
مظہر چودھری
یوم دفاع اور شہدا کی تقریب میںجنرل قمر جاوید باجوہ نے بطور آرمی چیف اپنے آخری خطاب میں فوجی قیادت کے اس عزم کا اعادہ کیا کہ آئندہ فوج کسی سیاسی معاملے میں مداخلت نہیں کرے گی۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی بھارتی فوج کرتی ہے لیکن ان کے عوام کم و بیش ہی ان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اس کے برعکس پاکستانی فوج جو دن رات قوم کی خدمت میں مصروف رہتی ہے، گاہے بگاہے تنقید کا نشانہ بنتی رہتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک تنقید کی سب سے بڑی وجہ 70سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو کہ غیر آئینی ہے۔آرمی چیف نے کہا کہ فوج پر تنقید عوام اور سیاسی جماعتوں کا حق ہے لیکن الفاظ کے چنائو میں احتیاط برتنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ایک جعلی اور جھوٹا بیانیہ بنا کر ملک میں ہیجان کی کیفیت پیدا کی گئی اور اب اسی جھوٹے بیانیے سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے۔ان کا کہنا تھاکہ 2018کے الیکشن میں بعض جماعتوں نے آر ٹی ایس کو بہانہ بنا کر جیتی ہوئی پارٹی کو سلیکٹڈ کا لقب دیا اور 2022میں اعتماد کا ووٹ کھونے کے بعد ایک پارٹی نے دوسری پارٹی کو امپورٹڈ کا لقب دیا۔انہوں نے کہا کہ فوج نے تو اپنا کتھارسس شروع کر دیا ہے انہیںامید ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کریں گی۔آرمی چیف نے یہ بھی کہا کہ پاکستان آج سنگین معاشی مشکلات کا شکار ہے ، کوئی بھی ایک پارٹی ملک کو معاشی بحران سے نہیں نکال سکتی۔ بحران سے نکلنے کیلئے سیاسی استحکام لازم ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اپنی ذاتی انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں ، آگے بڑھیں اور پاکستان کو اس بحران سے نکالیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فوجی قیادت کی جانب سے ماضی میں بھی کئی بار سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے کبھی فوج نے اتنے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں سیاست میں مداخلت ترک کرنے کی باتیں نہیں کیں۔اس کے علاوہ فوجی قیادت کی جانب سے کبھی فوج کی سیاست میں مداخلت کو غیر آئینی نہیں کہا گیا۔فوج کی جانب سے کتھارسس شروع کرنے کا عمل خوش آئند ہے ۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما بھی اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے منفی سیاست سے گریز کا عزم کریں ۔ کوئی شک نہیں کہ ہمارے ہاں ماضی میں براہ راست فوجی مداخلتیں بھی ہوتی رہی ہیں اور سیاسی معاملات میں فوج بلواسطہ مداخلت بھی کرتی آئی ہے تاہم اس حقیقت سے بھی انکار
ممکن نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما بھی اقتدار میں آنے اور اقتدار کو بچانے کیلئے فوج کو مداخلت پر مجبور کرتے رہے ہیں۔اس کے علاوہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما سیاسی مفادات کے حصول ا ور دوسروں کو نیچا دکھانے کیلئے بھی ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اکیسویں صدی کی پہلی اور دوسری دہائی میں نوے کی دہائی میں آپس میں دست وگریبان سیاسی جماعتوں نے میثاق جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کی منظوری کی صورت میں سیاسی رواداری کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بالغ النظر ہونے کا ثبوت دینا شروع کر دیا تھا۔یہ دونوں جماعتوں کی اصولی سیاست کا ہی نتیجہ تھا کہ نون لیگ کی سابقہ حکومت طویل ترین دھرنے اور پاناما کی آڑ میں ہونے والی جلسے جلوسوں کی منفی سیاست کے باوجود اپنی آئینی مدت پوری کر نے میں کامیاب رہی۔ رواداری اور افہام وتفہیم پر مبنی سیاست کا یہ منظر نامہ اگر دس سال مزید چلتا رہتا تو ملک میں جمہوری و سول بالادستی کا خواب بڑی حد تک پورا ہو چکا ہوتا لیکن تحریک انصاف کی صورت میں لائی گئی تیسری قوت نے بہتری کے سارے امکانات ہی معدوم کر دئیے۔
اگرچہ2013میں بننے والی نواز حکومت میں تحریک انصاف کو آئینی طور پر حزب مخالف کا کردارنہ مل سکا تھا لیکن اس نے اپنی سیاست کو چمکانے کیلئے روایتی اپوزیشن جماعت کا کردار ادا کرکے نوے کی دہائی کی سیاست کو زندہ کر دیا۔ تحریک انصاف نے ایک طرف پہلے دھاندلی اور بعد ازاں پاناما کی آڑ میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تو دوسری جانب حکومت میں آکراحتسا ب کے نام پر سیاسی مخالفین کو ایسا رگڑا دیا کہ سیاسی رواداری اور افہام وتفہیم کی کوئی گنجائش ہی نہ رہی۔تحریک انصاف اگر حکومت میں آکر سیاسی مخالفین کے احتساب پر سارا زور لگانے کی بجائے معیشت کے استحکام اور ترقی کی کوششیں کرتی رہتی تو اپوزیشن جماعتوں کو عمران حکومت کو عدم اعتماد کے زریعے گھر بھیجنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔بہت بہتر ہوتا کہ اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد لانے کی بجائے تحریک انصاف کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتیں تاہم اپوزیشن جماعتوں کے خیال میں اگر تحریک انصاف حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے رخصت نہ کیا جاتا تو معیشت کا دیوالیہ نکل جاتا۔ اپوزیشن اتحاد کی جانب سے عدم اعتماد کے آئینی حق کو استعمال کرنے سے تحریک انصاف نے اپوزیشن جماعتوں سے اپنی مخالفت کو نفرت اور دشمنی میں ایسا بدلا کہ اب سیاسی عدم رواداری اپنی انتہائوں کو چھوتے ہوئے قتل وغارت تک جا پہنچی ہے۔
بدقسمتی سے قریباً تمام سیاسی جماعتوں کا طرز عمل مثبت کم اور منفی زیادہ رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں اس وجہ سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے اور مخالفت برائے مخالفت میں مصروف عمل رہتی ہیں کہ کہیں برسراقتدار جماعت ملکی و عوامی سطح پر ڈلیور کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔سابقہ نواز حکومت میں تحریک انصاف کی احتجاجی سیاست نے اس وقت کی حکومت کو مفلوج کئے رکھا ۔اگرچہ عمران حکومت کے ابتدائی دو سالوں میں اپوزیشن جماعتوں نے جلسے جلوسوں اور دھرنوں کی منفی سیاست سے ملک کو مفلوج بنانے کی کوشش نہیں کی لیکن بعد ازاں اپوزیشن اتحاد نے انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے پی ٹی آئی حکومت کو عدم اعتماد کے زریعے فارغ کر دیا۔اگرچہ عمران حکومت کو آئینی طریقے سے ہٹایا گیاہے لیکن زیادہ بہتر یہی ہوتا کہ سابقہ دو حکومتوں کی طرح ان کی حکومت بھی اپنی مدت پوری کر تی۔اگرچہ عمران خان کو یقین تھا کہ ان کے سیاسی حریفوں نے انہیں سیاسی دائو پیچ استعمال کرتے ہوئے اقتدار سے الگ کیا ہے لیکن عوام بالخصوص اپنے ووٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے انہوں نے غیر ملکی سازش کا واویلا مچاتے ہوئے امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ عام کیا۔عمران خان کی خدمت میں یہی عرض ہے کہ ہر وقت سڑکوں پر نکلنے اورلانگ مارچ یا دھرنوں کی منفی سیاست سے گریز کرتے ہوئے پارلیمان کے زریعے معاملات سلجھانے کی جمہوری روش اختیار کریں۔آپ ووٹرز کو ساتھ رکھنے کیلئے لانگ مارچ یا دھرنے کی سیاست پر کاربند رہنا چاہتے ہیںلیکن معاشی بحران میں گھرا ہمارا ملک اس طرح کی منفی سیاست کو افورڈ نہیں کر سکتا۔