سیاسی مدوجذر اور ترجیحات

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان جمعہ 23 دسمبرکو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کرچکے ہیں، اگرچہ دوسری طرف سے وفاق میں اتحادی حکومت دونوں اسمبلیوں بالخصوص پنجاب اسمبلی کو تحلیل سے بچانے کے لیے کوشاں ہے اور اتوار کے روز اِس ضمن میں وزیراعظم پاکستان شہبازشریف، سابق صدر آصف علی زرداری اور سنیئر سیاست دان چودھری شجاعت حسین کے درمیان مشاورت بھی ہوئی ہے جس کا واحد مقصد پنجاب اسمبلی کو تحلیل سے بچانا ہے، تاکہ وفاق کی طرح صوبائی اسمبلی بھی اپنی آئینی مدت پانچ سال پوری کرے مگر عمران خان اسمبلیوں کی تحلیل سے متعلق اپنے فیصلے پر قائم ہیں یوں اگر جمعہ کے دن تک اتحادی حکومت کی کوئی آئینی کوشش کامیاب نہیں ہوتی تو بلاشبہ عمران خان اپنے اعلان کے مطابق دونوں اسمبلیاں تحلیل کردیں گے ، اِس مقصد کے لیے دونوں وزرائے اعلیٰ یعنی پنجاب سے چودھری پرویز الٰہی اور خیبر پختونخوا سے محمود خان اپنے اپنے گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی چٹھی بھیجیں گے اور پھر گورنرز آئین کے مطابق مخصوص وقت کے دوران اسمبلی تحلیل کرنے کی کارروائی کریں گے، اِس عمل میں آئینی طور پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے بھی گورنر ز اپنے اپنے طور پر مشاورت کریں گے اور اگر وزرائے اعلیٰ کی سفارش پر دونوں اسمبلیاں تحلیل ہوجاتی ہیں تو الیکشن کمیشن شیڈول جاری کرکے اگلے پانچ سال کے لیے ان اسمبلیوں کے لیے انتخابات کرانے کی تیاریاں شروع کردے گا، لیکن اگر وزرائے اعلیٰ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سمری گورنرز کو بھیجتے ہی نہیں تو پھر اسمبلیاں تحلیل نہیں ہوں گی البتہ اراکین صوبائی اسمبلی کثرت رائے کےساتھ اسمبلیاں تحلیل کرنے کی قرارداد منظور کراکے سپیکر صوبائی اسمبلی کےذریعے گورنرزکو بھجواسکتے ہیں جس کے بعد گورنر کا آئینی کردار شروع ہوجائےگا۔ پس موجودہ صورتحال میں یہی نظر آرہا ہے کہ وفاق میں اتحادی حکومت چودھری پرویز الٰہی کو اپنی جانب متوجہ ہی اسی لیے کررہی ہے تاکہ چودھری پرویز الٰہی صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری گورنر پنجاب کو ارسال نہ کریں، چونکہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر محمد سبطین خان پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھتے ہیں اِس لیے عین ممکن ہے کہ گورنر پنجاب کو سمری نہ بھیجنے کی صورت میں وہ ان ہائوس معاملات خود سنبھالیں اور اپنے پارٹی اراکین اسمبلی کو خود لیڈ کریں، البتہ تب انہیں مسلم لیگ قاف کے دس اراکین کی حمایت بلاشبہ حاصل نہیں ہوگی کیونکہ وہ تمام اتحاد سے الگ ہوکر اپنی پارٹی قیادت کے فیصلے کے مطابق چلیں گے اور اگر پارٹی فیصلہ کرتی ہے کہ اراکین صوبائی اسمبلی کو بھی مستعفی ہوجانا چاہیے جس طرح قومی اسمبلی میں اجتماعی استعفے پیش کیے ہیں تو بلاشبہ ویسی ہی صورتحال نتیجے میں دیکھنے کوملے گی جیسی اب قوم اسمبلی میں دیکھی جارہی ہے یعنی تمام معاملات اتحادی حکومت کے پاس چلے جائیں اور پھر مرکز کی طرح یہاں بھی پی ٹی آئی کے پاس ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ اتوار کے روز وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویزالٰہی نے ایک نجی قومی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران بہت سی باتیں کہیں جن میں کئی ایک نئی اور کئی پہلے سے کہی باتیں تھیں ، لہٰذا نئی باتوں پر غور کی ضرورت ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل تمام سیاسی جماعتوں اور پی ڈی ایم کے لیے ایک بہت بڑا جھٹکا ہےاور خاص طور پر ملک کے لیے بھی ہے، ہماری معیشت پہلے ہی ڈوبی ہوئی ہے، اس سے سٹاک ایکسچینج بھی نیچے جائے گا۔عام لوگ جو پی ٹی آئی کے حامی ہیں، وہ بھی چاہتے تھے کہ اسمبلیاں چلیں۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے دعویٰ کیا کہ ہم سیاستدانوں سے وہ یعنی اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ معیشت کا بیڑا غرق ہے اور مزید ہو جائے گا، وہ نہیں چاہ رہے کہ جو ہو رہا ہے اس طرح نہ ہو، وہ چاہ رہے ہیں کہ نظام چلے،قومی اورصوبائی اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں،اگرتوڑنے کی بات بار بار کی گئی توپھر ان کے پاس ایک اور راستہ بھی ہے، وہ ایک سال کے لیے معاشی ایمرجنسی لگا دیں۔وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کا انٹرویو ملکی ذرائع ابلاغ کے لیے بہت بڑی خبر ثابت ہوا اور تمام قومی اخبارات نے اِس کے اہم نکات کو شہ سرخیوں میں لیا۔ بلاشبہ اتحادی حکومت نے آئینی طریقے سے تحریک انصاف کو اقتدار سے الگ کیا مگر قبل ازیں عمران خان بطور وزیراعظم بارہا کہہ چکے تھے کہ وہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے لہٰذا وہ اپنے اعلان کے مطابق اقتدار سے باہر ہونے کے بعد سے ابتک سڑکوں پر ہیں اور اتحادی حکومت کے خلاف ہردائو پیچ آزمارہے ہیں، یہاں تک کہ ان پر جان لیوا حملہ بھی ہوا اور ابھی تک وہ مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوسکے۔ مسلم لیگ نون اور اِس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز نے پانچ پانچ سال کی آئینی مدت پوری کی لیکن اِس سے قبل ملکی سیاسی تاریخ میں کوئی پارٹی اپنی آئینی مدت پوری نہ کرسکی کیونکہ سیاسی کھینچاتانی اور عدم برداشت ہمیشہ عروج پر رہی، لہٰذادونوں بار قومی اسمبلی تو آئینی مدت پوری کرتی رہی لیکن آج تک کسی بھی وزیراعظم نے پانچ سال کی آئینی مدت پوری نہیں کی یہی وجہ ہے، یہی میاں محمد نوازشریف اور شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ ہوا، اور یہی رواں سال عمران خان کے ساتھ ہوا، چونکہ حزب اختلاف کبھی حزب اقتدار کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کرتی لہٰذا اقتدار سے ہٹانے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتی ہے اور ہر بار اقتدار سے باہر ہونے کے بعد سابق وزیراعظم یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ اس کو کام نہیں کرنے دیا گیا، ہم سمجھتے ہیں کہ جس طرح اسمبلیوں کو پانچ سال آئینی مدت پوری کرنی چاہیے اسی طرح وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کو بھی پانچ سال تک پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کا موقعہ ملنا چاہیے، تاکہ کسی کے پاس جواز نہ ہو کہ انہیں کام کرنے نہیں دیاگیا۔ بات کو یہیں سمیٹتے ہیں کہ سیاسی انتشار قوموں کو تقسیم کرتے ہیں، لہٰذا ملک و قوم کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے سیاسی انتشار کے خاتمہ ناگزیر ہے۔