Editorial

غذائی قلت کے خدشات

 

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عطیہ دہندگان، مقامی اور بین الاقوامی این جی اوز اور مخیر حضرات سمیت پوری قوم، سیلاب متاثرہ بچوں کی خوراک کی فراہمی کے لیے آگے بڑھے، لاکھوں سیلاب متاثرہ بچوں کو نشوونما کے لیے دودھ اور خوراک کی اشد ضرورت ہے۔ سردیوں کا موسم قریب آرہا ہے اور ضروری ہے کہ سیلاب متاثرین کو سرد موسم کی سختی سے بچانے کے لیے پیشگی انتظامات کیے جائیں۔دوسری طرف وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سیلاب متاثرین کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں جبکہ قحط کی صورتحال کا بھی سامنا ہو سکتا ہے اور ہمیں ممکنہ قحط سے بچنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔یہی نہیں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال نے بھی کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کے بعد 34لاکھ بچوں کو فوری جان بچانے والی امداد کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کو موسم سرما آنے سے قبل موسمی اعتبار سے ضروری اشیا کی فراہمی اشد ضروری ہے تاکہ وہ موسم کی شدت کا مقابلہ کرسکیں اور اسی دوران ان بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کی بھی ضرورت ہے جو سیلاب کی وجہ سے بے گھر ہوکر محفوظ مقامات پر تو موجود ہیں لیکن انہیں مطلوبہ خوراک میسر نہیں جو ان کی ضرورت ہے۔ سیلاب سے متاثرہ افراد کی موجودہ صورت حال اور آنے والے دنوں کا موسم یقیناً حکومت کے لیے ہی نہیں بلکہ ان تمام فلاحی اداروں کے لیے باعث تشویش ہے جو سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے متاثرہ علاقوں میں دن رات کاموں میں مشغول ہیں۔ پس متاثرین کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانا ہی نہیں مقصد نہیں بلکہ ان کی دوبارہ آباد کاری بھی لازم ہے اور اِس دوران جیسا بھی موسم یا حالات ہوں متاثرین سیلاب کو موسم و حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ایک طرف سیلاب متاثرین ہیں جو ہماری مدد کے منتظر ہیں دوسری طرف سیلاب کی تباہی کاریوں کے اثرات ملک بھر میں محسوس ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں تو ہونے والی تباہی ناقابل بیان ہے اِس لیے وہاں خوراک و اجناس کی عام دنوں جیسی دستیابی کا تصور ہی نہیں کیاجاسکتا لیکن اب شہروں میں خوراک اور اجناس کی قلت محسوس کی جارہی ہے لیکن جب تک حکومت کی جانب سے واضح نہیں کیا جاتا تب تک اس کو مصنوعی یا حقیقی قلت نہیں کہا جاسکتا۔ اگرچہ ذرائع ابلاغ اجناس کی قلت اور قیمتوں میں انتہائی تیزی سے اضافے کو بار بار سامنے لارہے ہیں اور اس کی وجوہات بھی بیان کررہے ہیں مگر دوسری طرف سے انتظامی مشینری فی الحال اِس معاملے پر خاموش ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق
بلوچستان کے سیلاب اور سندھ کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ایک کلو آٹا کئی سو روپے میں فروخت کیا جارہا ہے مگر ایسا کرنے والوں کے خلاف مقامی مشینری حرکت میں نہیں آرہی۔ یہ تو رہی متاثرہ علاقوں کی بات لیکن ملک بھر کے شہری علاقے جو الحمد اللہ سیلاب اور قدرتی آفت سے محفوظ رہے وہاں بھی اجناس کی دستیابی کی صورت حال معمول کے مطابق نہیں اور کم و بیش تمام اجناس کی قیمتیں روز بروز بڑھائی جارہی ہیں اور پوچھنے پر یہی بتایا جارہا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے قلت پیدا ہوگئی پھر وزیردفاع خواجہ آصف نے بھی قحط کی صورت حال کا خدشہ ظاہر کیا ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اجناس کے متوقع بحران کے لیے ابھی سے تیاری شروع کردینی چاہیے اور اس ضمن میں وزارت خزانہ اور خوراک کو بھی کمر کس لینی چاہیے۔ ابھی سیلاب سے متاثرہ افراد ہی غذائی قلت کا شکار ہیں لیکن شہروں میں بھی جیسی صورت حال دیکھی جارہی ہے اور اجناس کی قلت بھی سامنے آرہی ہے اس کا فوری نوٹس لیتے ہوئے فوراً اور ناگزیر اقدامات قبل ازوقت کرنا ہی دانائی ہے تاکہ مستقبل قریب میں کوئی غذائی بحران بھی سامنے نہ آجائے۔ خصوصاً گندم کی قلت کا نوٹس لیا جانا چاہیے، سرکاری گوداموں میں موجود گندم کی بروقت ترسیل کے ذریعے آٹے کی مصنوعی قلت کو دور کیا جائے کیونکہ آٹے کی قلت روزبروز بڑھ رہی ہے اور لوگ خریداری کے وقت ہر بار نئی اضافہ شدہ قیمت ادا کرتے ہیں مگر اس معاملے پر مقامی ریاستی مشینری کہیں نظر نہیں آتی۔ گذارش کا مقصد یہی ہے کہ سیلاب کی وجہ سے یقیناً زراعت کا شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور ہمیں اس کے اثرات کا سامنا بھی کرنا پڑے گا مگر گندم سمیت وہ اجناس جو منصوبہ بندی کے تحت ذخیرہ کی جاتی ہیں ان کی مارکیٹ میں عدم دستیابی اور سیلاب کے نام پر گراں فروشی کے معاملے کو دیکھا جانا چاہیے۔ فلور ملز کو ان کی ضرورت کے مطابق گندم فراہم کی جانی چاہیے اور پھر نظر بھی رکھنی چاہیے کہ کہیں گندم یا آٹا سمگل نہ ہو اور صرف اپنے عوام کے ہی کام آئے، اور اگر گندم کی درآمد کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے تو ابھی سے درآمد کے لیے تمام تر تیاریاں مکمل کرلینی چائیں تاکہ کسی بھی موقعے پر گندم کا بحران پیدا نہ ہو۔ اسی طرح دالیں، چینی ،گھی اور دیگر اجناس کی طلب و رسد پر بھی کڑی نظر رکھنی چاہیے کیونکہ طلب کے مطابق رسد ہوگی تو بلکہ وافر ہوگی تو مارکیٹ میں قیمتیں نیچے آسکتی ہیں لیکن طلب کے مطابق رسد فراہم نہ کی گئی تو ذخیرہ اندوز مافیا لوٹ مار کابازار گرم کردے گا جیسا کہ ابھی ہو بھی رہا ہے کہ من مانی قیمت پر اجناس فروخت کی جارہی ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے اپنے طور پر قبل ازوقت اپنی تیاریاں مکمل کرلینی چاہئیں کیونکہ موجودہ صورت حال میں غذائی قلت کو بحران نہیں بننے دینا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button