ColumnImtiaz Aasi

پنجاب اسمبلی کی تحلیل اور اقتدار کی رسہ کشی .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

ایک عام خیال یہ ہے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایوان میں اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے تمام ارکان کی حمایت درکار ہو گی لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے، وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے ایوان میں حاضر ارکان کی اکثریت کے اعتماد کا ووٹ درکار ہوگا۔پی ڈی ایم نے پی ٹی آئی کے ارکان توڑنے کی سرتوڑ کوشش کی جس میں ناکامی کے بعد گورنرنے وزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کردیا۔ اس سے پہلے گورنر نے وزیراعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے اڑتالیس گھنٹے کا وقت دیا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لینے کیلئے گورنر سے مناسب وقت کا مطالبہ کرتے جیسا کہ منظوروٹو کیس میں دس روز کا وقت دیا گیا تھا۔
پنجاب حکومت کااس ضمن میں موقف تھا کہ اسمبلی کا پہلے ہی اجلاس جاری ہے لہٰذا اجلاس کے دوران خصوصی اجلاس نہیں بلایا جا سکتالہٰذا گورنر کا یہ اقدام آئین کے منافی تھا۔ پنجاب حکومت کے اس موقف کوتسلیم کر لیاجائے تو پھر ایک ایسی حکومت جو ارکان اسمبلی کا اعتماد کھو چکی ہو اسمبلی کا اجلاس ایک طویل عرصے تک جاری رکھ کر اعتماد کا ووٹ لیے بغیر حکومت چلاتی رہے۔
لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے گورنر کے ڈی نوٹفیکیشن کے فیصلے کے نتیجہ میں پنجاب حکومت کی بحالی اور گیارہ جنوری کیلئے نوٹس کے بعد صورت حال ایک عجیب رخ اختیار کر چکی ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب کی بحالی کے خلاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے فیصلہ کیا ہے۔
دراصل وفاقی حکومت کا لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا مقصد معاملات کو طوالت دینا ہے تاکہ کسی طریقہ سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کوروکا جا سکے۔پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری کا یہ کہنا اپنی جگہ وزیراعلیٰ اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد اسمبلی تحلیل کردیں گے لیکن جب تک لاہور ہائی کورٹ اس مقدمے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرے گی اس وقت تک پنجاب اسمبلی کی تحلیل ایک خواب ہوگا۔
وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ جانے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ عدالت عالیہ لاہور کی طرف سے گورنرکاوزیراعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا اقدام درست تھالہٰذا وزیراعلیٰ کی بحالی کو غیر قانونی قرار دیا جائے پنجاب اسمبلی کی تحلیل کوکسی نہ کسی طریقہ سے بچانا ہے،تعجب ہے وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق لاہور ہائی کورٹ کے وزیراعلیٰ کی بحالی کے اس فیصلے کو انصاف کے منافی قرار دے رہے ہیں حالانکہ ہائی کورٹ نے وزیراعلیٰ کو بحالی کے ساتھ اعتماد کا ووٹ لینے کا بھی حکم دیا ہے۔
اس وقت ملک کو عجیب صورت حال کا سامنا ہے ۔سیاسی معاملات ایوانوں میں حل کرنے کی بجائے عدالتوں میں حل کرانے کی روش چل پڑی ہے معمولی سے معمولی معاملات کو عدالتوں میں لے جا یا جا رہا ہے ۔حیرت تو اس پر ہے وفاقی وزراء کا کہنا ہے وہ نئے انتخابات کیلئے تیار ہیں سوال تو یہ ہے اگر حکومت انتخابات کیلئے تیار ہے تو پھر اسمبلی کی تحلیل روکنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے ۔
وفاق کی طرف سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کا واحد مقصد نئے انتخابات سے راہ فرار کے سوا اور کچھ نہیں وگرنہ اگر حکومت انتخابات کیلئے تیار ہوتی تو اسے سپریم کورٹ جانے کی ضرورت نہیں تھی۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے سپریم کورٹ سے پنجاب کی سیاسی صورت حال کا از خود نوٹس لے کر صوبے کو معاشی عدم استحکام سے بچانے کا مطالبہ کیا ہے حالانکہ اس وقت پورا ملک معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جس وجہ بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔وفاقی حکومت اگر ملک کو سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے بچانے میںسنجیدہ ہے تو اسے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر دینا چاہیے۔
جب سے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی ہے ہمارا ملک سیاسی اور معاشی لحاظ سے عدم استحکام کا شکار ہے۔روپے کی گرتی ہوئی قدر اور روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے دور میں بھی عوام کو مہنگائی کا سامنا ضرور تھا لیکن موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی کی حد ہوگئی ہے ۔
عمران خان اپنے دور اقتدار میں اتنے مقبول نہیں تھے لیکن پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کی مقبولیت کا گراف گرنے کی بجائے بلند ہو گیا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ عوام کو اس دور میں جس قدر مہنگائی کا سامنا ہے وہ عمران خان کے دور میںنہیں تھا۔اگر ہم عمران خان کے دور کا موجودہ حکومت کی کارکردگی سے موازنہ کریں تو عمران خان کے دور میں ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا تھا جبکہ پی ڈی ایم کی حکومت میں ترسیلات زر میں اٹھارہ فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔پی ٹی آئی کے دورمیں برآمدات کا گراف روز بروز بلند ہوتا جا رہا تھا جب کہ اس حکومت میں برآمدات نام کی کوئی چیز نہیںہے۔
موجودہ دورمیں انڈسٹری کا پہیہ جام ہو چکا ہے حالانکہ عمران خان کے دور میں ہماری صنعت ترقی کر رہی تھی۔ جیسا کہ وفاقی حکومت پنجاب اسمبلی کی تحلیل روکنے کیلئے کوشاں ہے ویسے ہی وفاق میں پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفیٰ منظور کرنے میںلیت ولعل سے کام لیا جا رہا ہے۔اس سے قبل وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی کے جن ارکان کے استعفیٰ منظور کئے تھے ان حلقوں میں پی ٹی آئی کے امیدوار بہت کم مارجن پر انتخاب جیتے تھے ۔اس کے باوجود پی ٹی آئی کے ارکان کی کامیابی اس امر کا غماز ہے عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہیں۔ایک اہم بات یہ ہے موجودہ سیاسی صورتحال میں مقتدر حلقے غیر جانبدار ہیں اگر حکومت کو پنجاب کے سیاسی دنگل میں مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے خلاف بہت پہلے عدم اعتماد لاکر کامیاب ہو سکتے تھے۔وفاقی حکومت کا سپریم کورٹ سے رجوع کرنا اور معاملات کو طوالت دینا اس بات کا بین ثبوت ہے وفاقی حکومت کسی نہ کسی طریقہ سے پنجاب اسمبلی کی تحلیل روک کر اپنے اقتدار کو دوام دنیا چاہتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button