طبقاتی جنگی نظریہ کا انجام ۔۔ قادر خان یوسفزئی

قادر خان یوسف زئی
تمدنی زندگی میں اعلیٰ مقاصد کے حصول کیلئے تنہاانسان کی قوتیں بس نہیں کرتیں بلکہ ایک دوسرے کا سہارا بنتا اور دوسرے کا سہارا لیتا ہے ۔ باہمی ربط و اتحاد کی یہ خواہش اور ضرورت، تمدنی زندگی کی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔مثلاًافریقہ کے نیم حبشی وحشیوں میں عموماً مذاق ، صلاحیت ، ذہنی استعداد، جسمانی کارکردگی کا بہت تفاوت محسوس ہوتا ہے، ان کی ضرورتیں اور حاجتیں بہت کچھ یکساں ہوتی ہیں لیکن ذرا زیادہ تمدن جماعت کو دیکھئے تو ایک اور دوسرے رکن میں صلاحیتوں کا فرق، مذاق کا اختلاف اور ضرورتوں کا تفاوت پہلی نظر میں سامنے آجائے گا ۔ اس تنوع کے باعث ایک ہی ہیئت اجتماعی کے افراد اور گروہوں میں اختلاف اغراض و مقاصد اور اس کی وجہ سے کشمکش شروع ہو جاتی ہے۔ان میں سے بہت ایک اپنی غرض کی تائید میں ہیئت اجتماعی یعنی ریاست کی مداخلت اور مدد چاہتا ہے ، لیکن ایک کی بھلائی میں دوسرے کی برائی اور ایک کے فائدہ میں دوسرے کا نقصان ہوتا ہے۔
مال خریدنے والے چاہتے ہیں کہ قیمتیں مندی ہوں ، اور مال بنانے والے اس فکر میں رہتے ہیں کہ بازار تیز ہو ، کارخانے والے مصارف دولت آفرینی کو گھٹانے کیلئے شرح اجرت کو نیچے گرانا چاہتے ہیںتو محنت کش مزدور اس ادھیڑ بن میں ہیں کہ اسے اوپر چڑھائیں ، مال تیار کرنے والے اور استعمال کرنے والے چاہتے ہیں کہ باہم براہ راست و بلا واسطہ تعلق قائم کرلیں ، بیچ کے دکاندار ان کے ا س ربط باہمی کو بڑی شبہ کی نظروں سے دیکھتا ہے کہ ایسا ہو گیا تو اس غریب کا تو خاتمہ ہی ہے، چھوٹے دکاندار، بڑے بڑے مخزنوں کے قیام کے مخالف ہیں اور چھوٹے کاریگر بڑے کارخانوں کے۔ زراعت والوں کا بھلا اس میں ہے کہ غلّہ اور دوسری زرعی پیداوار کی قیمت بڑھے ،چاہے اس سے شہر والوں کے مصارف کتنے ہی بڑھ جائیں اور صنعت کو اجناس خام کتنی ہی مہنگی پڑیں ۔ سوت کی درآمد پر محصول لگا کر اگر سوت کاتنے والوں کو سہارا دیجئے تو سوت بننے والے جولاہے چلّا اٹھتے ہیں ۔
اگر ریاست اپنی سیاست معاشی میں اپنے اجزاء ترکیبی کے علیحدہ علیحدہ فلاح و بہبود کا خیال رکھے تو اس سیاست میں یکجہتی اور ہم آہنگی کا ہونا ناممکن ہے ، یا اگر اس سیاست کے تعین میںہیئت اجتماعی کا کوئی مخصوص حصہ ہی موثر ہو تو ظاہر ہے کہ وہ پوری ریاست اور اس کی ساری قوت کو اپنی اغراض کا تابع بنانے کی کوشش کرے گا ۔ پھر یہ بھی ظاہر ہے کہ دوسرے گروہ بھی برابرتاک میں رہیں گے کہ جب موقع پائیں قوت حاصل کرکے سیاست معاشی کا رخ اپنی بہبود کی طرف پھیر دیں اور اپنے فائدہ کیلئے اس غلطی کے مرتکب ہوں جو دوسروں سے ہوتی تھی تو ان کیلئے سخت بے اطمینانی اور شکایت کا باعث تھی ، یہی وجہ ہے کہ ریاستوں کی سیاست معاشی میں بسا اوقات تسلسل و ہم آہنگی نہیں پائی جاتی بلکہ متضاد عناصر کے باری باری اقتدار پانے سے کبھی اس کا رخ ایک طرف ہوتا ہے کبھی دوسری طرف ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ان افراد ، طبقات اور مختلف پیشوں اور گروہوں کی تنگ نظری سے قطع نظر کل ہئیت اجتماعی اپنے لیے اپنے اراکین کیلئے کوئی مقصد یا مقاصد ایسے متعین کرسکے جو اس کے نزدیک اور اس کے ارکان کے اکثریت کے نزدیک بہرحال قابل حصول ہوں ۔ ریاست بس ان مقاصد کی حمایت کرے ، چاہے کسی خاص گروہ کو اس سے عارضی فائدہ اور کسی دوسرے کو عارضی نقصان پہنچے ۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ مخصوص گروہ اپنے اپنے مقاصد کی جداگانہ تشریح پیش کرتے ہیں ، ان کے نزدیک جو وہ کہہ رہے ہیں وہ درست ہے اور جو دوسروں کا مفروضہ ہے وہ سراسر غلط ہے ۔ ان حالات نے ریاست کیلئے مشکلات پیدا کردی ہیں کہ وہ اگر اپنے غیرجانب دارانہ کردار پر قائم رہتی ہے تو بھی کوئی ایسی شخصیت ( جماعت )نہیں وہ اُس معیار پر اتر سکے جس کی خواہش ہر اہل وطن میں ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ سب آزمائے ہوئے ہیں ، سب کے دامن میلے گندے اور کیچڑ میں لتھڑے ہوئے ہیں ، کسی کا دامن بے داغ نہیں ، بھلاکون چمک کا شکار
نہیں، ان حالات میں اگر مایوسی اور نا امیدی ڈیرے ڈالے تو قصور وار کون ہوگا ، اس جواب کو تلاش کرتے کرتے کئی دہائیاں بیت گئیں اور آنے والے برسوں میں بھی کسی مثبت جواب کی توقع نہیں۔ کریں تو کیا کریں، بے اطمینانی کی ایسی کیفیت ہر خاص و عام پر طاری ہے کہ اس سے نکلنے کیلئے بھی کوئی سبیل نظرنہیں آتی ۔
درست سمت نہ ہونے کے باعث دشوار گذار راستے آچکے ہیں ، کوئی اگر یہ کہتا ہے کہ انہوں نے عملی تحقیق ، تجارب اور حکیمی تجسس سے ، واقعات کے مشاہدہ اور اسباب و علل کے مراحل طے کرکے معیشت کے اس راز سر بستہ کا سراغ لگالیا ہے کہ جس سے ہم غیروں کی غلامی سے نکل سکیں گے تو یقیناً وہ خواب غفلت میںہی نہیں بلکہ قوم کو اندھیرے میں رکھنا چاہتا ہے۔ نفع طلبی اور فروعی مفادات کی غیر عقلی عمل سے ہئیت اجتماعی کو تھوڑے تھوڑے عرصہ بعد ایسے انتشارات معاشی سے دوچار ہونا پڑے گا کہ نظام معیشت بہت دن اس کی تاب نہ لا سکے گا اور کوئی چاہے نہ چاہے ، اُسے اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا ،عوام کو بھی اس لیے کہ کیونکہ ان کی مسلسل خاموشی اور بزدلی کے باعث اشرافیہ روز بہ روز مضبوط ہوتا جارہا ہے اور کمزور عوام مزید نحیف اور ناتواں ، یہاں تک اُن پر اور بھی زیادہ بُرا وقت خدانکردہ آسکتا ہے ۔
آپ کا سب کچھ کہنا بے سود ہے ، اس حکمی اور علمی اور تجربی حقیقت پر عقیدہ واثق قائم رکھنا بہت مشکل لگتا ہے ، کساد بازاری کے انتشارات سے سرمایہ داروں ، منافع خوروں اور بلیک مارکیٹنگ والوں نے کیا کیا فوائد حاصل نہ کئے ۔ آپ تاریخی شہادت دیں اور تجربہ جی بھر کے پیش کیجئے ، آپ تاریخ کے خالص معاشی تعبیر کے خلاف ہزار دلائل لائیں ، طبقات کی جنگ کے نظریہ کو جس طرح چاہے مجروح کیجئے ، جب تک درست سمت کا تعین کرکے اس راستے پر نہیں چلیں گے ، کبھی بھی منزل تک نہیں پہنچ سکتے ۔ ریاست اور ارباب اختیار کو ملکی مفاد کیلئے وہ فیصلے پہلے خود پر لاگو کرنے ہوں گے جس کے ثمرات سے عوام براہ راست فائدہ مند ہوسکے ۔ تبدیلی اوپر سے لائیے ، نچلی سطح میں تو کمزور طبقہ مزید کٹھن بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں بچا۔