Ali HassanColumn

بجلی بچانا ڈالر بچانا ہے .. علی حسن

علی حسن

حکومت نے ہفتہ کے روز سے تمام کاروبارِ زندگی رات آٹھ بجے بند کر کے کا اعلان کیا ہے۔ کھانے پینے کے سامان کی دکانوں کو رات ساڑھے دس بجے تک کاروبار جاری رکھنے کی اجازت ہے۔ حکومت کے اس قدم سے بجلی کی بچت کے علاوہ پٹرول کی بچت بھی ہوگی کیوں کہ پابندی کے دوران جنریٹرچلا کر کاروبار کرنے کی اجازت بھی نہیں ہوگی۔ بعض شہروں میں حکومت کے اس قدم کی معمولی مزاحمت ہوئی لیکن بھاری تعدادمیں کاروباری حضرات نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوا کہ کاروباری لوگ، تاجر لوگ ملک کو درپیش مشکلات سے نکالنے میں حکومت کی مدد کرنے کو تیار ہیں۔ ویسے بھی کاروباری مراکز کے دن میں ایک بجے کے بعد کاروبارکے  نظام الاوقات ہمیشہ سے نہیں تھے۔ یہ نظام اوقات دکانداروں نے خالصتاً اپنی ذاتی سہولت کی غرض سے طے کئے تھے ۔ وہ خود رات بھر ٹی و ی چینل دیکھنے کے بعد صبح کے وقت سوتے ہیں جس کی وجہ سے آدھا دن گزارنے کے بعد اپنے کاروبار کی طرف آتے تھے۔ ایک زمانے میں ہر طرح کی دکانداری کرنے والے لوگ صبح کے وقت اپنی دکانیں کھولتے تھے اور دن بھرکے کاروبار کے بعد قبل از مغرب اپنا کاروبار بند کرکے  اپنے گھروں کو رخصت ہو جاتے تھے ۔ اگر اسی طرز زندگی کو دوبارہ اپنایا جائے تو بجلی کی بچت ہوگی جو آبادیوں کو لوڈ شیڈنگ سے محفوظ رکھ سکے گی۔

جب بجلی ہوگی تو ہسپتالوں میں بھی لوڈ شیڈنگ کے اثرات نہیں ہوں گے۔ لوڈشیڈنگ کے دوران ہسپتالوں کو روشنی کے لیے زیادہ پیداوار کے بھاری جنریٹر چلانا پڑتے ہیں، جن پر اضافی خرچہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔  وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ہماری مارکیٹیں دوپہر ایک بجے کھلتی ہیں۔ رات ایک بجے بند ہوتی ہیں۔ دنیا یہ کہیں نہیں ہوتا۔ انہوں نے یاد دلایا ہے کہ اللہ نے ہمارے وطن کو 365 دن سورج کی روشنی بخشی ہے مگر ہم اندھیرے میں بجلی استعمال کر کے کاروبار کرتے ہیں،اگر ہم کاروبار کاٹائم درست کر لیں تو کراچی کے بغیر 3500 میگا واٹ بجلی بچتی ہے۔ مشکل حالات ہیںمشکل فیصلوں کی ضرورت ہے ۔ یہ مشورہ درست ہے لیکن ہم نے مشکل حالات کے مطابق اپنے آپ کو اب تک ڈھالا ہی نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بری عادتیں چھوڑنے میں وقت لگتا ہے۔ پانی ہمارے سر تک پہنچ گیا ہے۔
وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ بجٹ پر ائی ایم ایف مطمئن نہیں ،15روز تک اس میں تبدیلیاں کریں گے، سخت فیصلوں کے سوا آپشن نہیں ہے۔ 25لاکھ دکاندار ٹیکس نیٹ میں لائیں گے ، انتظامی امور ٹھیک کرنا ضروری ہے ورنہ ملک چلانا مشکل ہو جائے گا ، پٹرول مہنگا کرکے پیسے گھر نہیںلے جارہے۔پاکستان اس وقت مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ اتنا گمبھیر اور مشکل وقت کبھی نہیں دیکھا۔ ہمارا پہلا ہدف یہ ہے کہ ہم سری لنکا کی صورتحال تک نہ چلے جائیںاور پہلی ترجیح اپنے ملک کی معیشت کو بچانا ہے۔
سری لنکا کے وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے کا کہنا ہے کہ سری لنکا کا موجودہ بحران اس کا اپنا پیدا کردہ ہے۔اس وقت بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔  روس نے سری لنکا کو گندم کی برآمد کی بھی پیشکش کی ہے، روس سے مزید تیل خرید سکتے ہیں لیکن پہلے دیگر ذرائع دیکھے جائیں گے۔امریکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو میں وکرما سنگھے نے کہا کہ اولین ترجیح ملک کو بحرانی صورت حال سے نکالنا ہے۔ چین سے مزید مالی مدد قبول کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
پاکستان میں بجلی کی کل طلب 27 ہزار 737 میگاواٹ ہے۔ پاور ڈویژن نے بتایا ہے کہ ملک میں بجلی کا شارٹ فال 5 ہزار 629 میگاواٹ ہوچکا ہے اور بجلی کی مجموعی پیداوار 22 ہزار 108 میگاواٹ رہی ہے جب کہ بجلی کی کل طلب 27 ہزار 737میگاواٹ ہے۔پاور ڈویژن نے لوڈ شیڈنگ کے اوقات بارہ گھنٹے بتائے ہیں حالانکہ ملک کے بہت سارے علاقوں خصوصاً دیہی علاقوں میں تو بجلی چار سے آٹھ گھنٹے ہی آتی ہے اور باقی اوقات میں لوڈ شیڈنگ رہتی ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صارفین کو یو پی ایس اور اس کی بیٹری کی وجہ سے اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔ کاروبار الگ خراب ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر تمام صارفین بجلی کے استعمال پر توجہ دیں تو تمام صارفین کو بجلی میسر ہو جائے گی۔ بہر حال بعد از مغرب کاروبار بند کرنے کا فیصلہ باعث تحسین ہے۔ اس فیصلہ پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ وزارت توانائی کے حکام کا کہنا ہے کہ بجلی کا بڑھتابحران یقیناً لمحہ فکریہ ہے،کوشش کر رہے ہیں کہ بچت پلان کے ساتھ بند پاور پلانٹس بھی جلد چلائے جائیں، امید ہے کہ چند روز میں لوڈشیڈنگ میں کمی ہو جائے گی۔واضح رہے کہ رواں مالی سال کے 10 ماہ میں پٹرولیم مصنوعات کا درآمدی بل 17 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے
بجلی کا بحران حل کیا جا سکتاتھا اگر مختلف حکومتیں سنجیدگی کے ساتھ کارروائی اور اقدامات کرتیں لیکن پتہ نہیں حکومتیں
کس بات کے انتظار میں تھیں۔ کوئی قابل عمل متبادل ذریعہ بھی تلاش نہیں کیا گیا ، جس بڑے پیمانے پر شہریو ں اور کاروباری اداروں نے ذاتی متبادل انتظام کیا ، کیا ان انتظامات کو حکومت اور وپڈا کے تعاون سے ضلع کی سطح پر نافذ کیا جا سکتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے بجلی پیدا کرنے کے کارخانے بنائے جا سکتے ہیں۔ سندھ کے بعض شہروں میں نجی طور پر ایسا طریقہ قائم کیا گیا ہے اور گھروں سے فی بلب اور فی پنکھا کے حساب سے پیسے لئے جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ اپنے گھر اور دفتر کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ ایک بہترین سرمایہ کاری ہے اس میں آپ جتنا پیسہ بھی لگائیں گے چار سال سے پہلے پہلے آپ کا وہ تمام پیسہ بجلی کے بل کی مد میں واپس ہو جائے گا اور اس کے بعد اگلے بیس سال تک آپ کو بجلی مفت میں پڑے گی۔ یہ شاید کسی پلاٹ میں پیسہ لگانے سے بھی بہتر ہے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ کیسے ؟ وہ ایسے کہ سولر لگانے سے آپ سرکار کا وہ پٹرول (ایندھن) بچا رہے ہیں جو ہم باہر کے ملک سے خرید کر اپنے ملک میں لاتے ہیں تاکہ ہم یہاں پر بجلی بنا سکے۔ یوں ہم سرکار کا وہ پیسہ بھی بچائیں گے اور اپنا پیسہ بھی بچائیں گے۔ آپ جانتے ہیں کہ بجلی بنانے کے لیے بہت سارا فیول باہر کے ملکوں سے خریدنا پڑتا ہے اور جس کی وجہ سے ہم گردشی قرضے جیسے مسئلے کا بھی شکار ہیں۔ اگر ہم سب مل کر سولر لگانا شروع کر دیں تو ایک وقت آئے گا ہم لوڈشیڈنگ سے بھی ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کر پائیں گے۔ تیسرا فائدہ یہ ہے کہ آپ جو گرین انرجی کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ جب آپ سولرانرجی استعمال کریں گے تو آپ ماحولیاتی آلودگی سے بھی بچ رہے ہوں گے ۔ جب آپ سورج کی کی روشنی کو استعمال کر رہے ہیں تو نہ پٹرول کو فرنس میں جلا کر انرجی میں تبدیل کیا جائے گا، نہ دھواں ہوگا اور نہ ہی ماحولیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارے لیے بہت ضروری ہے کہ اپنے گھروں اور دفتروں میں سولر کا نظام لگائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button