ColumnNasir Naqvi

زندگی نہ ملے گی دوبارہ ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

حقیقت یہی ہے کہ ہندوازم کے سوا کسی بھی مذہب میں دوسرے جنم کی گنجائش ہرگز نہیں، البتہ دنیاوی زندگی کے بعد حقیقی و ابدی زندگی کی خوشخبری کلمۂ حق اور دین حق اسلام کے پروانوں کے پاس موجود ہے۔ پھر بھی یہ ابدی زندگی کی فکر کی بجائے عارضی زندگی کے چکر میں گھن چکر بنے ہوئے ہیں۔ اس اندازِ زندگی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ راز کھل کر سامنے آ جائے گا کہ سب جانتے ہیں کہ نظامِ قدرت میں ہر آنے والے کو واپس جانا ہے۔ اور’’ زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘۔ لہٰذا جو کرنا ہے اس زندگی میں کر گزرو، لیکن اچھے وہی ہیں جو خلق خدا کی بھلائی میں بھی قدرت کے عطا کردہ وقت کو صرف کرتے ہیں۔ فلسفہ یہی ہے کہ جو رب سب کو سب کچھ عطا کرتا ہے اگر کوئی بندۂ خدا اس میں سے کچھ دوسروں کو بانٹ دے شکرانے بطور، تو مالک کائنات اس کیلئے وہ کچھ بھی آسان بنا دیتا ہے جس کیلئے اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ دنیا میں حضرت انسان قدم قدم پر امتحان دیتے ہیں، مشکل ترین معاملات میں بھی کامیابی ہو جائے تو اپنی منصوبہ بندی اور دانش مندی پر اتراتے نہیں تھکتے، لیکن ناکامی پر بلا سوچے سمجھے اللہ کی مرضی کہہ کر پرسکون ہو جاتے ہیں یقیناً یہ طریقہ شکر گزاری کا ہرگز نہیں، اس لیے کہ بھلا اللہ مالک ہم اور بندۂ ناچیز کا کیا مقابلہ؟ وہ تو اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ جب ایک ماں کسی بھی صورت نقصان کی روادار نہیں جوخود مخلوق ہے پھر خالق جو سب سے بڑا انصاف کرنے والا ہے وہ کس طرح کر سکتا ہے؟ یہ بحث ازل سے ہے اور ابد تک چلے گی کیونکہ مالک نے آدم زادے کو عقل و دماغ دےکر اشرف المخلوقات جو بنا دیا، فرشتوں نے خلافت آدم ؑ کی مخالفت کی اور شور مچایا تھا کہ اے مالک، اسے زمین پر خلیفہ بنا کر نہ بھیج، یہ فساد برپا کر دے گا لیکن مالک کائنات نے تو یہ بات اس لیے ٹال دی کہ کیا اسے نہیں پتا؟ وہ تو عقل سلیم دے کر آدم زادوں کو آزمانا چاہتا تھا، وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ انہیں دوسرے جانور سے مختلف کیا تو کیا، یہ آدمی سے انسان بھی ہے کہ نہیں، تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے پہلے آدم زادے ہی نہ صرف لڑے بلکہ بھائی نے بھائی کے خون سے ہاتھ رنگ لیے۔ جب سے اب تک آدم زادے دست و گریبان ہیں لیکن
وجوہات مختلف ہیں۔
دینِ حق نے صاف صاف پیغام دیا کہ نسخہ کیمیا قرآن مجید سے زندگی سنوارو، کلام الٰہی کو ضابطۂ حیات سمجھو، جس میں اللہ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھا کربتایا ہے انسان خسارےمیں ہے لیکن جنہوں نے حق کی راہ اپنائی اور صبر کا مظاہرہ کیا ان کیلئے فلاح ہی فلاح ہے۔ پھر بھی آدم زادے دنیا کی رنگینیوں میں مست ہو کر اپنا سبق صرف اس لیے بھول گئے کہ ’’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘۔ وہ مفادات کے غلام بن کر خواہشوں کی ریشمی ڈوری سے ایسے بندھے ہیں کہ چھٹکارا ممکن نہیں، دنیا میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہونا چاہیے، کیا نہیں ہونا چاہیے؟ اس تکرار سے قطع نظر ہم اپنے آپ کو پرکھیں، یا ریاست کے معاملات کی بات کریں تو معاملہ سدھرتا دکھائی نہیں دیتا، دنیا ترقی یافتہ اور ہم ترقی پذیر، دنیا کے وسائل لامحدود اور ہمارے مسائل لامحدود، پوری دنیا میں آئین اور قانون کی حکمرانی، ہمارے ہاں قدم قدم پر شخصیت پسندی اور قانون کی پامالی، دنیا میں جو جہاں ہے ذمہ داری، ریاست کا وفادار، ہم کچھ ہیں یا نہیں لیکن غیر ذمہ دار ضرور ہیں۔ پھر بھی ہر بات پر ریاست اور اس کی رٹ کو چیلنج کرنا ہمارا محبوب مشغلہ ہے یعنی ہماری چال بے ڈھنگی ہے۔ آمریت ہو کہ جمہوریت اسے کسی ڈھنگ کے سانچے میں ڈھالا نہیں جا سکا بلکہ ہر دور میں سب کی سرگرمیاں انفرادی رہیں اور نقصان اجتماعی، پھر بھی قدرت کی صلاحیتوں کا کرشمہ یہ ہے کہ معاشی، اخلاقی اور سیاسی بحران میں مبتلا پاکستان دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہے ،اس لیے کہ اگر ہمارے محسن پاکستان کو زندگی ملی تو اس نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے وہ کارنامہ کر دکھایا جس کی ابھی تک
ایک سے زیادہ ترقی یافتہ ممالک تمنا دل میں لیے پھرتے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان جیسے منفر د پاکستانی کو بھی زندگی نہ ملے گی دوبارہ، لیکن ان کی ایجاد پر تاقیامت انہیں فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔ جولوگ موجودہ دور میں سانس لے رہے ہیں، اللہ نے انہیں بہت کچھ دیا ہے، وہ آئندہ زندگی کیلئے کچھ کر رہے ہیں کہ نہیں، دنیاوی زندگی کیلئے وہ کچھ بھی کر رہے ہیں جو نہیں کرنا چاہیے۔مفادات اور خواہشات میں جائز ناجائز بھی اپنا حق سمجھتے ہیں انہیں پتا ہے کہ ایک دن واپس لوٹ جانا ہے کہ یہاں مستقل بنیادوں پر کسی کو رہنے کی اجازت نہیں، پھر بھی دل میں یہی خوف ہے کہ ’’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘ نہ اپنے لیے، نہ اپنے پیاروں کیلئے،جو کرسکتے ہیںوہ کر لو، حالانکہ ہمارے ہی معاشرے میں عبدالستار ایدھی جیسے مثالی لوگ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی دوسروں کیلئے وقف کر کے اپنے آپ کو امر کر لیا، جانتے تو وہ بھی تھے کہ ’’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘۔
موجودہ آزمائش کی گھڑی میں سیلاب متاثرین کیلئے حکومت اور قوم ہی نہیں، عالمی اور عوامی سطح پر بھی بہت کچھ کیا جا رہا ہے لیکن اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے دورۂ پاکستان کے بعد دنیا کو بتایا ہے کہ میں نے ایساموسمی بحران پہلے کبھی نہیں دیکھا، عالمی بحران پر عالمی مشاورت اور امداد ضروری ہے انہوں نے 30ارب ڈالر کا تخمینہ لگایا ہے۔ یقینی بات ہے یہ نقصان برداشت کرنا تن تنہا پاکستان کے بس کی بات نہیں، قوم اور صاحبِ حیثیت شب و روز اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں پھر بھی حکومت اور اپوزیشن بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف سیاست کھیل رہی ہے اس کھیل کھلواڑ میں رنگینی کیلئے مقدمات اور عدالت سے بھی بھرپور فائدہ اٹھایا جا رہاہے جبکہ چودھری شجاعت حسین اور آصف زرداری ہی نہیں حضرت مولانا فضل الرحمان بھی سیاست چھوڑ کر متاثرین کی فکر کا درس دے رہے ہیں لیکن مشکل ترین حالات میں بھی سیاست کا درکسی نے بند نہیں کیا، دنیا جانتی ہے کہ
دشمن ترین بھی معاملات کی سنگینی دیکھتے ہوئے وقتی لڑائی میں وقفہ ’’سیز فائر‘‘ کر دیتے ہیں لیکن ہم ٹھہرے پرعزم لوگ ہر حال میں ہر کام کرنے کیلئے تیار ہیں اس لیے کہ جب ’’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘ تو موجودہ وقت کوکیوں ضائع کردیں، اقتدار تو مل جاتا ہے دوبارہ لہٰذا اسے تو حاصل کرنا ہمارا حق ہے۔ عمران خان نے انہیں حقیقی آزادی کی ملک گیر مہم جلسے پر جلسہ کر کے اختتام پر پہنچا دی لیکن گوجرانوالہ کے آخری جلسے میںآئندہ کال کا پیغام دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ اگر حکومت الیکشن شیڈول نہیں دے گی تو عوامی طاقت کو سڑکوں پر لا کر الیکشن شیڈول دینے پر مجبور کر دیں گے تاہم اگلے ہی روز یوٹرن یہ لیا کہ سازشی امریکہ بہادر کی سابق سفیر رابن رافیل سے ملاقات کر لی، یہی نہیں سابق وزیر باتدبیر فواد چودھری نے موجودہ سفیر سے ملاقات کھڑکا دی۔ تحریک انصاف کے حمایتی ان ملاقاتوں کو جذبۂ خیر سگالی قرار دے رہے ہیں جبکہ مخالفین اسے وقت کی مجبوری میں مستقبل کی سیاسی منصوبہ بندی کہہ رہے ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ اب عمران خان کو امریکی سازش کا سو فیصد یقین ہو گیا کہ حکومت اسی نے گرائی ہے تو دوبارہ اقتدار بھی اس ’’گیٹ وے‘‘ سے ملے گا وہ مطمئن ہیں مقدمات سے نہ گھبرانے کے باوجود نالاں ہیں ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داروں کو غلط فہمی ہے کہ وہ مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیں گے۔ ایک صحافی کے سوال پر ان کا یہ کہنا غور طلب ہے کہ’’میں خطرناک ہوں اور سب کیلئے خطرناک ہوں‘‘ لیکن جب ان سے نیوٹرل کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ صرف مسکرا کر چل دئیے۔
سیاسی حلقوں کے علاوہ عام پاکستانی کا خیال ہے کہ موجودہ مشکل حالات کا تقاضا ہے کہ فی الحال سیاسی سرگرمیوں میں وقفہ کر کے اپنے ہم وطنوں سیلاب متاثرین کی مدد کی جائے جب تک ان کی بحالی ممکن نہ ہو کوئی چین سے نہ بیٹھے کیونکہ لاکھوں پاکستانی مصیبت کی اس گھڑی میں حسرت و یاس کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔
بہا کر لے گیا سیلاب سب کچھ
فقط آنکھوں کی ویرانی بچی ہے
جو کل اچھے بھلے تھے آج ان کے پاس کچھ
نہیں، نہ کھیت، نہ فصلیں بلکہ سر چھپانے کیلئے کوئی جگہ بھی نہیں، بے سروسامانی کے عالم میں صرف مالک کائنات کے آسرے پر مطمئن ہیں کہ جس نے زندگی بچائی وہی باقی معاملات بھی درست کر ہی دے گا۔ یقیناً بحران اپنی غلطیوں سے آئیں یا کسی حادثے کا سبب ہوں، ہمیشہ نہیں رہتے، جو ڈر گیا وہ مر گیا لیکن جس نے صبر و استقامت دکھائی وہ پھر سے اپنے پائوں پر کھڑا ہو گیا۔ اللہ قوم کو جذبۂ ایمانی دے کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کریں، قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مملکت کی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار اد اکرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ حکومتی اقدامات اور عالمی امداد اپنی جگہ ایک حقیقت ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اور آپ متاثرین کا حوصلہ بڑھائیں، امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیں، اس لیے کہ یہ وطن ہمارا ہے اور اسے ہم نے ہی مشترکہ جدوجہد سے سنوارنا ہے۔ ’’لوگ دنیا میں وہی اچھے جو کام آتے ہیں دوسروں کے‘‘۔ پاکستانی قوم نے 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب میں جن صلاحیتوں کا مظاہرہ کر کے متاثرین کو قومی دھارے میں لانے کی عملی کوشش کی تھی آج یقیناًاس سے زیادہ حالات سنجیدہ ہیں لہٰذا حکومتی کوششیں ہوں کہ عوامی، ہمیں کئی گنا زیادہ جذبے سے کام کرنا ہو گا، سیلاب نے جن کی زندگیاں چھین لیں وہ تو ہمیشہ کیلئے ہماری آنکھوں سے اوجھل ہو گئے لیکن جنہیں زندگی مل گئی ان کی حفاظت پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ اللہ دیکھ رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے ۔ اس آزمائش کے لمحات میں شفافیت اور جائز ناجائز کا خیال رکھا گیا تو عالمی اور ملکی امداد سے بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ متاثرین بھی مایوس نہیں، جلد اپنی حقیقی زندگی میں لوٹ آئیں گے، یہ نیکی کرنے کا دور ہے لہٰذا ان لمحات کو ضائع نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ’’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘‘ جو کرنا ہے وہ نیک نیتی سے کریں تاکہ ابدی زندگی کیلئے کچھ نہ کچھ ’’زادِ راہ‘‘ اکٹھا ہو جائے۔ مالک کائنات سب کو ہمت اور طاقت دے اور ہم اس سیلابی بحران کا خاتمہ کر سکیں، ریاست کو استحکام مل گیا اور عوامی ترقی کی راہ ہموار ہو گئی تو سیاست بھی ہوتی رہے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button