Ali HassanColumn

بنگلہ دیش کی کامیابی کی کہانی

بنگلہ دیش کی کامیابی کی کہانی

علی حسن
بنگلہ دیش کے سفارت کار ایس ایم محبوب عالم جمعرات کے روز حیدر آباد تشریف لائے تھے اور انہوں نے اپنے مصروف شیڈول میں ایوان صنعت و تجارت، چھوٹی صنعتوں کے ایوان تجارت اور حیدر آباد پریس کلب کا دورہ کیا۔ بنگلہ دیشی سفارتکار نے اپنی طویل گفتگو میں اپنے سامعین کو بنگلہ دیش میں ہونے والی ترقی سے مستفید کیا۔ تعلیم کی شرح، تعلیمی اداروں، دریائوں پر پلوں، کسانوں کے لئے سہولتوں وغیرہ وغیرہ کے بارے میں انہوں نے تفصیل سے آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کی منصوبہ بندی کے پیش نظر بنگلہ دیش میں نظر آنے والی ترقی ممکن ہوئی ہے جس کی وجہ سے ذرائع روز گار میں اضافہ ہوا ہے اور والدین اس قابل ہوئے ہیں کہ اپنے بچوں کو سکولوں میں بھیج سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک میں آج 120یونیورسٹیاں اور117میڈیکل کالج ہیں جو 1971ء میں صرف پانچ یونیورسٹی تھیں اور دو میڈیکل کالج تھے۔ بنگلہ دیش میں ہر دس سال کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جسے وہ ویژن کا نام دے رہے تھے۔ پاکستان کی معاشی ترقی میں دس سالہ منصوبہ بندی پر عمل در آمد نے معجزہ د کھایا تھا جسے بعد میں ختم ہی کر دیا گیا۔ مجبوب عالم نے اپنی گفتگو میں الحمداللہ، ماشااللہ، انشاء اللہ کا بکثرت استعمال کیا اور گفتگو کا آغاز السلام و علیکم و رحمت اللہ سے کیا۔ جو بات راقم نے زیادہ ہی محسوس کی کہ انہوں نے بنگلہ دیش کی ترقی کی کہانی میں 1971ء کا بار بار ذکر کیا جس میں یہ بتانا مقصود تھا کہ 1971ء میں ان کے ملک میں کچھ نہیں تھا۔ وہ جو کہانی سنا رہے تھے وہ اسی طرح تھی جیسی قیام پاکستان کے بعد پاکستان کی ترقی کا ذکر کرتے ہوئے پاکستانی 1947ء کا ذکر کیا کرتے تھے ۔ بنگلہ دیش میں جس ترقی کا وہ ذکر کر رہے تھے پاکستان اس جیسی ترقی کے سفر سے گزر چکا تھا۔ یہ دوسری بات ہے کہ آج پاکستان جب ماضی کی طرف پلٹتا ہے تو اس کے عوام کو رونا ہی آتا ہے کہ اس کے حکمرانوں سے اس ترقی کو کس انداز سے ضائع کر دیا۔ انہیں اگر یہ شکایت تھی کہ1971ء میں ان کے مطابق بنگلہ دیش جو اس وقت مشرقی پاکستان تھا میں سڑکیں ٹوٹی پھوٹی تھیں، دریا پلوں سے محروم تھے اور بہت ساری شکایات۔ بڑے شہروں کے علاوہ چھوٹے شہروں میں سکول اور تعلیمی ادارے سرے سے موجود ہی نہیں۔ عوامی لیگ نے محرومیوں کوہی اپنی سیاسی اور انتخابی مہم کا حصہ بنایا تھا۔
سابق مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ نے پاکستان سے آزادی کی جدوجہد کی تھی جس میں بہت سارے جانی نقصان کے ساتھ ساتھ پاکستان کو جو ہزیمت اٹھانا پڑی تھی وہ بھارت کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی رسم تھی۔ اس کے ساتھ ہی ڈھاکہ میں پاکستانی پرچم سرنگوں ہو گیا تھا اور پاکستان دو لخت ہو گیا تھا۔ پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے بڑا اسلامی ملک تھا۔ اس تلخ واقعہ کے بعد پانچویں نمبر پر آگیا ہے۔ سابق مشرقی پاکستان میں اس وقت کے پاکستانی حکمرانوں نے قومی اسمبلی میں بھاری نشستوں پر کامیابی کے باوجود عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا۔ وہ کیوں اندازہ نہیں کر سکے تھے کہ بھارت قیام پاکستان کے وقت سے دو قومی نظریہ کا شدید مخالف ہے اور پاکستان سے چھوٹی بڑی کئی جنگیں بھی لڑ چکا ہے۔ مشرقی پاکستان میں آبادی کا ایک گروہ بھارت سے ہمدردی بھی رکھتا تھا۔ اسی گروہ نے اپنا کام دکھایا اور پاکستانی حکام غافل رہے۔ بنگلہ دیش کا قیام پاکستانی حکام کی غفلت اور فیصلے کرنے میں تاخیری حربے اور سست روی کا مظاہرہ تھا جس نے پاکستان کو نقصان پہنچایا۔ عوامی لیگ سے بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ اس کی قیادت نے1970ء کی انتخابی مہم کے دوران اپنی ساری قوت مشرقی پاکستان پر صرف کی اور مغربی پاکستان پر توجہ ہی نہیں دی تھی ۔ پھر اس نے گنتی کے امیدوار مغربی پاکستان ( موجودہ پاکستان) میں کھڑے کئے تھے لیکن وہ لوگ ناکام رہے تھے ۔ جب حکمران عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہیں کر رہے تھے تو مغربی پاکستان میں سیاسی جماعتیں بھی حکومت پر دبائو ڈالنے میں ناکام رہی تھیں۔ اسی وجہ سے حکمرانوں نے جو ان کی مرضی میں آیا وہ مشرقی پاکستان میں کیا۔
بنگلہ دیش نے پورے ملک میں دریائوں پر جو بھی پل تعمیر کئے ہیں وہ اپنے ذرائع سے کئے ہیں۔ بنگلہ دیش حکومت نے تعلیم پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور اسی طرح حکومت نے خواتین کی تعلیم کے علاوہ انہیں ہنر مندی کے کاموں سے منسلک کیا ہے، وہ اسی منصوبہ بندی کا ثمر کھا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش میں آج زرمبادلہ کے ذخائر2800 ارب ڈالر ہیں، جی ڈی پی8سے تجاوز کر رہا ہے جو سفارت کار کے مطابق عنقریب دو ہندسوں میں آجائے گا۔ وہ فخر سے بتا رہے تھے کہ اشیاء میں ان کے ملک کی برآمدات ہماری ترقی کا بنیادی وجہ ہے۔ ہماری گارمنٹس دنیا بھر میں اپنا مقام رکھتی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ گارمنٹس میں استعمال ہونے والا خام مال جو کاٹن ہے وہ پاکستان سے درآمد کیا جاتا ہے۔ تمام دریائوں پر لاتعداد پل تعمیر کر دیئے گئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بنگلہ دیش دنیا بھر کے تمام ممالک کے ساتھ دوستانہ مراسم رکھتا ہے اور یہ ہی اس کی ترقی کا راز ہے۔ وہ بار بار پاکستانی صنعتکاروں کو بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دے رہے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں وہاں ہم پاکستان سے بھی بہتر تعلقات رکھتے ہیں۔ ہمارے لئے امریکہ اور چین برابری والے ملک ہیں، دونوں ممالک سے بنگلہ دیش دوطرفہ تعلق رکھتا ہے، درآمدات اور برآمدات کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش کی ترقی میں اس کے عوام کا کردار ہے۔ ہمارے لوگ محنتی، مخلص اور ایماندار ہیں۔ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ ان ہی کی بدولت موجودہ ترقی ممکن ہوئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button