ColumnNasir Naqvi

سرائے ادب اور مقام اقبال ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

 

ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے ادب آداب پر بحث و مباحثہ تو ہوتا ہے اور دھواں دار ، چونکہ آئین پاکستان تحریر و تقریر کی آزادی دیتا ہے لہٰذا اس آزادی کا سب سے زیادہ بے باک استعمال انہیں مباحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے اگر اس بحث اور مباحثہ کو محدود کرکے کوئی دیکھنا چاہیں تو حلقہ ارباب ذوق یا انجمن ترقی پسند مصنفین کی کسی نشست میں چلا جائے باقی اگررسک لینا ہے تو کسی بھی موضوع پر کہیں بھی بحث و مباحثہ کیا جا سکتا ہے یہ سوچ سمجھ کر کہ ہمارے ہاں قوت برداشت ناپید ہے تاہم یہ سہولت معاشرے میں موجود ہے کہ اگر کسی نے معرکہ آرائی کا موڈ بنا ہی لیا ہے تو کسی جیالے،متوالے اور کھلاڑی سے سیاست پر پھڈاڈال کر گریبان اور سر پھڑوایا سکتا ہے کیونکہ اب سیاست سیاست کھیلی جارہی ہے اس کے بنیادی اصولوں رواداری اور برداشت کا دامن کسی کے ہاتھ میں نہیں رہا کون قصوروار ہے، غلطی کس کی ہے؟ یہ سب جانتے ہیں اس کا تذکرہ فضول ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ایک وجہ جدید تعلیم ہے جس کے ساتھ تربیت ختم ہو چکی ہے تعلیم آج کے دور کا ایک بہترین کاروبار اور اچھی تعلیم مہنگی تعلیم ایک اچھی نوکری کی ضمانت،بس یہی کچھ 75 سالوں میں ہمارا نصیب بنا ہے بلکہ ہم سب نے مل کر مشترکہ حکمت عملی سے بنایا ہے۔ کتاب کے بارے میں یہ غلط فہمی تھی کہ وہ آدمی کو انسان بنانے میں معاونت کرتی ہے لہٰذا ہماری اکثریت نے اس سے دوری اختیار کرلی کہ بھلا ہمیں اس کی کیا ضرورت ہمیں تو خالق نے اشرف المخلوقات بنایا ہے یقیناً جن لوگوں نے کتاب سے رشتہ قائم رکھا اور مختلف کتابوں کی ورق گردانی کی انہیں یہ راز معلوم ہے کہ آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا۔
لاہور کی اہم ترین شاہراہ قائداعظم پر پی سی ہوٹل اور وزیر اعلیٰ پنجاب سکریٹریٹ کے پہلو میں دو کلب روڈ پر ایک پوشیدہ اور پراسرار سی عمارت تھی اس کے گردونواح میں بہت سی سرکاری زمین جھاڑ جھنکار اور خود رو گھاس پھونس سے گری ہوئی تھی میرا اس عمارت میں مجلس ترقی ادب کے صدر نشین ممتاز شاعر احمد ندیم قاسمی اور ڈرامہ نویس ڈاکٹر یونس جاوید کے پاس آنا جانا تھا لہٰذا میں اس گوشہ ویران سے خاصا واقف رہا 1990کی دہائی کی بات ہے کہ مجھے زندہ دلوں کی صحافت اور سیاست کے مرکز لاہور میں پریس کلب بنانے کا بخار چڑھا ہوا تھا کوشش کی کہ اچھی سرکاری زمین مل جائے جہاں یادگار کلب بنایا جائے شہر بھر چھان لیا کبھی سرکار راضی نہ ہو اور کبھی ہم،لیکن اس وقت کے وزیر اعلیٰ مقتول غلام حیدر وائیں ہم سے جان چھڑانے کی فکر میں تھے، میں نے اور حکومت نے مل کر قریباً 50 سے زائد مقامات کو مختلف وجوہات کی بنا پر مسترد کیا تھا آخرکار میں نے اس قطعہ اراضی پر نگاہ رکھ لی وزیر اعلیٰ صاحب بضد تھے کہ پہلے میں جگہ دیکھوں گا پھر کوئی کارروائی شروع ہوگی ایک روز جگہ دکھائی تو فرمانے لگے،توں میرا ایک مشکل کم کر دیتا اے،میں خوش ہوا کہ کوئی بات بن گئی لیکن انہوں نے میری ٹھوڈی کو ہاتھ لگا کر فرمائش کی کہ یہ جگہ بہت اچھی ہے تم میری مجید نظامی سے جان چھڑا دو؟
میں نے حیران ہو کر پوچھا پریس کلب سے بھلا ان کا کیا لینا دینا؟
غلام حیدر وائیں بولے اس نے میرا جینا حرام کر دیا ہے اسے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کیلئے جگہ چاہیے ایک سے زیادہ مرتبہ وزیر اعظم نواز شریف سے شکایت کر کے میری طلبی بھی کر چکے ہیں تم اس زمین سے دستبردار ہو جاؤ میرا وعدہ اب جہاں زمین ڈھونڈوگے میں فوراً ہاں کر دوں گا اسی بات پر شملہ پہاڑی پریس کلب بنا،تحریک کار کنان پاکستان اور نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی عمارت بنی ، یوں مجلس ترقی ادب کی عمارت مزید چھپ گئی عمارت پرانے زمانے کی نہ صرف خوبصورت فن تعمیر کا نمونہ تھی بلکہ اس کے گردونواح میں خاصی زمین تھی عمارت میں مجلس ترقی ادب کے علاوہ ادارہ ثقافت اسلامی اور بزم اقبال کا بسیرا بھی تھا اور اب تو شہر بھر کے دھکے کھا کر پنجابی ادبی بورڈ بھی اس عمارت کے مکینوں میں شامل ہے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت لاہور میں اردو کو قومی زبان کے بعد ماں بولی پنجابی کے رکھوالے پنجابی ادبی بورڈ کو اس طرح دربدر پھر ناپڑا جیسے یتیموں، مسکینوں اور لے پالک بچوں کا مقدر ہوتا ہے پھر بھی خوشی کی بات یہ ہے کہ پنجابی ادبی بورڈ کو کہیں سر چھپانے کی جگہ مل گئی یہ کارنامہ کس نے انجام دیا مجھے خبر نہیں، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے کہ یہ عالیشان عمارت ادبی دنیا کے بڑے بڑے پنڈتوں کی موجودگی میں بھی آ سیب زدہ ہی دکھائی دیتی تھی میں ا سے ہمیشہ سرائے ادب کہتا تھا کیوں کہ زمانہ قدیم میں وقت گزاری بلکہ مسافروں کی شب گزاری کیلئے بہترین ٹھکانہ سرائے ہی ہوا کرتی تھی نہ شہروں کی اب جیسی ترقی تھی نہ ہوٹلزاور نہ جیبیں بھاری، شاعر و ادیب اور اپنے لکھاری تو اپنے روایتی انداز میں سب سے زیادہ سفید پوش اور مصلحت پسند ہوتے ہوئے اپنے آپ میں خوش رہا کرتے تھے اس لیے کہ ماضی، حال اور مستقبل ان کی نظر میں تھا پھر جنرل ضیاء الحق کے دور میں کتاب،شاعراور اچھی سوچ پر پہرے بٹھا دیے گئے تھے کچھ پابند سلاسل تھے جو باہمت تھے اور کچھ خوف سے ہی اپنے آپ پر مارشل لاء لگا بیٹھے تھے لہٰذا وہ کچھ نہیں ہو سکا جو اس عالی شان عمارت کا منفرد مقام بن سکتا تھا۔
حالات بدلے،وقت نے کروٹ لی تو ایک قلم مزدور اور لفظوں کا بھی بیوپاری سرائے ادب میں آدھمکا، وہ نہ بیوروکریٹ تھا اوہ نہ ہی کوئی سیاسی لیڈر آزاد منش یاروں کا یار،ساری زندگی ادبی محافل کے انعقاد اور ادب کے فروغ میں دنیا گھومنے والا چھوٹے شہر کا بڑا آدمی، اللہ نے اسے وجاہت بھی دی اور ذہانت بھی،جوں ہی اس عالیشان عمارت کا سالار بنا اس کی پوشیدہ صلاحیتیں کھل کر سامنے آ گئیں اس نے گمشدہ کتاب کی تلاش میں گودام اور سٹور ڈھونڈے،شب روز خاک چھانی، پھر عمارت کی شان کی بحالی کیلئے میدان عمل میں اتر گیا آپ پہچانے کے نہیں؟ یہ بات ہورہی ہے مجلس ترقی ادب کے صدر نشین منصورآفاق کی جو انگریزی لباس میں بھی زبان و کلام میں درویش ہی ہے لیکن اس نے اپنی پہلی اور شاید آخری سرکاری ذمہ داری میں صرف دو سالوں میں ایسی فتوحات کر ڈالی ہیں کہ اس ادب دوست پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے اس قدیم عمارت کے چند کمروں کے ذمہ دار منصور آفاق صرف ایک سال میں 60 سے زائد کتابیں شائع کرنے کے علاوہ پرانی عمارت کے پہلو میں خوبصورت جدید سہولیات سے مزین مجلس ترقی ادب کی نئی بلڈنگ بنانے میں کامیاب ہوگئے اسی ماہ وزیر اعلیٰ پنجاب اس کا افتتاح کریں گے جبکہ اسی روز بزم اقبال جو سالہاسال سے صرف دو چھوٹے کمروں میں مکین تھی اس کی بھی سنگ بنیاد رکھ کر تعمیر شروع ہو جائے گی یہی نہیں ادب نوازی کا اندازہ اس عمل سے لگائیں کہ وہاں ادبی سرگرمیوں کیلئے ادبی چائے خانہ سب سے پہلے قائم کیا گیا تھا 70 سالوں میں اس ذمہ داری پر کریم احمد خان،سید امتیاز علی تاج، حمید احمد خان، احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد اور ڈاکٹر تحسین فراقی جیسی ا علیٰ لوگ فائز رہ چکے ہیں لیکن نظام قدرت ہے کہ اللہ فقیروں کے دل کشادہ اور ارادے ہمت اس قدر بلند رکھتا ہے کہ ان کے سامنے بلند و بالا شخصیات کی خصوصیات بھی ماند پڑ جاتی ہیں منصور آفاق کام، کام اور صرف کام کے قائل ہیں اس لیے ان کی محنت رنگ لائی انہیں چند ماہ قبل ریا ض چودھری کے بعد بزم اقبال کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے لہٰذا سب سے پہلے ادبی کمیٹی کی میٹنگ بلا کر مشاورت سے پندرہ نکاتی ایجنڈے پر فیصلے کیے گئے اتفاق پایا گیاکہ بزم اقبال کو فعال اور جدید دور کی سہولیات کے مطابق آگے بڑھانے کیلئے ویب سائٹ اور سوشل میڈیا سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے تفہیم اقبال کلاسوں کا اجرا کیا جائے اقبال ایپ بناکر اس پر ڈاکٹر علامہ اقبال سے متعلق دستاویزی فلم، کلام اور معلومات لوڈ کی جائیں مجسمہ اقبال نصب کیا جائے، جریدہ اقبال کا دوبارہ اجرا، نئی عمارت کا نام مختلف ناموں پر غور کرنے کے بعد مقام اقبال تجویز کیا گیا کلام اقبال کے مختلف زبانوں میں تراجم علامہ اقبال پر دستاویزی فلم نئی کتابوں کی طباعت کی منظوری بزم اقبال کے خصوصی سوویز بنوانے کی منظوری جن پر علامہ اقبال کے ہاتھ سے لکھے کسی شعر کو شامل کیا جائے اور بہت سی گودام کی زینت بنی پرانی کتابوں کو بزم اقبال کی طرف سے درسگاہوں اور اہم لائبریریوں کو عطیہ کرنے کی اجازت دی گئی بلکہ اہم کتب کو پیپر پیک میں شائع کر کے سستی کتابیں فراہم کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ مزار اقبال پر محکمہ اوقاف کے تعاون سے سے ماہانہ مشاعرہ کا اہتمام بھی کیا جائے جس کے شرکاء علامہ اقبال کی زمین پر اپنا کلام سنائیں جب کہ بزم اقبال آفس کو جدید سہولیات دینے کے لیے نیا کمپیوٹر اور ایل ای ڈی وغیرہ دیگر سامان خریدنے کی اجازت دیدی گئی لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ’’سرائے مجلس ترقی ادب جاکر اب وحشت نہیں ہوتی بلکہ ماضی کی یادگار عمارت کا چہرہ چھپانے والی تمام رکاوٹیں ہٹا کر اس کا روشن چہرہ تقویت کا باعث بنتا ہے اس تزئین و آرائش پر ادب نواز منصور آفاق مبارک باد کے مستحق ہیں کہ اب سرائے ادب بھوت بنگلہ سے کسی وائسرائے کا مسکن دکھائی دیتا ہے یقینا یہاں کے جن بھوت منصورآفاق جیسے جادو گر نے باہر کیے وہ اپنی ہمت،خدا داد صلاحیتوں سے ذمہ داری کے بوجھ تلے دب کر سولی نہیں چڑھا بلکہ اسے اگر سرکاری ملازمت کی سولی پر چڑھایا گیا تو اس نے خود جھولنے کی بجائے عزم و ہمت سے ماضی کی روایات کا گلا گھونٹ دیا، آج سرائے ادب دو کلب روڈ لاہور کی ادبی بستی ہے جہاں ایک تاریخی خوبصورت عمارت میں مجلس ترقی ادب، ادارہ ثقافت اسلامی، پنجابی ادبی بورڈ اور بزم اقبال کے دفاتر ہیں ادب کی جدید بلڈنگ تیار ہو چکی ہے اور اب بزم اقبال کی نئی بلڈنگ مقام اقبال بننے والی ہے ان تمام تر کامیابیوں کا سہرا منصور آ فاق کے سر ہے چاہے اب سہرا باندھنے کی ان کی عمر نہیں، کسی کو اچھا لگے یا برا؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button