ColumnZia Ul Haq Sarhadi

کرپشن کا عالمی دن .. ضیا الحق سرحدی

ضیا الحق سرحدی

 

عالمی سطح پر ہر سال 9دسمبر کو کرپشن سے نجات کاعالمی دن منایا جاتاہے کیونکہ کرپشن پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ لیکن کچھ ممالک کرپشن میں اس حد تک آگے نکل چکے ہیں جو کہ عالمی سطح پر ان کیلئے بدنامی کا باعث بن چکی ہیں۔پاکستان نے بھی پچھلے کچھ عرصہ میں کرپشن کی لعنت سے نجات حاصل کرنے کیلئے اہم اقدامات اٹھائے جس کی وجہ سے کچھ اچھے نتائج آئے ہیں۔رشوت کی لعنت دوزخ کی علامت ہے اسی لیے حکومت پاکستان نے بھی کرپشن کے مکمل خاتمے کا عزم کررکھا ہے۔کرپشن کے خلاف عالمی سطح پر پورا ایک دن وقف کرنے کا مقصدنہ صرف کرپشن کے خلاف جہادکیلئے تجدید عہد کرنا ہے بلکہ اس کے ذریعے عام و خواص میں اس اہم مسئلہ کے بارے میں شعوراور آگہی بھی پیدا کی جا رہی ہے۔قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری کرپشن کا خاتمہ ہے۔ کیونکہ کرپشن بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ افسوس اتنے سال گزرنے کے باوجود کرپشن کے خاتمے کیلئے سوائے قانون سازی کے کوئی عملی اقدامات نہیں کئے گئے۔کرپشن ایک ایسا مرض ہے جو وبائی امراض کی طرح پھیلتا ہے اورمعاشرے کو کھاجاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس موذی مرض نے ہماری سماجی، سیاسی اور روحانی زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔کرپشن یا بدعنوانی صرف رشوت اور غبن کا نام نہیں۔ اپنے عہداور اعتماد کو توڑنا یا مالی اور مادی معاملات کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی بدعنوانی کی شکلیں ہیں۔ ذاتی یا دنیاوی مطلب نکالنے کیلئے کسی مقدس نام کو استعمال کرنا بھی بدعنوانی ہے۔کسی برائی کے خلاف جدوجہد کا انحصار معاشرہ کے اخلاقی معیاروں پر ہوتا ہے۔
اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم کس بات کو رد اور کس کو قبول کرتے ہیں۔ بدعنوانی کے رویوں کے ساتھ بدعنوانی کا مقابلہ ممکن نہیں۔ کوئی نگران اگر خود بددیانت ہو تو لوٹ میں اپنا حصہ مانگ کر کرپشن میں معاونت کرتا ہے جس سے بربادی کا عمل اور گہرا ہوجاتا ہے۔ریاست، عوام، معاشرہ، آئین اور قدریں الگ الگ چیزیں ہیں۔ان سب چیزوں کے اشتراک سے انسانی تہذیب اور انسانی تاریخ جنم لیتی ہے۔ ریاست کو ہم ملک یا مملکت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ سینکڑوں برس قبل ایک تاریخ دان اور محقق نے ایک کتاب تحریر کی تھی جسے ابن خلدون کا مقدمہ کہاجاتا ہے۔ یہ کتاب ساری دنیا میں ایسے تمام اصولوں کی مستند ترین دستاویز سمجھی جاتی ہے جو ریاست عوام اور معاشرے کے باہمی تعلق کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اور ان ہی عوام کی کوکھ سے متعلقہ مملکت کے آئین اور اس کی اقدار کا جنم ہوتا ہے۔ ابن خلدون کا مقدمہ پڑھے بغیر ہم اس نظام کی تباہ کاریوں کے اسباب نہ تو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی دور کرسکتے ہیں جسے ہم نے اختیار کررکھا ہے اور جسے
’’بدل ڈالنے‘‘ کے عزم صمیم کااظہار ہمارے ملک کے تقریبا تمام لیڈر اور حکمران کرتے رہتے ہیں۔ابن خلدون نے بنیادی بات جو اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں لکھی تھی وہ یہ تھی کہ اس مملکت اور معاشرے کو تباہی اور بربادی سے بچایا ہی نہیں جاسکتا جس میں قانون سازی اور حکومت کرنے کا اختیار اس کے تاجروں اور بیوپاریوں کے پاس چلا جائے۔ایسی مملکت کے حکمرانوںکا ہر فیصلہ ان کے کاروبار کو فروغ دینے اور ان کے مالی مفادات کے تحفظ کیلئے ہوگا۔وہ چیز جسے ہم کرپشن کہتے ہیں اس تاریخی سچ کا دوسرا نام ہے جس پر ابن خلدون نے اپنےمقدمہ میں روشنی ڈالی تھی۔وطن عزیز کا نظام حکمرانی سر سے پائوں تک اسی تاریخی سچ کی دلدل میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کا اندازہ ہمارے حکمران طبقے کی بڑھتی ہوئی دولت اور بے بس عوام کے بڑھتے ہوئے افلاس سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارا پاکستان امیر سے امیر تر ہوتے چلے جانے والے حکمرانوں کا ایک ایسا غریب ملک ہے جس کے عوام پر عرصہ حیات روز بروز تنگ سے تنگ تر ہوتا چلاجارہا ہے۔
اہم بات جو کرپشن اور دیگر خیانتوں کی روک تھام کیلئے مفید ہے وہ شفاف اور منصفانہ عدالتی نظام ہے جب قانون کسی کے لالچ اور دبائو سے آزاد ہوگا اور اس کی مخالفت کرنے والے کو پوری پوری سزاسنائی جائے گی اور اس معاملے میں کسی بھی صورت رعایت اور ناانصافی سے کام نہیں لیا جائے گا تو یقینا ہر مجرم اپنے جرم سے پہلے سو بار سوچے گا اور قانون کا شکنجہ اسے اس جرم سے باز رکھنے میں بڑا معاون ثابت ہوگا۔ عدالتی نظام کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی اور مظالم و خیانتوں پر روک لگائے اور ظاہر سی بات ہے اجتماعی اموال میں خیانت کرنے والے سے بڑھ کر شاید ہی کوئی اور مجرم ہو کیوں کہ اس طرح معاشرے میں باہمی احترام اور انسانی اقدار و جذبات نابود ہوجاتے ہیں اور انسان پیسے کا حریص بن کر جانوروں سے بھی گھٹیا بن جاتا ہے اس کے نزدیک کوئی انسانی رشتہ قابل قدر نہیں رہتا بلکہ اس کے نزدیک ہر چیز کا معیار صرف پیسہ قرار پاتا ہے چاہے وہ اسے تمام انسانی رشتوں کو پامال کرنے اور اخلاقی قدروں کی دھجیاں اڑانے کے بعد ہی کیوں نہ ملے وہ اس کیلئے بخوشی تیار ہوجاتا ہے۔ اس لئے جب تک عدالتی اور قانونی بوجھ سرپر نہ ہوگا اس وقت تک مال و دولت کا حرص انسان کوان خیانتوں پر ابھارتا رہے گا۔ایک سروے رپورٹس کے مطابق ملک میں اس وقت سالانہ پانچ ہزار ارب روپے کی کرپشن کی جاتی ہے جس میں بلوچستان 65فیصد،سندھ 45فیصد، پنجاب 32فیصد اور خیبرپختونخوا 21فیصد ہے۔اس وقت ملک میں کرپشن کے خاتمے کیلئے جو ادارے کام کررہے ہیں ان میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے ، وفاقی احتساب ادارہ، نیب اور احتساب ادارہ اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔ کرپشن کا خاتمہ اتنی آسانی سے ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ سب اتنا آسان ہوتا، تو بہت پہلے ہوچکا ہوتا۔
ایک مرتبہ صحابی رسول حضرت سعد بن وقاصؓ نے سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے لیے مستجاب الدعوات ہونے کی دعا فرما
دیجئے، آپﷺ نے فرمایا: اے سعد! اپناکھانا حلال اور پاک کرلو، تم مستجاب الدعوات بن جائو گے، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدﷺ کی جان ہے بندہ جب اپنے پیٹ میں حرام لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا اور جس شخص کا گوشت حرام مال سے بنا ہوا ہو وہ گوشت تو جہنم کے ہی لائق ہے۔ بدعنوانیوں کی موجودہ دلدل سے نکلنے کے لئے اسلام جیسے مکمل اور فطری مذہب کی جامع اور حقیقی تعلیمات ہی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف سخت اور مربوط اقدامات اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کی نیک نامی میں اضافہ ہو۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ سیاسی سطح پر سیاستدانوں کو نہ صرف ایسی قانون سازی کرنی ہوگی، کہ ہر سطح پر کرپشن کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ موجودہ قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button