ColumnImtiaz Aasi

سوشل میڈیا کے منفی اثرات .. امتیاز عاصی

امتیاز عاصی

 

عہد حاضر میں سوشل میڈیا عوام الناس کی معلومات کا موثر ذریعہ ہے ۔دنیا بھر میںہونے والی ہر طرح کی سرگرمیوں سے چند لمحوں میں لوگوں کو آگاہی ہو جاتی ہے۔ماضی قریب میں لوگوں کامعلومات تک رسائی کاانحصار ریڈیو پرتھاجس کی جگہ ٹیلی ویژن نے لے لی۔پرویز مشرف کے دور میں نجی ٹی وی چینلوں کی بھرمار سے لوگوں نے سرکاری ٹی وی پرانحصار چھوڑ دیا ۔اب دنیا سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہو چکی ہے، فیس بک، انسٹاگرام ، یوٹیوب ،ٹویٹر کے بعد سمارٹ فونز کے متعارف ہونے سے دنیا بھر کی معلومات انسان کے ہاتھ میں آگئی ہیں۔ اس سے قبل قیام پاکستان کے وقت اخبارات اور جرائد کا سلسلہ تو تھا ۔قیام پاکستان ملک کے چند سالوں بعد ہم پرنٹ میڈیا کے دور میں داخل ہوگئے۔وقت گذرنے کے ساتھ اخبارات اور جرائد کی بھرمار ہو گئی اورپرائیویٹ چینلز آنے کے بعد لوگوں نے پرنٹ میڈیا پر کافی حدتک انحصار چھوڑ دیاتاہم اس کے باوجود پرنٹ میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ۔وہ لوگ جنہیں برسوں سے اخبارات کا مطالعہ کرنے کی عادت ہے وہ ٹی وی چینلز کی خبروں کے باوجود جب تک اخبارات کا مطالعہ نہ کریں انہیں سکون نہیں آتا۔ الیکٹرانک میڈیا میں مقابلے سے نجی چینلز کی بھرپور کوشش ہوتی ہے وہ اپنی ریٹنگ میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کریں۔ہم آزادی صحافت کا دعویٰ تو کرتے ہیں عملی طور پر صورت حال حوصلہ فزا ء نہیں ہے۔اخبارات اور چینلز حکومتوں پر تنقید کریں توان کے اشتہارات بند اور چینلز پر پابندی لگا دی جاتی ہے تاہم اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پرنٹ ، الیکٹرناک میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا کے ایکٹوٹیس تنقید کرتے وقت صحافتی اقدار کو پس پشت رکھ دیتے ہیں ۔جہاں تک پرنٹ میڈیا کا تعلق ہے اس مقصد کے لیے پرنٹ اور الیکٹرناک میڈیا میں باقاعدہ ادارتی بورڈ قائم ہیں جو احساس قسم کی خبروں کی صورت میں پوری طرح جانچ پڑتال کرنے کے بعد اس کی اشاعت کی اجازت دیتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیںجو جی چاہے اور جس کے خلاف خبر اور ویڈیوز چلا دیں۔اس ضمن میں ہم اپنے ملک کا مغربی دنیا سے موازانہ کریں تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ان کے ہاں ایک ریڈ لائن مقرر ہے جسے کسی صورت میں عبور نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ ہمارے ہاںاس سلسلے میں پیمرا کا ادارہ موجود ہے جو پرنٹ اور الیکٹرناک میڈیا پر کسی نہ کسی طور نگرانی رکھتا ہے اس کے برعکس سوشل میڈیا شتربے مہار ہے۔حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا بیان آیا ہے کہ سوشل میڈیا غصے اور منفی جذبات کو پروان چڑھا نے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔سوشل میڈیا کے ذریعے غلط معلومات پھیلائی جا رہی ہیں۔پرنٹ میڈیا میں تو اب بھی کسی کے خلاف کوئی غلط خبر شائع ہو جائے تو یا تو اس کی تردید کردی جاتی ہے یا پھر خبر شائع کرنے والا ادارہ معذرت چھپ کر متاثرہ فریق کی داد رسی کردیتا ہے۔جس طرح پرنٹ اور الیکٹراناک میڈیا میں خود احتسابی کا نظام موجود ہے، سوشل میڈیا میں اس قسم کا کوئی نظام نہیں ہے۔بسا اوقات سوشل میڈیا پر اخلاقیات سے ہٹ کر ٹویٹ کرنے کے برے اثرات سے نوجوان نسل کیسے محفوظ رہ سکتی ہے۔اب تو گھر کے ہر فرد کے پاس مہنگے سے مہنگا موبائل فون ہے حتیٰ کہ پرائمری کی سطح کے طلبہ اور طالبات یوٹیوب، فیس بک ،انسٹاگرام اور ٹویٹر سے آشنا ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتاکہ سوشل میڈیا کے ذریعے نئی نئی معلومات کی ترسیل ہوتی ہے اس کے ساتھ سوشل میڈیا کے نوجوان نسل پر پڑنے والے منفی اثرات سے صرف نظر نہیں کیاجا سکتا۔ہم اب آتے ہیں سوشل میڈیا کے نوجوان نسل پر پڑنے والے منفی اثرات کی طرف۔نئی نسل کا پسندیدہ میڈیم جس کے استعمال سے ماہرین کے مطابق آنکھیں خراب ہونے کے ساتھ نیند میں بے قاعدگی اور زندگی کے بہت سارے معاملات سے انسان لاتعلق ہوجاتا ہے۔بچوں کا سوشل میڈیا کی طرف متوجہ ہونے سے والدین کا اپنے بچوں سے رابطہ ناپید ہو جاتا ہے۔آج کل تو چھوٹے اور بڑے سب اسی کام پر لگے ہوئے
ہیں۔مکالمہ ،ڈائیلاگ، گپ شپ اور بحث و مباحثہ کا رواج قریباً ختم ہو چکا ہے۔سوشل میڈیا کا جو دوسرا بڑا نقصان ہے وہ اخلاق باختہ چیزیں جن سے بہت سی اخلاقی برائیاں جنم لے رہی ہیں، فیس بک پر ہونے والی فرینڈشپ بسا اوقات قتل و غارت کا باعث بن جاتی ہے۔یہ بھی سوشل میڈیا کا کمال ہے لوگ ایک دوسرے سے دھوکہ سے پیسے بٹورلیتے ہیں۔ڈیجٹل کرنسی مسیج آنے کے بعد لوگوں کی خواہش ہوتی ہے وہ میسج کرنے والوں سے رابطہ کریں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ریسرچ کے مطابق سوشل میڈیا کے استعمال سے نوجوان نسل کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، نئی نسل کتابوں سے دور ہوتی جا رہی ہے۔اپنے عزیز واقارب سے رابطے میں خلا پید ہوتا جا رہا ہے۔سوشل میڈیا کی بدولت غیر مستند افواہیں، نیم حقیقت پسندانہ اور منفی پراپیگنڈا ،نظریات اور شخصیات بارے پراپیگنڈے سے انسانوں میں دوریاں پید ا ہوتی جا رہی ہیں۔سوشل میڈیاکے ذریعے لوگوں نے دوسروں سے پیسے بٹورنے کے لیے طریقہ کار اختیار کر رکھا ہے کہ لوگ اتنی رقم انویسٹ کریں انہیں زائد رقم کے ساتھ اصل رقم واپس ہوگی، اس طریقہ کار سے لوگ اپنی اصل رقم سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔درحقیقت سوشل میڈیا موجودہ دور میں جہاںمعلومات تک رسائی کاتیز رفتار ذریعہ ہے یعنی بہت تھوڑے وقت میں ہمیں دنیا بھر سے معلومات مل جاتی ہیںلیکن اس کے ساتھ سوشل میڈیا کے اس منفی پہلو کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ معلومات کے اس ذریعے سے بے راہ روہی اور نوجوان نسل غیر اخلاقی باتوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔سوشل میڈیا کے اس لاامتناعی طوفان کو روکنے کے لیے والدین، بچوں کو موبائل سے دور رکھنے کے لیے کردار ادا کرسکتے ہیں ورنہ آج کی نوجوان نسل میں سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی جانے والی چیزوں سے انہیں روکنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ سوشل میڈیا سے بچوں کو دور رکھنے کے لیے والدین کو اپنے بچوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کی اشد ضرورت ہے، ورنہ سوشل میڈیا کے منفی اثرات سے نوجوان نسل کوبچانا محال ہوگا ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button