وزیراعظم شہبازشریف کی فکر انگیز گفتگو

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مہنگائی اپنے عروج پر ہے، کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ادھر اُدھر دیکھتے ہیں تو قرضہ ہی ہمارا پیچھا کرتا ہے، ہم کسی دوست ملک کے پاس جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں یہ مانگنے آئے ہیں۔ اسلام آباد میں وکلاء کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اتحادی حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچاکرمعاشی عدم استحکام کسی حد تک کنٹرول کرلیا ہے۔گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی پاسداری نہیں کی، آئی ایم ایف نے ہماری ناک سے لکیریں نکلوائیں۔وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ 75 سال گزر گئے لیکن آج بھی اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں، ہم ایٹمی طاقت نہ ہوتے تو آج ہمارے مسائل مزیدگمبھیرہوتے،75 سال بعد آج ہم کشکول لیکر پھر رہے ہیں۔مجھ سمیت تمام طبقات جن کو تاریخ کا رخ موڑنے کی طاقت عطا کی گئی ان سے پوری قوم سوال پوچھ رہی ہے، تمام اداروں سے عام آدمی اپنے مستقبل کے بارے میں پوچھ رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے مہنگائی کو عروج پر قراردیا ہے اوربلاشبہ مہنگائی عروج پر ہے اور موجودہ حکومت بھی فی الحال بتانے سے قاصر ہے کہ مہنگائی کو قابو کرکے اشیائے خورونوش اور ضروریہ کی قیمتیں کیسے کم جائیں گی جبکہ ابھی ہم نے آئی ایم ایف کی مزید شرائط کو تسلیم کرتے جانا ہے ، پس مزید مہنگائی کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے خواہ وہ کسی بھی مد میں ہو لیکن ہونا یقینی ہے مگر گذارش ہے کہ موجودہ حکومت تو عوام کو ریلیف دینے کے لیے برسراقتدار آئی تھی لیکن ریلیف کے برعکس عوام کے معاشی مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ہم عوام کو درپیش معاشی مسائل کا ذمہ دار کسی کو نہیں ٹھہراتے کیونکہ کوئی ذمہ داری لیتا ہی نہیں کہ اُن کے فیصلے عوام کے لیے لاحاصل ثابت ہوئے اور پوری قوم آج اُن فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور یکے بعد دیگرے حکومتی سطح پر ہونے والے ایسے فیصلے سامنے آرہے ہیں جن کے نتیجے میں مہنگائی کم ہونا تو کجا مزید بڑھنا نظر آرہا ہے۔ آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے باوجود ڈالر کی قیمت قابو میں نہیں آرہی جبکہ معاشی ٹیم نے دعویٰ کیا تھا کہ قرض ملتے ہی سب ٹھیک ہوجائے گا تو پھر ڈالر کیوں اوپر جارہا ہے اور روپے کی قدر میں کیوں کمی ہورہی ہے اور اس کے نتیجے میں بتدریج مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے۔ حالیہ چند سالوں میں سفید پوش طبقہ غربت کی لکیر تک پہنچ گیا ہے جبکہ وہ پاکستانی جن کا پہلے ہی کوئی پرسان حال نہیں تھا وہ غربت کی لکیر سے بھی نیچے ناقابل بیاں حالات میں زندگی گزار رہے ہیں اور یہ وہ طبقہ ہے جو یومیہ کماتا اور کھاتا ہے اور ہرنئے دن مہنگائی کی نئی لہر کا سامنا کرتا ہے کیا فیصلہ سازوں کے پاس ان کا معیار زندگی بہتر
کرنے کی کوئی ترکیب ہے اور جو سفید پوش طبقہ غربت کی لکیر پر رہنے والوں کی جگہ لے چکا ہے اُن کا کیا وہ تو جھولی پھیلاسکتے ہیں اور نہ ہی ہاتھ۔ غرضیکہ موجودہ معاشی حالات کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں۔ دکاندار کہتے ہیں کہ کمپنیوں نے اشیا مہنگی کردی ہیں۔ کمپنیوں کا موقف ہے کہ مہنگی بجلی اور گیس کے ساتھ ٹیکسوں کی بھرماراور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری نے مہنگائی کرنے پر مجبور کیا ہے، پس عوام کس سے پوچھیں؟ آج اٹھارہ بیس ہزار روپے بمشکل کمانے والا پاکستانی پندرہ، پندرہ ہزار روپے بجلی کے بل دینے پر مجبور ہے، کوئی بتاسکتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا کیسے پیٹ پالے گا؟ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں میں کچھ نہ کچھ سالانہ اضافے کی صورت میں ریلیف مل جاتا ہے، کیا پورا پاکستان سرکاری ملازمت کرتا ہے ؟ وطن عزیز کی افرادی قوت کا سب سے بڑا حصہ نجی شعبے سے منسلک ہے کیا وہاں تنخواہوں میں بڑھوتری کا تقاضا ممکن ہے؟ ایسے بہت سے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیںاور وزیراعظم شہبازشریف نے بجا فرمایا ہے کہ عوام سوالات پوچھتے ہیں جن کے جوابات ہی دینا کافی نہیں عملی طور پر ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جن کے بعد عوام کے سامنے سرخرو ہواجائے۔ جس ملک میں مہنگائی عروج پرہو اور مزید مہنگائی ہونے کے امکانات اور حالات واضح طور پر نظر آرہے ہوں، جہاں صنعتوں کو پیداوار کے لیے توانائی کے ذرائع انتہائی مہنگے ملیں۔ جہاں سیاسی استحکام نہ ہو وہاں حالات کیسے بہتر ہوسکتے ہیں سمجھ سے بالا تر ہے۔ وفاقی حکومت نے قریباً ایک ماہ پہلے ہی بجلی کے لائف لائن صارفین کو فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ریلیف دینے کا اعلان کیا لیکن چند ہی روز بعد ریلیف واپس بھی لے لیااگرچہ بجلی کی کھپت میں کمی کی وجہ سے صارفین کو فی الحال بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے بقایا جات شامل ہونے کے باوجود بہت کم محسوس ہوں گے لیکن جوں جوں بجلی کی کھپت بڑھے گی عوام پھر سراپا احتجاج ہوں گے کیونکہ ماہانہ آمدن کے لگ بھگ بجلی کے بل ادا کرنے کے بعد کوئی کیسے گزربسر کرے گا؟ حالیہ سیلاب کے نتیجے میں گندم اور دیگر اجناس کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اوردرآمدی اجناس کی قیمتیں بھی آسمان کو چھوئیں گی اور یقیناً آئی ایم ایف کے احکامات کی روشنی میں عوام کو سبسڈی بھی نہیں دی جائے گی۔ پٹرول کی قیمت پہلے ہی عالمی مارکیٹ کے مطابق کی جاچکی ہے، مہنگائی ہوں تو مزید مہنگی لیکن کم ہوں تو برقرار۔ یہ سبھی فیصلے اور اقدامات مہنگائی میں اضافے اور عام پاکستانی کی مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہیںاور ان میں کمی ہونے کا بظاہر کوئی امکان نہیں۔ جس ملک کی قیمتی املاک گروی پڑی ہوں اور عوام نسل درنسل اور بال بال قرض کے بوجھ تلے دبے ہوں جو انہوں نے لیا بھی نہیں اور درحقیقت ان کا معیار زندگی تبدیل کرنے کے لیے استعمال بھی نہیں ہوا وہ کیسے خوش حالی ، معیار زندگی بلند اور ملک کی ترقی کا خواب دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں ہم جمہوریت کے عالمی دن کا بھی ذکر کرنا چاہیں گے۔ پندرہ ستمبر کو دنیا بھر میں جمہوریت کا عالمی دن منایاگیا۔ ہماری سیاسی قیادت نے جمہوریت کو اپنی روح قرار دیتے ہوئے اِس عزم کا اظہار کیا کہ جمہوریت کا علم کبھی بھی سرنگوں ہونے نہیں دیں گے اور جب کبھی بھی جمہوریت پر شب خون مارا گیا ہے اور ملک پر جبر کی تاریک رات مسلط کی گئی ہے قیادت اور کارکنوں نے اپنے خون سے چراغ روشن کرکے عوام کی رہنمائی کی۔ بلاشبہ جہاں جمہوریت کی بات آتی ہے ہمارے سیاسی قائدین ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے قیادت اور کارکنوں کی جمہوریت کے لیے قربانیوں کا ذکر کرتے ہیں مگر جب جمہوریت کے ثمرات پر بات کی جائے تو جواب ملتا ہے کہ ملک پر آمریت مسلط رہی جس نے جمہوریت کو ڈی ریل کرکے ملک میں ترقی اور خوش حالی کے سفر میں رخنہ ڈالا ۔ پس پوچھا جائے کہ75سال بعد ملک و قوم کی موجودہ حالت کا ذمہ دار کون ہے تو اس کا ٹھوس جواب کسی کے پاس نہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ وطن عزیز کو آج غربت، بے روزگاری اور معیشت سمیت جن تمام چیلنجز کا سامنا ہے اِس کے ذمہ دار عوام نہیں ہیں، عوام تو قائدین کے دکھائے سنہری خوابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے جمہوریت کے نام پر قربان ہوگئے لیکن جمہوریت عوام کی طرح نحیف ہی رہی مگر اُن کے حالات بدل گئے جنہوں نے جمہوریت کے نعرے لگائے اور عوام کو اپنا پیروکار بنایا ۔ آج جن حالات سے ملک و قوم دوچار ہے، اِس میں عوام یا جمہوریت کا کیا قصور؟ صرف جمہوریت نام کی ہی تعظیم کرنا اور اِس کے لیے قربانیاں دینے کا عزم ظاہر کرنا ہی کافی نہیں جمہوریت جس مقصد کے لیے اپنائی جاتی ہے وہ مقاصد پورے کرنا بھی ضروری ہوتا ہے اور جن ممالک میں جمہوریت پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے وہاں کی سیاسی قیادت نے جمہوریت کے لیے قربانیاں بھی دیں اور جمہوری نظام کا احترام بھی کیا اور پھر جمہوری نظام کے ذریعے عوام کو ان کے حقوق دیئے اور آسانیاں پیدا کیں لیکن ہمارے ملک میں جمہوریت اور جمہوری عمل مخصوص سطح سے نیچے نہیں آسکا کہ جمہوری عمل میں حصہ لینا عام پاکستان کے بس کی بات ہی نہیں اور یہ بڑے سرمایہ داروں کا کھیل بن چکا ہے۔ جمہوریت نے عوام کو سوچنے کے لیے شعور اوربولنے کے لیے آزادی دی ہے تبھی آج لوگ سوال پوچھتے ہیں اور وعدے بھی یاد دلاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دونوں اتنے وسیع موضوعات ہیں جن پر بات شروع ہو تو سمیٹنا ممکن نہیں رہتالیکن پھر بھی بات کو سمیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہنے کی جسارت کریں گے کہ عوام پاکستان تاریخ کے مشکل ترین دور سے گذر رہی ہے اور لوگوں کے لیے اب جینا آسان نہیںرہا۔ چونکہ ملک میں جمہوریت ہے اور عوام اپنے ووٹ کے ذریعے سربراہ مملکت کا انتخاب کرتے ہیں پس سیاسی قیادت کو سمجھ لیناچاہیے کہ باشعور عوام اپنے ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کی طاقت رکھتے ہیں اِس لیے اب سہانے خواب دکھانے کی بجائے عملی اقدامات کے ذریعے ہی کارکردگی دکھانا ہوگی ۔