Editorial

شہبازشریف کی ولادیمیرپوتن سے ملاقات

 

روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف سے ملاقات کے دوران کہا ہے کہ پاکستان کو پائپ لائن گیس سپلائی ممکن ہے اور گیس کی فراہمی کے لیے ضروری انفرااسٹرکچر پہلے سے موجود ہے۔وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے دوطرفہ تعلقات اور علاقائی و بین الاقوامی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غذائی تحفظ، تجارت و سرمایہ کاری، توانائی ،دفاع اور سکیورٹی سمیت باہمی مفاد کے تمام شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کے لیے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ دونوں رہنمائوں کی ملاقات جمعرات کو شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہان مملکت کی کونسل کے اجلاس کے موقع پر خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ وزیراعظم نے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے اظہار یکجہتی اور حمایت پر صدر پوتن کا شکریہ ادا کیا اور انہیں موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والی اس آفت کے تباہ کن اثرات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ دوسری طرف اجلاس میں ایرانی صدر رئیسی نے نہایت سود مند تجویز پیش کی کہ امریکی پابندیوں کے شکار ممالک تعاون کومزید مضبوط کریں جبکہ شریک سبھی رہنمائوں نے خطے میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ کی اہمیت پر زوردیا تاکہ ہمسایہ ممالک باہمی تجارت اور وسائل سے مستفید ہوسکیں۔ قبل ازیں بھی ہم گذارش کرچکے ہیں کہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے تمام ممالک کو باہمی تعلقات کو انتہائی تیزی سے فروغ دینا چاہیے اور سب سے زیادہ اِسی معاملے پر مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ آج دنیا بھر کو کساد بازاری جیسی صورت حال کا سامنا ہے اور مہنگائی سے صرف غریب یا ترقی پذیر ممالک ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی مہنگائی کا شدید طوفان ہے مگر سب سے زیادہ صورت حال غریب اور ترقی ممالک میں دیکھی جاسکتی ہے اور بدقسمتی سے ہم بھی انہی ممالک میں شامل ہیں جو دنیا بھر میں یکے بعد دیگرے رونما ہونے والی تبدیلیوں کے باعث مہنگائی کی شدید لپیٹ میں ہیں اور بظاہر اِس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا اور سری لنکا کی مثال ہمارے سامنے ہے اِس لیے اگرخطے کے ممالک باہمی تعلقات کو فروغ دیتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے راستے کھولتے ہیں تو بلاشبہ ان اقدامات سے اِن ملکوں کی معیشت بھی مضبوط ہوگی اور مہنگائی کم ہونے کی وجہ سے عوام کو بھی ریلیف ملے گا اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ویسے نہیں ہیں جیسی ہمسایہ ممالک کے درمیان ہونے چاہئیں لیکن اس کی بنیادی وجہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارتی ہٹ دھرمی ہے اور بھارت کسی بھی صورت اِس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں یہی نہیں اقوام متحدہ اور سلامتی
کونسل کی قراردادوں کے ساتھ ساتھ او ائی سی اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کی قراردادیں اور ان کا دبائو بھی بھارت کو اپنے مذموم عزائم سے پرے نہیں کرسکا یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی امن کی خواہش کو بھارت نے ہمیشہ رد کیا ہے مگر دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے ایسے مسائل نہیں ہیں اس لیے ہمیں باہمی تجارت کو فروغ دینا چاہیے اور صرف تجارت ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تجربے اور وسائل سے بھی فائدہ اٹھاکر بحرانوں سے نمٹنا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہماری موجودہ معاشی صورت حال کا تقاضا ہی یہی ہے کہ ہم خطے کے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ دیں اور ہمسایہ ممالک سے ہر ممکن فائدہ اٹھائیں اور اُس پالیسی کو اب یکسر تبدیل کردیں جس کے نتیجے میں ہمیں سات سمندر پار والوں سے ماسوائے پریشانیوں اور چیلنجز ہی ملے اور اب ازسرنو موجودہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے پالیسیاں مرتب کریں جن کا ہمیں فائدہ ہو اور اس ضمن میں روس کی گیس فراہم کرنے کی پیش کش کو فوری طور پر نہ صرف قبول کرلینا چاہیے بلکہ اِس معاملے پر جہاں سے بھی ہم پر دبائو آئے اِس کو رد کردینا چاہیے۔ بوقت ضرورت ہم روس سے گندم حاصل کرتے ہیں تو انفراسٹرکچر دستیاب ہونے کے باوجود روس سے گیس اور سستا تیل حاصل کرکے اپنے عوام اور انڈسٹری کو کیوں فائدہ نہیں پہنچا سکتے، پس ضروری ہے کہ روسی صدر کی پیش کش سے فوراً فائدہ اٹھایا جائے اور رد کردیا جائے اُن کے دبائو کو جو صرف اپنی بالادستی کے لیے ہمیں استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے سامنے 75 سال کی غلطیاں اور موجودہ صورت حال ہونی چاہیے اور اگر ہم تحمل سے تاریخ پر غور کریں گے تو ہمیں روس ہمارا معاون اور دوست بلکہ ایک قدم آگے بڑھانے والا نظر آئے گا اس کے برعکس اُن دوستوں سے باعزت کنارہ کشی ہی پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے جن کے پاس ہمارے لیے زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں اور وہ کبھی بھی آزمائش کے وقت ہمارے کام نہیں آئے۔ ہمارے سامنے بھارت کی مثال ہونی چاہیے کہ بھارت نے بیک وقت روس سے بھی مراسم بڑھائے ہیں اور امریکہ سے بھی۔ حالیہ دنوں میں جب عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو بھارت نے کسی دبائو کو ملحوظ خاطر رکھنے کی بجائے عوامی مفاد کی خاطر روس سے سستا پٹرول بھی درآمد کیا لیکن ہماری مجبوریاں آڑھے آگئیں اور ہم پہلے سے مہنگائی اور غربت کا شکار عوام سستا روسی پٹرول نہ دے سکے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی ضروریات اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے روس اوردیگر ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے ہر سطح کا فائدہ اٹھانا چاہیے کہ یہی ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہے اور اِس ضمن میں کسی بھی دبائو کو رد کردینا چاہیے اس طرح قوم کو سستی گیس اور پٹرول دستیاب ہوگا اور دوسری طرف ہمارے قیمتی زرمبادلہ کی بھی بچت ہوگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button