Ahmad NaveedColumn

ڈاکٹر صاحب آپ اِسے منع کریں ! .. احمد نوید

احمد نوید

 

ڈاکٹر آصف الرحمن کے سامنے بیٹھی ایک ماں نے اپنے ٹین ایجر بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر صاحب آپ اِسے منع کریں، اِسے روکیں یہ انرجی اور فیزی ڈرنکس بہت زیادہ پیتا ہے۔ مریض بچے کی بات سن کر ڈاکٹر آصف مسکرا دئیے اور ذرا توقف کے بعد بولے۔
محترمہ اِسے میں کیسے روک سکتا ہوں۔ یہ ڈھیل تو اِسے آپ نے دی ہوئی ہے۔ ماں سے مخاطب ہونے کے بعد ڈاکٹر آصف دل کے مریض بچے سے مخاطب ہوئے، بیٹا انرجی اور فیزی ڈرنکس کچھ بھی نہیں کہتے، بس اِن ڈرنکس سے دل کی خرابی، سر درد، ہائی بلڈ پریشر، بے چینی اور اکثر اوقات موت واقع ہو جاتی ہے۔
ڈاکٹر آصف الرحمن ایک لمحے کیلئے خاموش ہوئے، تو ماں بیٹا ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ دونوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
ڈاکٹر آصف اور دل کے مریض بچے کی ماں کی گفتگو کوئی پہلی مثال نہیں ہے۔اکثر بلکہ بیشتر اوقات یہی ہوتا ہے کہ بچوں کے والدین ڈاکٹر حضرات سے کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو فلاں چیز سے منع کریں۔ اِ س چیز سے روکیں۔ ایسے کیسز میں والدین اور بیمار بچوں کو ٹریٹ کرنے کا ہر ڈاکٹر کا اپنا طریقہ کار ہے۔ تاہم دل کے معروف ڈاکٹر آصف، ایسے کیسز میں قصور وار زیادہ تر والدین کو ہی ٹھہراتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ انرجی اور فیزی ڈرنکس خود چل کر گھروں میں نہیں آتے بلکہ بچے خرید کر لاتے ہیں اور اکثر جگہوں پروالدین اُن کے بل ادا کررہے ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے ؟ قصور وار کو ن ہیں ؟ بچے، والدین یا ڈاکٹر ز !
ڈاکٹر آصف نے بچے کی والدہ سے پوچھا، کہ آپ بتائیں ِ کہ بچوں کی تربیت کو لے کر آپ زیادہ سخت ہیں یا آپ کی والدہ زیادہ سخت تھیں۔ خاتون نے فوراً جواب دیا۔میری والدہ زیادہ سخت تھیں۔
ڈاکٹر آصف مسکرا دئیے اور پوچھا بتائیں پھر موجودہ نسل کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے۔ خاتون ایک بار پھر لاجواب ہو گئیں۔
ڈاکٹر آصف نے اپنی بات دوبارہ شروع کی۔2011میں امریکہ میں بیس ہزار سے زیادہ ایمرجنسی رومز صرف انرجی ڈرنکس کے مریضوں کیلئے مختص کئے گئے تھے اور اِن مریضوں میں زیادہ تر تعداد بچوں او ر نوجوانوں کی تھیں۔ آج شاید وہ تعداد اُس سے بھی دوگنی ہو چکی ہو۔ پاکستان میں بھی یہ معاملہ نہایت توجہ طلب ہے۔ میری بہن یہ بات ذہن نشین کرلیں اور دوسروں کو بھی بتائیں کہ ایک پانچ سالہ بچے کو یومیہ 19گرام، دس سالہ بچے کو 24گرام اور ٹین ایجرز کو 30گرام سے کم چینی استعمال کرنی چاہیے جبکہ کولا یا پیپسی کے ایک کین میں 9چائے کے چمچ کے برابر شوگرہوتی ہے اور تشویشناک بات یہ ہے کہ ہمارے چار سال سے دس سال تک کے بچے ایک سال میں انرجی اور فیزی ڈرنکس کی اتنی مقدار پی جاتے ہیں جو دو باتھ ٹب کے برابر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر آصف کے سامنے بیٹھی بچے کی والدہ افسردہ، شرمندہ اور پشیمان سی دکھائی دینے لگی تھیں۔ خاتون نے لمحہ بھر کو دل میں سوچا اور تسلیم کیا کہ واقعی قصور وار تو ہم والدین ہی ہیں جو بچوں کی ضد کے آگے فوراً سرنڈر کر دیتے ہیں۔ خاتون بہت مشکل سے بولیں۔
جی ڈاکٹر صاحب آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ مجھے ہی سختی کرنی چاہیے تھی۔
ڈاکٹر آصف مسکرا کر بولے۔ آپ ایک پڑھی لکھی ماں ہیں۔ کوشش کریں کہ آپ کے بچے اچھی غذا ئوں تک محدود رہیں۔ بچوں کے کھانے پینے کا چارٹ بنائیں۔ اِنہیں پھلوں اورسبزیوں کی طرف مائل کریں۔ جتنے بھی انرجی ڈرنکس مارکیٹ میں موجودہیں، اُن میں چینی، سوڈیم اور کیفین کی بھاری مقدار ہے۔ یہ نہ کم عمر بچوں کیلئے ٹھیک ہے نہ پڑھنے والے بچوں کیلئے، جو عام طور پر راتوں کو جاگنے کیلئے اِس کا استعمال کرتے ہیں۔ انرجی ڈرنکس میں شامل کیفین دل کی دھڑکن میں اضافہ، بلند فشر خون، نیند نہ آنا، پانی کی کمی، بے چینی، سردرد، تھکاوٹ حتیٰ کہ چڑچڑے پن کابھی باعث بنتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب یہی تو ہو رہا ہے اس کے ساتھ، خاتون نے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اب مجھے بڑے بیٹے کی بھی فکر ہو رہی ہے۔ وہ ایم ڈی کیٹ کی تیاری کیلئے انرجی ڈرنکس پیتا ہے۔ اِس کی ہارٹ ریٹ ڈسٹرب ہوئی ہے۔ اُس کا کوئی اور مسئلہ نہ بن جائے۔ ڈاکٹر صاحب مجھے بتائیں۔ میں کس طرح منع کروں، کس طرح روکوں انہیں۔ خاتون کے لہجے میں فکر مندی اور پریشانی تھی اور اُس سے کچھ بڑھ کر بے بسی۔
ڈاکٹر آصف الرحمن ایک بار پھر مسکرا دئیے، پھر بولے، نظم وضبط ! گھر میں نظم وضبط قائم کریں۔ کچھ اصول بنائیں۔ مہینے میں ایک انرجی ڈرنک اور دوبار فیزی ڈرنک کی اجازت دیں۔ ہر چند کہ یہ بھی نہیں ہونے چاہیے، لیکن آپ بچوں کا مائنڈ بنائیں اور پھر آہستہ آہستہ اِسے بھی ختم کردیں۔ جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پربہت سی ریسرچ موجود ہے۔ اِسے پڑھیں، بچوں کو بھی پڑھائیں۔ میڈیکل میں داخلے کیلئے اور پھر میڈیکل میں داخلہ ملنے کے بعد بھی ایسے طلبا و طالبات میں انرجی ڈرنکس کے استعمال کی بہت زیادہ عادات موجود ہیں جو بہت خطرناک ہے۔ لہٰذا بچوں کو سمجھائیں، اگرچہ آج کل بچوں کو سمجھانا بہت بڑا چیلنج ہے، لیکن یہ مشکل کام والدین کو ہی کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر آصف الرحمن ایک لمحے کیلئے خاموش ہوئے اور پھر بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔
آج کل والدین جو سب سے بڑی غلطی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ والدین کا بچوں کو گھریلو سہولیات اور آسائشیں دینے پر فوکس ہے۔ مہنگا موبائل، مہنگی گیم، کے ایف سی اور میکڈونلڈ کے فاسٹ فوڈ ز، کرکٹ کا بیٹ، فٹ بال یا کوئی اچھی کتاب کہاں دیتے ہیں ہم آج کل اپنے بچوں کو۔ بہن یاد رکھیں،اولاد کو آرام، آسائش اور سہولیات دینے سے زیادہ اُن کی تربیت کی فکر کریں، کیونکہ پرندے اپنے بچوں کو پرواز سکھاتے ہیں۔ گھونسلے بنا بنا کر نہیں دیتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف نے بات ختم کی، تو دل کے مریض بچے کی والدہ مسکرا دی۔ خاتون کی مسکراہٹ میں کچھ شرمندگی تو تھی ہی لیکن کچھ پالینے کی خوشی بھی تھی۔ وہ مسکرا کر بولیں۔
ڈاکٹر صاحب آپ نے مجھے زندگی کا ایک نیا نظریہ دیا ہے۔ آج کے بعد میں اپنے بچوں کی پرورش اسی نظریے کے ساتھ کروں گی اور مجھے یقین ہے کہ اب دوبارہ مجھے آپ کے پاس آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
ڈاکٹر آصف الرحمن مسکر ا دئیے او ر خاتون کو بیٹے کے ساتھ دروازے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھ کر کچھ سوچنے لگے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button