Editorial

داخلی انتشارکے خوفناک نتائج !

 

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے نہ صرف پاک فوج کی بھرپور اور مدلل ترجمانی کی ہے بلکہ موجودہ سیاسی انتشار میں سامنے آنے والے نت نئے بیانیے ، جھوٹ اور افواہوںپر بھی کھل کر بات کی ہے اور ہمیں برملا تسلیم کرنا چاہیے کہ اُن کی صورتحال پر گہری نظر ہے اور اُن کے پاس ہر سوال کا نہ صرف جواب ہے بلکہ اُن کے پاس بھی کئی سوالات ہیں جن کے جوابات دینے سے شاید ہم قاصر ہوں۔ تاہم اُن کی گفتگو کا خلاصہ ہے کہ سائفر اور رجیم چینج پر اختیار کیا جانے والا بیانیہ جھوٹا ہے۔ اداروں اور آرمی چیف پر بے بنیاد الزامات اور تنقید کی جا رہی ہے۔ سائفر اور ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے تاکہ قوم سچ جان سکے۔افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ عدم اعتماد کی تحریک حکومت کے خلاف آئینی، قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے رجیم چینج آپریشن کا حصہ تھی۔ پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا۔ ذہن سازی کے ذریعے قوم اور افواج پاکستان میں، سپاہ اور قیادت کے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان اور اس کے اداروں کو دنیا بھر میں بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی گئی۔ اگر ہم سے ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ہم پچھلے 20 سالوں سے اپنے خون سے ان کو دھو رہے ہیں، یہ آپ کی فوج ہے، 35 سے 40 سال وردی پہننے کے بعد کوئی غداری کا طوق لٹکا کر گھر نہیں جانا چاہتے، ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ہم غدار اور سازشی ہرگز نہیں ہو سکتے، اس چیز کا ادراک سب کو کرنا ہو گا کیونکہ فوج عوام کے بغیر کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہائبرڈ اور ففتھ جنریشن وارفیئر کی ایپلی کیشن کے مترادف ہوبہو عملدرآمد پاکستان میں ہو رہا ہے لہٰذا ہم اس سے نبرد آزما ہیں اور اس سے باہر نکلیں گے، ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہماری شناخت سب سے پہلے پاکستان ہے اور ہم نے بطور ادارہ اپنی قوم کو کبھی مایوس کیا ہے، نہ کریں گے، یہ ہمارا آپ سے وعدہ ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ فوج کے غیرسیاسی رہنے کا فیصلہ کرنے والوں میں وہ لوگ شامل ہیں جنہوں نے آئندہ 15 سے 20 برسوں میں اس ادارے کی قیادت سنبھالنی ہے۔ پاک فوج کے دونوں افسران کی تفصیلی گفتگو کے مخصوص حصے یہاں بیان کرنے کا مقصد قیاس سے پاک اپنی گذارش پیش کرنا ہے ۔ دونوں افسران نے بالکل واضح طور پر کہا کہ اگر ہم سے ماضی میں کچھ غلطیاں ہوئی ہیں تو ہم پچھلے 20 سالوں سے اپنے خون سے ان کو دھو رہے ہیں، دونوں افسران نے اپنے
ادارے کی ماضی کی بعض غلطیوں کا اعتراف بھی کیا اور چشم کشائی بھی کی کہ پاک فوج اِن غلطیوں کو اپنے خون سے دھورہی ہے اور عسکری قیادت اور مستقبل میں اہم قومی ذمہ داریاں سنبھالنے والے افسران متفق ہیں کہ پاک فوج کو قومی سیاست سے دور رہنا چاہیےاور سیاست سے دور رہا بھی جائے گا، مگر دوسری جانب دیکھا جائے تو سیاسی قیادت کسی بھی طرح اُن قاعدے اور قوانین کی پابند کبھی نہیں رہی جو اداروں کے استحقاق، احترام اور اُن کی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوں بلکہ ہمیشہ سیاسی قائدین نے وہی غلطیاں دھرائیں جو اُن کے پیش رو دھراتے رہے ہیں۔ مثلاً ملکی حالات کو اُس نہج تک لے جانا کہ قومی سطح پر انتشار سرائیت کرجائے اور عوام عدم تحفظ محسوس کریں یا پھر داخلی و خارجی سطح پر ایسے ’’کارہائے نمایاں‘‘ انجام دیئے جاتے رہے ہیں کہ سنجیدہ قوتوں کو مداخلت کرنا پڑی ہے۔ یہ بات ماضی کے بعض واقعات سے میل نہیں کھاتی کیونکہ ان واقعات میں بظاہر سیاسی قیادت اتنی زیادہ ذمہ دار نہ تھی لیکن پھر بھی ملک کو مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ مارشل لا کو دعوت دینے والے ہمارے قائدین ہی تھے جو بات تو جمہوریت اور آئین کی کرتے لیکن ان کی بعض غلطیوں نے جمہوری تسلسل کو بریک لگادی، لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ سیاسی قائدین ، جنہوںنے میثاق جمہوریت پر دستخط کیے اور وہ جنہوں نے دستخط نہیں کیے ، ان سب پر واضح ہونا چاہیے کہ وہ اپنے سیاسی معاملات کو سیاسی میدان میں افہام و تفہیم کے ساتھ نمٹائیں اور حالات کو اس نہج تک نہ لے جائیں کہ عوام دلبرداشتہ ہوکر کسی اور جانب دیکھے۔ سیاسی لیڈر کوئی بھی ہوں ، سبھی کو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے اندر ایسی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے کہ عوام کا اگلا انتخاب وہی ہوں،مگر اس کے لیے سیاسی قائدین کو اپنے اندر جمہوری سوچ کو پیدا کرنا ہوگا، برداشت اور حق گوئی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا ہوگا اور انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے کی بجائے رائے عامہ کا احترام کرنا ہوگا مگر آج تک اس کے برعکس ہوتا آیا ہے۔ کوئی کسی کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کرتا جو بھی برسراقتدار آتا ہے اس کے حلف اٹھاتے ہیں اس کے خلاف حزب اختلاف ملک گیر تحریک شروع کردیتی ہے اور افسوس ناک کہ، تحریک سے جہاں سیاسی عدم استحکام پھیلتا ہے اور اس کے معاشی استحکام پر منی اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں بسا اوقات غیر جمہوری رویے کے ساتھ رات کے اندھیروں یا دن کے اُجالوں میں سرگوشیاں کی جاتی ہیں اور اِس ساری مشق کا مقصد صرف اور صرف حصول اقتدار ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ریاست کے اہم ترین شعبے کا موقف سامنے آنے کے بعد ہماری سیاسی قیادت کو بھی اپنی روش تبدیل کرنی چاہیے اور سیاسی معاملات کو سیاسی میدان میں ہی نمٹانا چاہیے اور اگر معاملہ افہام و تفہیم کے ساتھ پرامن رہے تو بلاشبہ معجزہ ہوگا، ہمارے سامنے برطانیہ میں ان ہائوس تبدیلی کی مثال موجود ہونی چاہیے اورپھر ہمیں اپنا بھی اُن کے ساتھ موازنہ کرنا چاہیے۔ جب تک ہم دوسرے کا مینڈیٹ تسلیم نہیں کریں گے۔ اہم قومی شخصیات اور اداروں اور عوامی مینڈیٹ کو متنازع بنائیں گے ہم قطعی ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتے بلکہ جتنے قدم آگے بڑھیں گے ، دُگنے قدم پیچھے آئیں گے۔ آج بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے جو اگلی دو دہائیوں تک معاشی لحاظ سے دنیا میں نمبرتینکی دوڑ میں شامل ہے اس کے برعکس ہم ہیں کہ زبانی جمع خرچ کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں، نہ ہی قومی خزانے میں کچھ ہے اور نہ ہماری معیشت قوم کا بوجھ سہار سکتی ہے، قرض ملنے پر ہم جشن مناتے ہیں جیسے ہم نے بھارت سے کشمیر چھین لیا ہو۔ سیاست کو انتہائی پیچیدہ ترین بنانے سے ملک و قوم کے بنیادی مسائل انتہائی پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ ہر حکومت بعد میں آنے والی حکومت کے لیے بم بچھاکر جاتی ہے جیسے موجودہ اتحادی حکومت پچھلی حکومت کا نام لیکر بارہا دعویٰ کرتی رہی ہے کہ تحریک انصاف نے معاشی میدان میں بم بچھائے ہیں، پس سیاست دان ایک دوسرے کو زیر عتاب لانے اور نیچا دکھانے کی روش میں اُس حد کو بھی عبور کرلیتے ہیں جو جمہوریت اور جمہوری رویوں سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ مخالفین اور ان کے حمایتیوں پر جھوٹے مقدمات کا اندراج، ٹارچر ، قیدو بند کی صعوبتیں اور ایسے تمام حربے اختیار کیے جاتے ہیں جو کسی پسماندہ علاقے کا وڈیرا اپنے ہاریوں کے ساتھ سلوک کرتا ہے۔ سیاست دان جس نہج پر عدم برداشت اور رویوں کا اوبال لے جاچکے ہیں یہ جلد نیچے آنے والا نہیں کیونکہ اب یہ اُن کے خامیوں میں سرایت کرچکا ہے اور اسی کے نتیجے میں معاشرہ آج دھڑا بندی کا شکار ہے، مگر ملک میں کوئی شخصیت ایسی نہیں جو اصلاح احوال کے لیے سامنے آنے اور جس کو سبھی احترام دیں، آج کے داخلی حالات قطعی طور پر اطمینان بخش نہیں ہیں، کیونکہ انہیں معیشت، کاروبار اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار رہنے ہی نہیں دیاگیا اور اس کی بنیادی وہی ہے کہ ہمہ وقت کوئی نیا بیانیہ کسی جانب سے سامنے آتا رہتا ہے جو لوگوں کی الجھن میں اضافہ کرتا ہے، لہٰذا قومی اداروں اور شخصیات کو متنازعہ بنانے سے گریز کرنا چاہیے کہ اِس روش کا صرف نقصان ہی ہوتا ہے۔ آج کوئی پاکستانی شاید ایسا ہو جو ملک کے معاشی مسائل کی وجوہات اور سیاسی قیادت کی روش سے آگاہ نہ ہو۔ پس سیاسی قائدین کوزمینی حقائق اور حالات کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے کہ ماضی میں جنہوں نے ملک و قوم کے لیے کارہائے نمایاں انجام دیئے قوم آج بھی ان کو اچھے الفاظ کے ساتھ یاد کرتی ہے لیکن جنہوںنے فقط اپنے مخصوص مقاصد کے لیے مینڈیٹ کو استعمال کیا آج وہ ماضی کا حصہ بن کر صرف کتابوںتک محدود ہیں۔ محتاط الفاظ کے ساتھ ہم یہی گذارش کرنا چاہتے تھے کہ قومی اداروں اور شخصیات کو متنازعہ مت بنایا جائے اوراپنی ادائوں پر بھی غور کیاجائے ۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button