سی ایم رضوان
بلوچستان کے علاقے شیرانی کے چلغوزے اور دیگر قیمتی اور نایاب درختوں کا جنگل نارنجی شعلوں کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا۔ درخت چٹخ کر گر رہے تھے، تپش ایسی تھی کہ ہزار گز دور سے بھی محسوس ہو رہی تھی۔ اس پر ستم یہ کہ یہ آگ کئی روز تک بجھائی نہ جاسکی۔ ہمسایہ ملک ایران نے آگ بجھانے کے لیے جدید طیارہ بھی فراہم کیا۔ مقامی فائر بریگیڈ کے دستیاب وسائل بھی اس آگ میں جھونکے گئے، مگر پھر بھی یہ آگ قدرت کے عطا کردہ سینکڑوں بیش قیمت درخت جلا کر ہی بجھی۔ اسی طرح چند روز بعد ضلع ڈیرہ غازی خان میں بھی پہاڑوں پر واقع جنگلات میں درختوں کو آگ لگنے کا واقعہ پیش آ۔ یا آگ سے جلنے والے یہ جنگلات ہزاروں فٹ بلند پہاڑوں پر واقع تھے اور یہ ناممکن تھا کہ انسان اپنے طور پر اس آگ کو بجھا سکے۔ جب آگ لگتی ہے تو ہوا گرم ہو کر اوپر چلی جاتی ہے جس سے پیدا ہونے والے خلا کو دوسری ہوا جب بھرتی ہے تو ایک طوفان سا جنم لیتا ہے۔ انہی تیز طوفانی ہوائوں کے باعث یہ آگ تیزی سے پھیلتی چلی جاتی ہے اور پھر کسی مشینری یا انسانی کوشش سے اسے بجھانا ناممکن ہو جاتا ہے۔
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بلوچستان کے ضلع شیرانی کے جنگل میں لگنے والی آگ نے ہزاروں ایکڑ پر موجود دنیا کے نایاب ترین چلغوزے کے جنگل کو جلا کر راکھ کر دیا۔ ان انتہائی زرخیز جنگلات سے کئی ارب ڈالرز مالیت کا قریباً 700 میٹرک ٹن چلغوزہ پیدا ہوتا تھا۔ اس جنگل کے ساتھ ہی چلغوزے کے کاروبار سے وابستہ کئی ہزار لوگوں کا روزگار بھی جل کر راکھ ہو گیا اور وہ اب سڑک پر آ گئے ہیں۔ عینی شاہدین اور آگ بجھانے کے کام میں شریک لوگوں کے مطابق اس آگ کا پھیلا ئوپانچ سے چھ کلومیٹر رقبے پر محیط تھا جبکہ یہ آگ 10 ہزار فٹ سے زائد بلندی پر موجود جنگلات میں لگی تھی جہاں صرف ہیلی کاپٹر ہی اسے بجھا سکتے تھے۔
اپنی مدد آپ کے تحت اس آگ کو بجھانے کی کوششوں میں تین مقامی افراد جان سے چلے گئے اور کئی زخمی بھی ہوئے۔ پاکستانی فوج نے بھی آگ بجھانے کے کام میں حصہ لیا اور ان کے ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ آگ بہت شدید تھی۔ کوہ سلیمان کے درمیان ایک پیالہ نما وادی میں لگی تھی۔ آگ کی شدت اور ہوا اتنی تیز تھی کہ ہیلی کاپٹر کا بھی اوپر سے پرواز کرنا مشکل تھا۔ جنگل میں موجود آرمی کے فائر فائٹر ہیلی کاپٹر، سٹاف اور فائر فائٹر جیٹ مسلسل رابطے میں تھے تاکہ آگ بجھانے کے اس عمل کو کامیابی سے مکمل کیا جاسکے۔ فوج کے ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات کے مطابق بظاہر یہ ایک حادثہ تھا۔ چرواہے اپنے جانور چرانے جنگلات میں جاتے ہیں تو چائے وغیرہ بنانے کے لیے آگ جلا لیتے ہیں۔ اسی طرح کا کوئی واقعہ اس آگ کا سبب بنا ہو گا۔
ماحولیاتی ماہرین کے مطابق یہ ایک انتہائی منفرد ایکوسسٹم یا ماحولیاتی نظام تھا جہاں صرف چلغوزے کے درختوں نے مل کر جنگل تشکیل دیا ہوا تھا، جنگلات میں عموماً ملی جلی انواع پائی جاتی ہیں۔ اگر ایک نوع پر مشتمل جنگل ہے تب بھی دوسرے درخت بھی درمیان موجود ہوتے ہیں۔ مثلاً چلغوزے کے دیگر جنگلات میں دیودار، بلیو پائن وغیرہ کے درخت نظر آجاتے ہیں مگر یہاں صرف چلغوزہ تھا۔ یہی وہ ایکو سسٹم ہے کہ کوہ سلیمان مارخور کا ایک بڑا مسکن بھی ہے۔ چلغوزے کی طرح مارخور بھی دنیا میں ایک نایاب ہوتا جانور ہے جسے ہمارے قومی جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
اس آگ کے حوالے سے اہم بات جس پر شاید ہی کسی نے غور کیا ہو وہ یہ ہے کہ آگ میں صرف درخت ہی نہیں جلے بلکہ اس نایاب ماحولیاتی نظام میں موجود مختلف نسل کے بہت سے جانور، پرندے، کیڑے مکوڑے، جڑی بوٹیاں اور پھول پودے بھی خاکستر ہو گئے۔ خصوصاً وہ جانور جو بل بنا کر رہتے ہیں مثلا سانپ، چوہے اور دیگر حشرات وغیرہ۔ یہ جنگلات بقا کے خطرے سے دوچار اور عالمی تحفظ یافتہ سلیمان مارخور کا مسکن بھی ہیں۔ یہاں افغان اڑیال اور لگڑ بگھا بھی پایا جاتا ہے، یہ تمام تحفظ یافتہ انواع ہیں۔اس آگ سے ان جانوروں کے حوالے سے بھی خدشات سامنے آ رہے ہیں۔ سلیمان مارخور وہ نوع ہے جو آج سے 30 سال پہلے معدومی کے قریب پہنچ چکی تھی اور اس کی نسل کے بہت کم مارخور بچے تھے۔ ان کے تحفظ کی ایک طویل جدوجہد ہے اور اگر اس آگ سے یہ جانور متاثر ہوتا ہے یا نقل مکانی کر جاتا ہے تو یہ بھی ایک بڑا نقصان ہو گا۔سلیمان مارخور کی کم تعداد کے باعث اسے فطرت کے تحفظ کی عالمی تنظیم (آئی یو سی این) نے اپنی خطرات سے دوچار جانداروں کی عالمی فہرست میں شامل کیا ہوا ہے۔ بہت سے عالمی معاہدوں کے توثیق کنندہ کی حیثیت سے پاکستان ایسے تمام جانداروں کی حفاظت کا پابند ہے مگر معاہدوں پر دستخط اور ان پر عمل درآمد دو مختلف باتیں ہیں۔
جنگل کو آگ لگنے کا ایک تازہ ظلم گزشتہ دنوں سوات میں ہوا ہے۔ میڈیا میں اب بھی اس کا شور باقی ہے۔ شاید ہم صرف شور ہی ڈال سکتے ہیں عملی اقدامات، شرم و غیرت اور قومی سطح کے نقصانات پر حقیقی احساس زیاں اور زیاں کا حقیقی تدارک کرنا شاید ہم میں سے مفقود ہو چکا ہے۔ سوات کے یہ دلکش جنگلات جہاں عام طور پر رات کی خاموشی میں آگ لگائی جاتی ہے لیکن مورد الزام موسم کو ٹھہرادیا جاتا ہے۔
سوات کے سب سے بڑے پہاڑ ایلم (بونیر) کے جنگلات بھی آگ کی لپیٹ میں تھے۔ ساتویں دن یہ آگ ٹھنڈی ہو چکی تھی مگر لوگوں میں احساس کی آگ شاید اب کبھی بھی نہ جل سکے۔ جس آگ کی تپش سے قومی اور اجتماعی زندگی کو تحفظ کی لو فراہم ہوتی ہے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ یہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی تھی۔ ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان نے خبر دی کہ جنگل میں آگ لگانے کے الزام میں اب تک چھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر سوات محکمہ جنگلات کے اپنے معلوماتی نظام کی بنیاد پر دیگر علاقوں میں بھی ملزمان کی تلاش شد و مد سے جاری رہی اور 11 جون تک 13 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جن میں سے اب تک پانچ افراد کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ تین افراد کے خلاف ڈیمیج رپورٹ تیار کی گئی ہے اور ان کے خلاف فاریسٹ ایکٹ کی شق 33 اے کے تحت اب کارروائی کی جائے گی۔
افسوس کہ بلوچستان میں شیرانی کے چلغوزہ جنگل میں لگنے والی آگ ابھی بمشکل ٹھنڈی ہوئی تھی کہ خیبر پختونخوا اور خصوصاً سوات کے بہت سے پہاڑی جنگل جل اٹھے اور اس آگ میں تو درختوں کے ساتھ ساتھ اب تک ایک خاتون سمیت پانچ افراد بھی جھلس کر ہلاک ہوگئے ہیں جن میں ریسکیو 1122 کا ایک اہلکار بھی شامل ہے۔اس آگ نے پہاڑوں پر موجود بہت سے گھروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر وسیم خان کے مطابق پچھلے آٹھ دنوں میں صرف سوات کے علاقوں میں جنگل میں آگ لگنے کے 22 واقعات رونما ہوئے ہیں۔ جس میں سے صرف تین واقعات سرکاری جنگلات میں ہوئے باقی تمام شاملات کے جنگل تھے یا لوگوں کے ذاتی ملکیت تھے۔
پے درپے آگ کے ان واقعات نے بہت سے شکوک و شبہات کو بھی جنم دیاہے۔ سازشی نظریات سامنے آنے لگے، اس حوالے سے بہت سے مقامات پر مقامی لوگوں نے احتجاج بھی کیا اور انتظامیہ سے سخت اقدامات کا بھی مطالبہ کیا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کوئی سازشی نظریہ نہیں بلکہ مقامی لوگ جنگلات میں جان بوجھ کر آگ لگاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں ان دنوں موسم گرم اور خشک ہے لہٰذا چلغوزے کے جنگل میں لگنے والی آگ حادثاتی ہو سکتی ہے لیکن سوات میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ وہاں موسم ٹھنڈا اور مرطوب ہے۔ اس حوالے سے ایک محقق پروفیسر نفیس کا عرصہ تحقیق 1993 سے لے کر 2003 پر مشتمل ہے۔ ان کی ریسرچ کے مطابق ان 10 سالوں میں سوات میں آگ لگنے کے 20 واقعات ہوئے جن میں تین واقعات عالمی سطح کی بڑی آگ کے سمجھے جا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان تمام واقعات میں آگ مقامی افراد نے خود لگائی تھی۔ کئی لوگ پکڑے بھی گئے تھے مگر صرف ایک مجرم کو چار ہزار روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی۔
جنگلات میں جان بوجھ کر آگ لگانے کا سبب باہمی دشمنی کے علاوہ بہت حد تک شاملات کے قانون کو بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ سوات میں ملکیت جنگلات کا قضیہ کئی دہائیوں سے چلا آ رہا ہے کہ یہ جنگلات حکومت کی ملکیت ہیں یا عوام کی ذاتی ملکیت۔ اس ملکیت کے لالچ میں کئی مقامی لوگ سرکار کے ملکیتی جنگلات کو آگ لگا کر اسے زرعی رقبہ میں شامل کرنے کی سازش بھی کرتے ہیں۔ کچھ عاقبت نااندیش سیاح بھی بداحتیاطی سے کام لیتے ہوئے یا تو جلتا سگریٹ خشک پتوں اور جھاڑیوں میں پھینک کر چلے جاتے ہیں یاپھر آگ جلا کر چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح آج کل ٹک ٹاکرز کی جانب سے ویڈیوز بنانے کے دوران بھی درختوں کو آگ لگنے کے مناظر فلمانے کی کوششیں بھی جنگل سوزی کا باعث بنے ہیں۔ الغرض بد احتیاطی، بے غرضی اور مجموعی وقومی وسائل کے ضمن میں لاپرواہی ہمارا قومی وطیرہ بن چکا ہے۔ جنگلات میں آئے روز لگنے والی آگ اسی وطیرہ کے شاخسانے ہیں۔ شاید کچھ شرم آ جائے ان آگ لگانے والوں کو یا پھر حکومت ہی کوئی سخت اقدام اٹھالے۔