نئی ایم کیو ایم کی بجائے اپنے ووٹ کو اس جماعت کے بانی کے حکم کے تابع کیے رکھا ۔ اس اطاعت گزاری کے مظاہرے کراچی میں پہلے کسی حد تک 2018 کے عام انتخابات میں اور اس کے بعد وسیع پیمانے پر گزشتہ دنوں ہونے والے ضمنی انتخابات میں نظر آئے۔ ایم کیوایم اور اس سے نکلنے والے دیگر دھڑوں کو یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کے مہاجر کہلانے والے لوگوں کا رویہ اگر 15 جنوری کے بلدیاتی الیکشن میں بھی گزشتہ چند ماہ کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات میں ظاہر ہونے والے ان کے رجحان جیسا ہی رہا تو ان کیلئے سیاسی طور پر زندہ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی وجہ سے ایم کیو ایم اور اس سے نکلنے والے دھڑے کبھی تو متحد ہونے کا تاثر دیتے ہیں اور کبھی حلقہ بندیوں پر اعتراض ظاہر کر کے انتخابات سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح کی صورتحال میںکراچی کے بلدیاتی انتخاب میںکسی سیاسی جماعت کی کامیابی کی بجائے ان امیدواروں کے جیتنے کے امکانات زیادہ سمجھے جارہے ہیں جنہیں یہ ہنر آتا ہے کہ اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر لوگوں کو گھروں سے نکال کر زیادہ سے زیادہ ووٹ کیسے حاصل کیے جاتے ہیں۔ بلدیاتی الیکشن سے چند روز پہلے ، اس بارے میںحتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان کے معاشی مرکز کراچی اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں شہری حکومت کی باگ دوڑ کس سیاسی جماعت کے ہاتھ میں آئے گی ، فی الحال صرف اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا جاسکتا ہے کہ 2019 کے بعد ایک مرتبہ پھر کراچی اور حیدرآباد میں شہری حکومت بننے جارہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button