Editorial

کامیاب موسمیاتی سفارت کاری

 

شرم الشیخ کانفرنس میں کامیاب موسمیاتی سفارت کاری میں کردارادا کرنے والوں سے متعلق تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دنیا کے کئی خطے موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہیں، پاکستان میں حالیہ سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے، کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، پاکستان خیرات نہیں بلکہ موسمیاتی انصاف چاہتا ہے۔حالیہ سیلاب نے پاکستان میں بہت تباہی مچائی، سیلاب سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔وزیراعظم شہباز شریف نے قاہرہ میں موسمیاتی تبدیلی اورکمزورملکوں کے استحکام کے موضوع پر ہونے والی گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے درحقیقت اصولی بات کہی تھی کہ موسمیاتی تبدیلی کا بوجھ برابری کی بنیاد پر نہیں حالانکہ اِسے منصفانہ طور پر تقسیم ہونا چاہیے کیونکہ ایک طرف کاربن پیدا کرنے والے بڑے اور صنعتی ممالک ہیں جو دنیا پھر صنعتی پھیلائو کی وجہ سے حکمرانی کرتے ہیں تو دوسری طرف اِن کی انڈسٹریز سے خارج ہونے والا کاربن پوری دنیا کو آلودہ کررہا ہے، چونکہ یہ ممالک معاشی لحاظ سے مضبوط ہیں لہٰذا موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی بھی بھرپور سکت رکھتے ہیں لیکن وہ ممالک جو پہلے ہی معاشی چیلنجز کا سامنا کررہے ہیں ، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اُن کے لیے نئے چیلنج کی صورت میں قہر بن کر ٹوٹی ہوئی ہے جیسا کہ وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ ا قدامات نہ کئے گئے تو 2050 تک 216 ملین افراد بے گھر ہو جائیں گے،کیونکہ موسمیاتی تبدیلی پر جس برق رفتاری سے کوششوں کی ضرورت ہے ویسی کوششیں نظر نہیں آرہیں لہٰذا ترقی پذیر ممالک میں آسان، طویل المدتی موسمیاتی فنانسنگ کی ضرورت ہے۔بلاشبہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں، پاکستان میں حالیہ سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے، 4410 ملین ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا ہے، قریباً 40 لاکھ بچوں کو صحت کی خدمات تک رسائی حاصل نہیں مگر اِس کے باوجود سیلاب اور اِس کے بعد کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے کمزور معیشت اور محدود وسائل کے ساتھ پاکستان تن تنہا کھڑا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سب سے زیادہ کمزور طبقے پر پڑتے ہیں، موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات خواتین اور بچوں کے ساتھ ساتھ غریب ترین افراد کو بھی متاثر کرتے ہیںکیونکہ اِن کے پاس وسائل نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور دراصل وہ پہلے ہی غربت کی لکیر پہ یا اُس سے نیچے زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں حالیہ سیلاب کی ہی بات کی جائے تو سرکاری اعدادو شمار کے مطابق قریباً 33 ملین افراد میں سے نصف سے زائد تعداد میں خواتین اور بچے ہیں جنہیں فوری اور زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کھلے آسمان تلے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ زراعت کا شعبہ مکمل طور پر تباہ و برباد ہوچکا
ہے اور حالت یہ ہے کہ ہمارے پاس ضرورت کی اجناس بھی نہیں ہیں اور ہمیں دوسرے ممالک سے درآمد کرنا پڑ رہی ہیں کیونکہ سیلاب نے شہروں، بستیوں اور کھیت کھلیان کو تباہ کرکے اپنے پیچھے میدان چھوڑا ہے، آج کے جدید دور میں ہم تمام تر کوششوں کے باوجود اِس تباہی کے آگے بند نہیں باندھ سکے ، معاشی مسائل کا شکار ملک ایک طرف عالمی مالیاتی اداروں سے نظام مملکت چلانے کے لیے باربار رجوع کررہا ہے تو دوسری طرف کرونا وائرس، عالمی کساد بازاری اور پھرسیلاب نے معیشت کی بحالی کے لیے ہرکوشش کو نقصان پہنچایا ، اگرچہ وہ قیامت نہ تھی مگر قیامت کے قریب تر تھا، کسان اور مال مویشی پالنے والوں کی آنکھوں کے سامنے ان کا معاش تباہ ہو گیا،تیار اور لہلہاتی فصلیں بہہ گئیں پھر مویشی پالنے والوں کے جانور سیلابی ریلے کی نذر ہوگئے، لہٰذا وفاقی اورصوبائی حکومتیں کہاں تک متاثرہ افراد کے نقصانات کا ازالہ کرسکتی ہیں کیونکہ سیلاب کی صورتحال کے پاکستان کی معاشی بحالی کی رفتار پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں ۔پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جو صنعتی ممالک کی ترقی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ، حالیہ سیلاب اسی ترقی کی قیمت تھی۔ انصاف تو یہی ہے کہ جو ممالک کاربن پیدا کرکے کرہ ارض کو موسمیاتی تبدیلی، اناج کے قحط سمیت دیگر سنگین مسائل سے دوچار کرچکے ہیں وہی متاثرہ ممالک کی بحالی کے لیے آگے آئیں بلکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی اتحاد ضروری ہے جس کی اولین ترجیح دنیا بھر میں ہنگامی طور پر ایسے ذرائع کو ختم کرنا ہو جو فضائی آلودگی کا باعث بن رہے ہیں ،اِس کے لیے سخت سے سخت قانون سازی کی جائے اور جس طرح مختلف مواقعوں پر طاقت ور ملکوں کے اتحاد سامنے آتے ہیں اسی طرح عالمی سطح پر اتحاد سامنے آنا چاہیے جو ایک طرف کاربن اور دوسری زہریلی گیسوں اور مواد کے اخراج کو کم کرے یا روکے تو دوسری طرف آلودگی پر قابو پانے کے شجرکاری جیسے اقدامات کو بھی دبائو کے ذریعے یقینی بنائے لیکن اِس دوران اِس سے زیادہ اہمیت اُن ملکوں کو دی جائے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور پاکستان اِن میں سرفہرست ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی سطح کی اجتماعی کوششوں کے بغیر فضائی آلودگی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کے نتیجے میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رہا جاسکتا ہے لہٰذا ترقی پذیر ممالک آج جن اثرات کا مقابلہ کر رہے ہیںتو کل تمام دنیا کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے، چونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنا صرف ترقی پذیر ممالک کے بس میں نہیں اِس لیے عالمی برادری کو مل کر کرہ ارض کی بقا کا مشترکہ چارٹر بنانا ہوگا جس میں ان تمام پہلوئوں کو مدنظر رکھنا پڑے گا۔ ہم پاکستان میں سیلاب اور متاثرین کی مدد کے لیے کاوشوں پر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف اور اُن کی پوری ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ اُن کی کاوشوں سے موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ حقیقی معنوں میں عالمی سطح پر اُجاگر ہوا اور اقوام عالم متوجہ ہوئے، ہم اقوام متحدہ کے چیئرمین انتونیو گوتریس کے بھی شکر گذار ہیں کہ اِن مشکل حالات میں انہوں نے سیلاب متاثرہ خاندانوںکے درمیان پہنچ کر اُن کی حوصلہ افزائی کی اور اقوام عالم کو فوری ریلیف پہنچانے کے لیے مخاطب کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button