ColumnNasir Sherazi

سیاسی ڈرامے کا المیہ انجام .. ناصر شیرازی

ناصر شیرازی

 

ایک دور تھا جب پاکستان ٹیلی ویژن کا تیار کردہ ڈرامہ پاکستان کے علاوہ ہمسایہ ملک اور ہر اِس ملک میں ذوق و شوق سے دیکھا جاتا تھا جہاں جہاں اردو بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ وارث، اندھیرا اُجالا، چاند گرہن، آنچ، ہوائیں، ان کہی اور درجنوں ایسے ڈرامے تھے جو ٹیلی کاسٹ ہوتے تو بازار ویران و سنسان ہوجاتے، شادی بیاہ کے سیزن میں پوچھتے کہ بارات کب پہنچے گی تو جواب ملتا آٹھ بجے والاڈرامہ دیکھ کر روانہ ہوں گے۔ اسی حساب سے مہمان ولیمے میں پہنچتے، رات دس بجے کھانا پیش کیا جاتا شادی میں شریک ہونے والے رات ایک بجے گھر واپس پہنچتے۔
اُس دور کے ڈراموں میں رومانس، سسپنس، ایڈونچر، محبت، نفرت، ہیجان، انتقام غرضیکہ سب کچھ ہوتا تھا، رائٹر سے لیکر ڈائریکٹر تک اور اداکاروں سے لیکر ٹیکنشنز تک، ہر شخص اپنے کردار میں نگینے کی طرف فٹ نظر آتا تھا۔ ان سب کی محنت کا نتیجہ ڈرامے کی کامیابی کی شکل میں سامنے آتا،خ یہ دور اب خواب لگتا ہے۔ مختلف شعبوں اورخاص طور پر ٹیکنالوجی میں بہت ترقی اورجدت آئی ہے لیکن ڈرامے کا سنہری دور وہی تھا جب مذکورہ شہرہ آفاق ڈرامے سکرین کی زینت بنتے تھے۔ اب ڈرامہ ختم ہوچکا ہے جبکہ سیاسی ڈرامہ اپنے عروج پر ہے جو اپنے دامن میں وہ تمام لوازمات سمیٹے ہوئے ہے جو ڈرامے کی کامیابی کے لیے ضروری خیال کئے جاتے ہیں۔ ڈرامے کا رائٹر، ڈائریکٹر ایک ہی ہے وہ خود ہی اس کا ہیرو ہے، ڈرامے میں ہر کردار موجود ہے لیکن ہیروئن موجود نہیں۔ رائٹر، ڈائریکٹر، ہیرو کا خیال ہی نہیں بلکہ یقین کامل تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے ہیروئن کی ضرورت نہیں، یہ اضافی کریکٹر ہے جس سے دور رہا جاسکتا ہے۔ ڈرامہ رواں برس مارچ میں شروع ہوا اب تک اس کی متعدد اقساط پیش کی جاچکی ہیں۔ اس ڈرامے نے بازار تو بند نہیں کرائے لیکن اسے ہمسایہ ملک کے علاوہ مڈل ایسٹ، امریکہ و یورپ میں دلچسپی کے ساتھ دیکھا جارہا ہے۔ پاکستان کے دوست و دشمن اپنے اپنے نکتہ نظر سے اس میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ پہلا ایپی سوڈ سائفر تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی سازش، لانگ مارچ، حقیقی آزادی مارچ تک اس میں خاصا سسپنس تھا۔ وزیرآباد پہنچے تو ٹریجڈی سین یعنی قاتلانہ حملے والا ایپی سوڈ چلا۔ خیال تھا کہ ہیرو پر ظلم اور اس کی جان سے کھیلنے کی کوششیں، پھر کینسر ہسپتال میں گولیوں کا نکالنا اور ٹانگوں پر پلاسٹر والے مناظر ڈرامے میں جان ڈال دیں گے لیکن ہیرو کو شدید زخمی بتائے جانے کے ٹھیک چند روز بعد جب راولپنڈی کے جلسہ عام میں رونمائی دی گئی تو اینٹی کلائمکس کی سی صورت پیدا ہوگئی، اس جلسے میں ہیرو نے آئندہ کا لائحہ عمل دیتے ہوئے کوئی بہت بڑا اعلان کرنا تھا جس کے بعد توقع تھی کہ اب انقلاب چند گھنٹوں میں دروازے پر صرف دستک ہی نہیں دے گا بلکہ ایک بے قابو ہجوم درودیوار کو ہلاکے رکھ دے گا، جس کے آخری منظر میں نعرہ زن مرد و زن ہیرو کو کندھوں پر اٹھاکر وزیراعظم ہائوس پہنچا دیں گے اور وہاں پر موجود وزیراعظم کو کھینچ کر ڈی چوک لے آئیں گے۔ پروڈکشن ٹیم نے تمام تیاریاں اسی اعتبار سے کی تھیں تمام کاسٹ اور درجنوں ایکسٹرا آخری منظر کے لیے بے حد پرجوش تھے، یوں سمجھ لیجئے کہ فلم ’’بین حر‘‘کا وہ منظر سب چشم تصور سے دیکھ رہے تھے جب فلم کا ہیرو بین حر جان گیسل رتھ ریس جیتنے کے بعد جسم پر درجنوں زخم لیے سٹیج پر آتا ہے جہاں اس کے سرپر تاج سجایا جاتا ہے۔
حقیقی آزادی حاصل کرنے کے لیے ہیرو سے چند لمحے قبل ہیرو کے دست راست اور ان کے پرائیویٹ سیکرٹری و سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دینے والے سینیٹر فیصل جاوید مائیک پر آئے انہوں نے دل دوز انداز اور گلوگیر آواز میں گفتگو شروع کی جس کا نکتہ انتہا یہ تھا کہ انہوں نے سہارے سے چل کر مائیک پر آتے ہیرو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگو دیکھو تمہاری خاطر کپتان کا یہ حال ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر وہ خود رونے لگا ان کا خیال تھا کہ ان الفاظ کے ادا ہوتے ہی مجمع بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے گا۔ عورتیں سینے پر دوہتڑ مار مارکر پچھاڑیں کھاتے ہوئے ایک دوسرے پر گریں گی، نوجوان لڑکیاں مردوں کے گلے سے ان کے دوپٹے اُتار کر لیرو لیر کردیں گے، کوئی کسی گرے کو اٹھارہا ہوگا کوئی کسی غم سے نڈھال کے منہ میں پانی ڈال رہا ہوگا لیکن وہاں ایسا کچھ بھی نہ ہوا کیونکہ کئی گھنٹوں سے پنڈال میں ڈھول ڈھمکا جاری تھا بڑے بڑے لائوڈ سپیکروں پر حقیقی آزادی کے گیت گونج رہے تھے۔ میرے پسندیدہ گلوکار عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کی درد بھری آواز میں خوشی کے گیتوں پر من چلے محو رقص تھے پس ایسے ماحول میں کسی کو رونا آتا تو کیوں آتا رہی سہی کسر ہیرو کے آخری خطاب نے پوری کردی جس میں کہاگیا کہ ہم صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہورہے ہیں لہٰذا اب سب جائیں اور مستعفی ہونے کی تیاری کریں، اس کے ٹھیک چوبیس گھنٹے بعد نیا اعلان سامنے آیا کہ ہم اب اپنے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے، مشاورت شروع ہوئی تو یاد آیا ہم نے ماضی میں جس قدر غلطیاں اور غلط فیصلے کیے ہیں ان کے اعتراف کا یہ بہترین وقت ہے جس کے بعد درجن بھر غلطیوں کے اعتراف سامنے آئے۔
سب سے بڑے اتحادی جناب پرویز الٰہی اور مونس الٰہی کے انٹرویوز نے رنگ محفل بدل دیا ہے، بیانات کچھ اُسے قسم کے ہیں جیسے میاں بیوی میں علیحدگی سے قبل ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھول کھول کر عزیزوں اور رشتہ داروں کے سامنے بیان کیا جاتا ہے، اتحادی چودھریوں کے شوہرانہ رویے سے بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ سیاسی اہلیہ سگھڑ، سلیقہ مند ہرگز نہ تھی بلکہ خوب خوب پھوہڑ تھی نہ وہ گھر چلاسکی نہ عزیزوں، رشتہ داروں کے دل میں گھر کر سکی، وہ حد درجہ خود پسند تھی، اُسے اپنے بنائو سنگھا عیش و آرام سے ہی فرصت نہ تھی کہ آس پاس نظر ڈالتی اور بگڑے کام سیدھے کرتی، اب معاملات اتنے بگڑ چکے ہیں کہ سدھار کے لیے کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا، ایسے میں ہمسائے سے ایک معاملہ فہم شخصیت جناب آصف زرداری آئے ہیں انہوں نے چودھری شجاعت حسین سے ملاقات میں جناب نواز شریف کا پیغام پہنچایا ہے جس کے بعد چودھری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی سے براہ راست یا بالواسطہ مشاورت ہوگی، سیاسی بلوغت کی حامل شخصیات اسمبلیاں توڑنے کو مسئلے کا حل نہیں سمجھتیں۔ ان کے خیال میں الیکشن ہو بھی جائیں تو معاملہ حل ہونے کی بجائے زیادہ بگڑے گا کیونکہ ہیرو انتخاب میں شکست کھانے کے بعد نتائج تسلیم نہیںکرے گا۔ شکست نوشتہ دیوار یوں ہے کہ اس مرتبہ اسے فیض حمید کا فیض اور محکمہ زراعت کی مدد حاصل نہ ہوگی، یہ دونوں فیکٹر نکال دیئے جائیں تو پیچھے فقط ساٹھ سیٹیں بچتی ہیں، اس مرتبہ آزاد امیدوار بیس سے پچیس ہوں گے جو اپنا وزن کسی اور پلڑے میں ڈالیں گے، مقابلہ پی ڈی ایم سے ہو یا پی ڈی ایم میں شامل ایک دوسرے ساتھ، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں، بات ایک ہی ہے، سیاسی ڈرامے کا انجام لمیہ ہے جو ناااہلی کے بعد سزا کی طرف جارہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button