Editorial

مالی سال 23- 2022ء کا وفاقی بجٹ

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے مالی سال 23- 2022ء کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ، وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 9502ارب روپے اورخسارہ 3798 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 4.9فیصد ہے ۔صوبوں کو 800ارب روپے کے سرپلس کی ادائیگی کےبعد خسارہ 4598ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہو ں میں 15فیصد اضافہ کیا گیا ہےاور ایڈہاک الائونسز کو بنیادی تنخواہ میں ضم کیاگیا ہے۔ انکم ٹیکس کی چھوٹ کی حد 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کردی گئی ہے۔ اگلے مالی سال تنخواہ دار طبقے کے لیے ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ دیگر ممالک کی طرح پنشن فنڈ قائم کیا جارہا ہے اور مہنگائی کی شرح کم کرکے11.5فیصد پر لائی جائے گی۔وفاقی کابینہ نے وفاقی بجٹ 2022-23 کی منظوری دے دی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نےوفاقی بجٹ کو ملک کو سنگین معاشی بحرانوں سے نکالنے کا نسخہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں صاحب استطاعت سے قربانی مانگی گئی اور کمزور طبقات کو آسانی دی گئی ہے۔ہم نے پاکستان کو مشکلات سے نکالنے کے لیے مشکل فیصلے کئے ہیں۔ معاشرے کے صاحب ثروت طبقات کو مشکل حالات میں غریبوں کی مشکلات کا بوجھ اٹھانے میں بڑے بھائی کا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
اپوزیشن رہنمائوں نےبجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجٹ کے ذریعے مہنگائی کا طوفان برپا کردیاگیا ہے ، لیکن فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین عاصم احمد نے حکومتی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 355 ارب روپے کے اضافی ٹیکسز لگائے گئے ہیں اور عام آدمی کو ریلیف فراہم کیاگیا ہے۔ تنخواہ دار طبقے کو حکومت نے ریلیف فراہم کیا اِس کے برعکس زیادہ آمدن والے افراد اور نان فائلرز پر اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں۔مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد خصوصاً تاجر، صنعت کاراور ملز مالکان بجٹ کو متوازن اور موجودہ حالات میں قابل قبول قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بجٹ میں اُن کے کئی دیرینہ مطالبات مانے گئے ہیں جن کے نتیجے میں معیشت پھلے پھولےگی۔ذرائع ابلاغ کے مطابق معیشت کے استحکام کے لیے مسلح افواج نے بڑے فیصلے کیے ہیں اور امسال بھی بجٹ کی مد میں کسی اضافی فنڈ کی ڈیمانڈ نہیں کی یہی نہیں بلکہ مسلح افواج نے مختلف ایریاز میں اپنے اخراجات کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور یوٹیلٹی بلز کی مد میں اپنے اخراجات کو مزید محدود کردیاہے،
ایسے ہی بے شمار اقدامات اٹھائے گئے ہیں جن کے نتیجے میں بچت ہوگی اور موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی، اگرچہ سکیورٹی کے حوالے سے داخلی اور حالات اور چیلنجز کے باعث دفاعی بجٹ میں اضافہ کیا جانا چاہیے لیکن اس کے باوجود مسلح افواج نے ڈالر کی قیمت میں بے حد اضافے اور بڑھتی ہوئی دفاعی ضروریات کے باوجود بجٹ میں اضافہ ڈیمانڈ نہیںکیا جس پر یقیناً تحسین کی جانی چاہیے، پاک فوج بچت کے زمرے میں جو اقدامات اٹھارہی ہے ان کی تفصیل طویل ہے بہرکیف یہ تو واضح ہوتا ہے کہ موجودہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے کفایت شعاری مہم میں ہماری مسلح افواج نے بھی ازخود اپنا حصہ دو طرح سے شامل کردیا ہے، ایک تو دفاعی اخراجات میں اضافہ نہ کرکے دوسرا اپنی انتظامی ضروریات کو کم یا انتہائی محدود کرکے۔ یہی نہیں پاک فوج نے کرونا کی مد میں ملی رقم میں سے 5 ارب روپے بچا کرحکومت کو واپس کیے اور پروکیورمنٹ کی مد میں بھی ملی رقم سے 3.4ارب روپے بچا کر قومی خزانے میں دیے ہیں۔
وفاقی بجٹ کے خدوحال پر بات کی جائے تو توقع کی جارہی تھی کہ موجودہ معاشی بحران میں آئندہ مالی سال کا بجٹ مزید آزمائشوں کے اعلان ساتھ لیکر آئے گا لیکن غیر یقینی طور پر فی الحال ایسا کچھ نظر نہیں آیا بلکہ مختلف شعبہ ہائے زندگی نے بجٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بجٹ میں ریلیف اور تکلیف دونوں نہیں دیئے گئے اس لیے یہ ہومیوپیتھک سا بجٹ ہے۔ اعدادوشمار کے جائزے سے تو یہی نظر آتا ہے کہ بجٹ کے نتیجے میں ملک بھر میں معاشی سرگرمیاں تیز ہوں گی اور معیشت کو درست سمت لیکر چلا جائے گا۔ ملک بھر کی تاجر تنظیمیں فکسڈ ٹیکس کا مطالبہ کرتی تھیں وہ اِس بجٹ میں منظور کرلیاگیا ہے اب توقع کی جانی چاہیے کہ تاجر برادری حکومت کے ساتھ تعاون کرے گی اور زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل ہوں گے اور معیشت کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کا سبب بنیں گے۔ حکومت نے سولر پر سیلز ٹیکس ختم کیا ہے اور بینکوں کوآسان شرائط پر سولر سسٹم دینے کی ہدایت کی گئی ہے، یقیناً اِس فیصلے کے بھی دور رس نتائج برآمد ہوں گے، ایک طرف شہریوں کو سولر کی وجہ سے سستی بجلی دستیاب ہوگی تو دوسری طرف بجلی کی کھپت میں بھی نمایاں فرق نظر آئے گا۔ بجٹ میں زرعی مشینری پر کسٹم ڈیوٹی ختم کی گئی ہے یقیناً اِس سے بھی درآمدی مشینری کی قیمت میں نمایاں کمی ہوگی اور اِس کا براہ راست فائدہ کسانوں کو پہنچے گا اِس لیے یہ فیصلہ بھی سراہے جانے کے لائق ہے۔ بجٹ میں فارما سوٹیکل کے 30اجزاء پرسے سیلز ٹیکس ختم کیا گیا ہے،
یہ وہ اجزا ہیں جو عام استعمال کی ادویات میں استعمال ہوتے ہیں اور گذشتہ حکومت کے برعکس حکومت نے اِس پر عائد سیلز ٹیکس ختم کرکے ادویات کی قیمتوں میں نمایاں کمی کا جواز فراہم کیا ہے مگر نظر رکھی جانی چاہیے کہ جن مدات پر حکومت نے ریلیف فراہم کیا ہے وہ کہیں سرمایہ داروں کی تجوریوں میں ہی نہ چلا جائے بلکہ یہ ریلیف عام صارف تک پہنچنا چاہیے۔ چھوٹے دکانداروں پر فکسڈ ٹیکس، خام مال کی درآمد پر ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکس، مقامی و امپورٹڈ سولرپینلز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ، ٹریکٹرز ، زرعی آلات، گندم، کینولا اور دیگر اناج کے لیے سیلز ٹیکس کی واپسی اچھے اقدامات ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تمام اشیا جو بیرون ملک سے درآمد کی جاتی ہیں یا مقامی طور پر پیداوار ہوتی ہے اِن پر عائد ٹیکس کم سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر کیے جانے چاہئیں کیونکہ گھی، دالوں سمیت کئی اجناس بیرون ملک سے درآمد ہوتی ہیں اور پہلے ہی عالمی کساد بازاری کی وجہ سے مہنگی ہوچکی ہیں ان پر عائد ٹیکس ختم یا انتہائی کم کیے جانے چاہئیں ۔ دیکھا جائے تو موجودہ بجٹ بھی3798 ارب روپے خسارے کا بجٹ ہے اور اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس سے کیسے نمٹا جائے گا لیکن وزیراعظم شہبازشریف پر امید ہیں کہ پہلی بار زراعت کو ٹیکس استثنیٰ ملا ہے جس سے زراعت اور کسان کو ایک نئی معاشی زندگی ملے گی، زرعی مشینری، آلات، بیجوں سے لے کر اس شعبے سے منسلک اشیاء اور آلات کو ٹیکس سے استثنیٰ دینے سے ملک میں گرین انقلاب برپا ہوگا ،
ان تاریخی اقدامات سے نہ صرف اجناس اور ہماری فصلوں کی پیداوار بڑھے گی بلکہ انشاءاللہ ملک میں خوراک کی قیمتوں میں کمی لانے میں بھی مدد ملے گی، لیکن یہاں ہم گذارش کرنا چاہیں گے کہ چھوٹے کسانوں کو نہیں بلکہ بڑے زمینداروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جانا چاہیے کیونکہ عام اور چھوٹے کسان کے برعکس بڑے زمیندار زراعت کے شعبے سے خاصا منافع حاصل کررہے ہیں لیکن دنیا بھر کے برعکس انہیں ہمارے یہاں ٹیکس سے استثنیٰ حاصل ہے ۔حکومت نے سستا پٹرول اور سستا ڈیزل سکیم پورا سال جاری رکھنے کااعلان کیا  اور بار بار کہا ہے کہ انکم ٹیکس سے چھوٹ کے ذریعے تنخواہ دار اور کم وسائل والوں کی آمدن بڑھے گی ،مگر ہماری گذارش ہے کہ جو پاکستانی خط غربت سے نیچے یا اُس کے برابر زندگی بسر کررہے ہیں اُن کے لیے بھی کوئی بڑا اعلان سامنے آنا چاہیے کیونکہ اصل معاشی آزمائش کا انہی اکثریتی پاکستانیوں کو سامنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button