ColumnMazhar Ch

جلدانتخابات مسئلے کا حل نہیں ۔۔ مظہر چوہدری

مظہر چودھری

 

ملکی سیاست میں ان دنوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل اور قبل از وقت انتخابات کی تکرار جاری ہے، پی ٹی آئی ہر قیمت پر قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے جبکہ حکومت مقررہ مدت سے پہلے انتخابات کرانے پر کسی صورت آمادہ نہیں۔یوں توپی ٹی آئی نے اپنے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد سے ہی قبل از وقت انتخابات کیلئے احتجاج شروع کر دیا تھا لیکن مئی اور نومبر میں ہونے والے دونوں لانگ مارچ ناکام ہونے کے بعد اس نے جلد انتخابات کو ممکن بنانے کیلئے اس نے پنجاب اور خیبر پختو خوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے ساتھ ساتھ سندھ اور بلوچستان اسمبلی سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا ۔وقتی طور پر پی ٹی آئی کے اسمبلیوں سے نکلنے کے فیصلے سے ایسے لگا کہ حکومت کے پاس اب قبل از وقت انتخابات کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا لیکن الیکشن کمیشن اور بعد ازاں وزیراعلیٰ پنجاب کے بیانات نے پی ٹی آئی کے اس آخری کارڈ کو بھی کافی حد تک غیر موثر کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے بیان جاری کیا کہ صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہونے پر قومی نہیں متعلقہ صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہوگا،جتنے بھی ارکان مستعفی ہوںگے 60روز میں ضمنی الیکشن کرا دیں گے۔ الیکشن کمیشن کے ترجمان نے یہ بھی کہا کہ ایک ہی سال میں ضمنی اور عام انتخابات کرانا مشکل ہیں مگر قانون کے پابند ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان مصر ہیں کہ 66فیصد نشستیں خالی ہوئیں تو ملک کو عام انتخابات کی طرف جانا ہوگا لیکن الیکشن کمیشن اور حکومت قبل از وقت عام انتخابات کرانے کو تیار نہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بارے میں عمران خان اور پرویز الٰہی کی سوچ اور حکمت عملی میں ہم
آہنگی نہیں پائی جا رہی۔بفرض محال پرویز الٰہی، عمران خان کے کہنے پر اسمبلی تحلیل کر بھی دیتے ہیں تو الیکشن کمیشن یا حکومت کیلئے فوری عام انتخابات کرانے کی کوئی آئینی مجبوری نہیں ہے۔پنجاب یا خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل ہونے کے معاملے کو عدالت غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی قرار دے سکتی ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اول تو قبل از وقت انتخابات کے امکانات دکھائی نہیں دیتے اور بفرض محال مقررہ مدت سے چند ماہ قبل انتخابات ہو بھی جائیں تو اس کے نتیجے میں کسی خاص مسئلے کے حل کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔قبل از وقت انتخابات سے نہ تو ملک کی معاشی صورت حال فوری بہتر ہونے کی ضمانت دی جا سکتی ہے اور نہ ہی سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے۔معاشی حالات میں بہتری کیلئے موجودہ حکومت ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے ۔حکومت آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں سے آسان شرائط پر قرضے لینے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ ان سے مختلف قسم کی معاشی مراعات لینے کی کوششیںکر رہی ہے۔ نئی حکومت نے بھی یہی کچھ کرنے کی کوشش کرنی ہے۔دگرگوں معاشی حالات میں بہتری کیلئے میثاق معیشت یا اس سے ملتا جلتا کوئی ایسا حل ناگزیر ہے کہ سیاسی مخالفت کے باوجود کوئی جماعت معیشت پر سیاست کرنے کی کوشش نہ کرے۔ملک کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی رہنمااس کے ساتھ مکمل طور پر مخلص نہیں۔ہر سیاسی جماعت یہ چاہتی ہے کہ یہ ملک صرف اس کے دور حکومت میں ترقی و خوشحالی کی طرف بڑھے۔ ہماری سیاسی جماعتیں اس وجہ سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور مخالفت برائے مخالفت میں مصروف عمل رہتی ہیں کہ کہیں برسراقتدار جماعت ملکی و عوامی سطح پر ڈلیور کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔سابقہ نواز حکومت میں تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست نے نون لیگ کی حکومت کو مفلوج کئے رکھا جبکہ تحریک انصاف کی حکومت میں پی ڈی ایم اتحاد عدم تعاون اور مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی پر کاربند نظر آیا۔تحریک انصاف حکومت میں اپوزیشن جماعتوں کے عدم تعاون اور مخالفت برائے مخالفت کی اہم وجہ یہ رہی کہ سابقہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی قائدین کے خلاف انتقامی احتساب کو وتیرہ بنائے رکھا۔عمران خان اگر اپوزیشن جماعتوں کے مرکزی قائدین کو پابند سلاسل رکھنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنانے کی بجائے معیشت کی بہتری پر زیادہ توجہ دیتے تومعیشت بھی مستحکم ہو جاتی اور اپوزیشن جماعتیں سیاسی وپارلیمانی امور میں عدم تعاون اور مخالفت برائے مخالفت کی پالیسی پر کابند نہ ہوتیں۔
قبل از وقت انتخابات کے انعقاد سے سیاسی عدم استحکام کے خاتمے کی یقین دہانی کرانابھی مشکل ہے۔ پی ٹی آئی ہر قیمت پر پھر سے اقتدار کے حصول کیلئے بے تاب ہے۔اگر قبل از وقت انتخابات کے نتائج اس کے حق میں نہ آئے تو اس نے دھاندلی کا واویلا مچاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آنا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی انفرادی طور پر دیگر سب جماعتوں سے زیادہ مقبو ل دکھائی دیتی ہے تاہم پیپلز پارٹی اور نون لیگ سمیت11جماعتی اتحاد مجموعی طور پر پی ٹی آئی سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔آنے والے دنوں میں اسمبلیوں کی تحلیل سمیت کسی بھی معاملے پر قاف لیگ اور پی ٹی آئی کی راہیں جدا ہونے کے امکانات کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جاسکتا۔قصہ مختصر یہ کہ کسی بھی طرح پی ٹی آئی قبل از وقت انتخابات کے بعد حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ رہی تو اس نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھا کر روایتی احتجاجی سیاست شروع کر دینی ہے۔قبل از وقت انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی جیت کی صورت میں بھی سیاسی عدم استحکام کا یکسر خاتمہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ سابقہ دور میں اختیارات نہ ہونے کا شکوہ کرنے والی پی ٹی آئی اس بار دو تہائی اکثریت سے کامیابی کی خواہاںہے۔پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان دوبارہ باختیار وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، یعنی وہ اس بار اپوزیشن جماعتوں کواحتساب کے نام پر کچھ نہ کرنے کے قابل چھوڑنے کے ساتھ ساتھ داخلہ وخارجہ امور میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کو بھی ختم کرنے کے خواہاں ہیں ۔سیاسی، دفاعی اور خارجہ امور
میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ختم ہونی چاہیے لیکن پارلیمانی جمہوریت میں مضبوط حزب اختلاف کو برداشت نہ کرنا جمہوریت کی نفی کے مترادف ہے۔عمران خان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے جیسے کثیر الثقافتی اور کثیر الجماعتی نظام میں کسی ایک جماعت کا تن تنہا حکومت کرنے کی خواہش مضبوط وفاق کیلئے اچھا شگون نہیں سمجھا جاسکتا۔ہمارے جیسے کثیر الجماعتی اور کثیر الثقافتی نظام میں دو یا دو سے زیادہ جماعتوں کی حکومت ہی صیح معنوں میں جمہوری حکومت کہلوانے کی حق دار ٹھہرسکتی ہے۔عمران خان اپنے سوا کسی کو تسلیم کرنے پرتیار نہیں۔وہ حکومت میں ہوتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں سے مل بیٹھ کر سیاسی وپارلیمانی امور حل کرنے کے روادار نہیں ہوتے اور اپوزیشن میں ہوتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کرنا اپنی کسر شان سمجھتے ہیں۔ایسی سوچ رکھنے والے سیاسی رہنما کے ہوتے ہوئے سیاسی عدم استحکام کا یکسر خاتمہ بہت مشکل ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button