Editorial

بے روزگاری کے عفریت کو قابو کیا جائے

وطن عزیز اس وقت انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں ملک بُری طرح ترقی معکوس سے دوچار ہوا ہے، ناصرف معیشت کی چُولیں ہل گئیں بلکہ عوام الناس کی حالت زار بھی پتلی ہوکر رہ گئی۔ پانچ برسوں کے دوران اتنی ہوش رُبا گرانی دیکھنے میں آئی کہ پچھلے 70برسوں میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہر شے کے دام میں 2سے 3 گنا اضافہ ہوگیا۔ آٹا، دال، چاول، چینی، پتی، تیل، گھی و دیگر اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ پٹرول، گیس، بجلی کے دام بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچے ہوئے ہیں۔ الیکٹرونکس آئٹمز بھی دو، تین گنا مہنگے ہوچکے ہیں۔ اس دوران پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی اور بے توقیری سے دوچار ہوا۔ ترقی کا سفر تھم سا گیا۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام سست روی کا شکار ہوا۔ معیشت کو بُری طرح زک پہنچی، کاروبار سمٹے، ملکی اور غیر ملکی بہت سے کاروباری اداروں کو اپنے آپریشنز بند کرنے پڑے۔ بہت سے چھوٹے کاروباری لوگوں کے برسہا برس سے جمے جمائے کاروبار بند ہوئے۔ لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا عذاب جھیلنا پڑا۔ غربت اور بے روزگاری کی شرح میں ہولناک اضافے دیکھنے میں آئے۔ ایسی صورت حال پہلے کبھی دِکھائی نہ دی تھی، جس سے اس وقت ملک و قوم نبردآزما ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دم غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے۔ بے روزگاری کا ایسا طوفان آیا، جس نے بہت سے گھروں کے نظام کو ہلاکر رکھ دیا۔ بعض ایسے بھی ان میں دیکھنی میں آئے جو مسلسل بے روزگاری اور بچوں کی بھوک کا عذاب نہ جھیل سکے اور اُنہوں نے خودکشی ایسا انتہائی قدم اُٹھالیا۔ اس تمام تر خرابے میں سابق حکومت کی ناقص پالیسیاں سرفہرست دِکھائی دیں، جنہوں نے معیشت کی کشتی کو ڈوبنے کے دہانے پر پہنچادیا۔ اب بھی کتنے ہی گھرانے ایسے ہیں جہاں بے روزگاری کے عفریت کے باعث کئی کئی روز تک فاقے رہتے ہیں۔ اس معاشی بحران کے باعث لاکھوں لوگوں کا مقدر بے روزگاری بنی۔ اس حوالے سے تازہ اطلاع کے مطابق ملک میں خراب معاشی صورت حال کی وجہ سے 45لاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوگئے اور 8لاکھ 29ہزار 549 بیرون ممالک چلے گئے۔ پاکستان اکنامک سروے 2022۔23کے مطابق پاکستان میں کُل مزدوروں کی تعداد 7کروڑ 17لاکھ 60ہزار ہے، جن میں سے 45لاکھ 10ہزار بے روزگار ہیں جب کہ بیرون ممالک رجسٹرڈ پاکستانی ملازمین کی تعداد 8لاکھ 29ہزار 549ہے، جو گزشتہ سال 2لاکھ 86ہزار 648تھی، اس طرح بیرون ملک رجسٹرڈ پاکستانی ملازمین کی تعداد میں تقریباً 4لاکھ کا اضافہ ہوا۔ 45لاکھ افراد کا بے روزگار ہونا، یقیناً ایک ہوش رُبا انکشاف ہے۔ 45لاکھ سے زائد افراد کی بے روزگاری یقیناً بہت بڑا المیہ تھا اور ان کی بے روزگاری سے ان کے گھرانوں پر کتنے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں گے، اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں، جن کو مسلسل بے کار رہنے کے باعث کٹھن آزمائشوں سے دوچار ہونا پڑا۔ اُس دور کا سامنا کرنا پڑا، جس سے پہلے کبھی واسطہ نہیں پڑا تھا، اوپر سے بدترین مہنگائی اُن کے لیے زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف رہی، بچے بھوک سے بلکتے پائے گئے اور باپوں کا کلیجہ چھلنی ہوتا رہا۔ اس اذیت ناک صورت حال کا کوئی مداوا نہیں ہوسکتا۔ ان کٹھن حالات میں اُنہوں نے کس طرح سروائیو کیا، اگر اُن سے پوچھا جائے تو اُن کی آنکھوں میں نمی واضح دِکھائی دے گی۔ ان سطور کے ذریعے ہم کہنا چاہیں گے کہ جو ہونا تھا، ہوچکا، اُن حالات کو واپس نہیں لایا جاسکتا، مگر آگے ایسے اقدامات کیے جاسکتے ہیں، جن سے ان لوگوں کی بھلائی کی سبیل نکلتی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہ ہوسکے۔ 45لاکھ افراد کی بے روزگاری یقیناً سنگین مسئلہ ہے، لیکن اگر اس کے حل کی جانب سنجیدگی سے قدم بڑھائے جائیں تو صورت حال بہتر رُخ اختیار کرسکتی ہے۔ ریاست کو ماں جیسا قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں بسنے والے تمام عوام ریاست کے بچے ہوتے ہیں۔ ریاست کے بے روزگار بچے اس وقت سخت مشکل حالات سے دوچار ہیں اور حکومتی دست شفقت کے منتظر ہیں۔ اس تناظر میں ضروری ہے کہ حکومت ایسے اقدامات یقینی بنائے، جن سے ان متاثرین کو مستقل روزگار میسر آسکے۔ کاروباری افراد کو حکومت مزید سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے۔ صنعتوں کے فروغ کے لیے بہتر پالیسیاں وضع کرے اور اُن پر عمل کریں۔ حکومت ایسے راست اقدامات کرے کہ جن سے روزگار کے نت نئے مواقع پیدا ہوتے رہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کو کاروبار کے آسان مواقع فراہم کیے جائیں اور ان کو شفافیت کی بنیاد پر کم شرح پر قرضوں کا اجرا کیا جائے۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں، حکومت کو خودانحصاری کی پالیسی پر چلنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ بیرونی قرضوں پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔ وطن عزیز قدرت کے عظیم خزانوں سے مالا مال ہے۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ سیاحت کے حوالے سے یہ دُنیا کا سب سے بہترین خطہ ہے۔ حکومت کو ان تمام عوامل میں سے روزگار کے موقع پیدا کرنے کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ حکومت نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، وہ معیشت کی بہتری کے لیے اپنی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے اور معیشت کو استحکام عطا کرنے کے مشن پر پوری تندہی سے گامزن ہے۔ اُس کے بعض اقدامات کے ثمرات جلد ظاہر ہوں گے اور ملک و قوم ترقی کے سفر پر پہلے کی طرح پھر سے چل سکیں گے۔ کہتے ہیں نیت صاف منزل آسان۔ حکومت نیک نیتی کے ساتھ ملک و قوم کی بہتری کے عظیم کاز پر گامزن ہیں، جلد قوم کو خوشخبریاں سننے کو ملیں گی۔
ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال سے مریض رُل گئے
دین میں ایک انسان کی زندگی بچانے کو پوری انسانیت بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ طب مقدس پیشہ ہے، اس سے وابستہ افراد روزانہ کتنی ہی زندگیاں بچاتے اور ڈھیروں دُعائیں پاتے ہیں۔ مہذب معاشروں میں ڈاکٹروں کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ وہ محسن ہیں، جو چاہے جیسے بھی حالات ہوں، مریضوں کی بہتری کے مشن پر گامزن رہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ان مسیحائوں پر تشدد کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ لاہور میں رونما ہوا، جس کے بعد سے ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال جاری ہے اور اس کو ایک ہفتے سے زائد کا وقت بیت چکا ہے۔ ڈاکٹر پر تشدد کسی طور مناسب طرز عمل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہڑتال کے باعث مریضوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ وہ روزانہ علاج کی غرض سے سرکاری اسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں اور اوپی ڈیز بند ہونے پر اُنہیں مایوس گھروں کو لوٹنا پڑتا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق لاہور کے سرکاری اسپتالوں میں ڈاکٹر پر تشدد کے خلاف ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال 8ویں روز بھی جاری رہی۔ ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال کے باعث سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز آٹھویں روز بھی بند ہونے سے مریضوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، محکمہ صحت اور اسپتالوں کی انتظامیہ ڈاکٹروں کو ڈیوٹی پر لانے میں ناکام ہوگئی، جس سے مریضوں کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ مسلسل او پی ڈیز بند رہنے سے مریض سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔ اس پر انہوں نے سرکاری اسپتالوں کی اوپی ڈیز کھلوانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ غریب مریضوں کی شنوائی کہیں نہیں ہے، اسپتالوں کے چکر لگا لگا کر تھک چکے ہیں، لیکن علاج نہیں ہورہا ہے۔ مریضوں کا کہنا ہے ڈاکٹرز اپنے مطالبات کے لیے ان پر تو علاج کی سہولت بند نہ کریں، اس مسئلے کو فوری حل ہونا چاہیے۔ اس وقت ہزاروں مریض علاج کی سہولت سے محروم ہیں۔ ہڑتال ختم کروانے کے لیے محکمہ اسپیشلائزڈ ہیلتھ اور وائے ڈی اے کے مابین مذاکرات تاحال کامیاب نہیں ہوسکے اور ڈیڈلاک برقرار ہے۔ ضروری ہے کہ متعلقہ محکمہ اس ہڑتال کو ختم کروانے میں اپنا موثر کردار ادا کرے۔ دوسری جانب ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ اپنی ہڑتال کو ترک کرتے ہوئے دُکھی انسانیت کی خدمت پر توجہ دیں۔ اس طرح مسلسل ہڑتال کرنے سے ان مریضوں کا نقصان ہورہا ہے، جن کا کوئی قصور نہیں، پھر وہ کس بات کی سزا بھگت رہے ہیں، اُن کی بیماری کی شدّت مزید بڑھ رہی ہیں۔ ان سطور کے ذریعے ینگ ڈاکٹرز سے گزارش ہے کہ آپ غریب مریضوں کے وسیع تر مفاد میں ہڑتال کا سلسلہ ترک کر دیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button