Editorial

قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کا 38 واں اجلاس جمعہ کو یہاں منعقد ہوا۔ اجلاس میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر غور کیا گیا۔ وزیر اعظم آفس کے اعلامیہ کے مطابق اجلاس میں وفاقی وزراء خواجہ محمد آصف، رانا ثناء اللہ، مریم اورنگزیب، احسن اقبال، وزیر مملکت حنا ربانی کھر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ندیم رضا، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل محمد امجد خان نیازی، چیف آف ایئر سٹاف ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر، امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید اور اعلیٰ سول و فوجی حکام نے شرکت کی اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے موصول ہونے والے ٹیلی گرام پر غور کیا۔ سابق سفیر اسد مجید خان نے کمیٹی کو اپنے ٹیلی گرام کے سیاق و سباق اور مواد کے بارے میں بریفنگ دی اور قومی سلامتی کمیٹی نے مواد اور کمیونی کیشن کی جانچ کے بعد اپنے (قومی سلامتی کمیٹی) کے گزشتہ اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی۔ قومی سلامتی کمیٹی کو پریمیئر سکیورٹی ایجنسیز نے دوبارہ اس بات سے آگاہ کیا کہ انہیں کسی سازش کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے کمیونی کیشن کا جائزہ اور سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے موصول ہونے والے جائزوں اور پیش کردہ نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ کوئی غیر ملکی سازش نہیں ہوئی ہے۔ وزیرمملکت حنا ربانی کھر کا ملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قومی سلامتی کمیٹی میں مراسلے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور اعلامیہ میں کسی بھی جگہ سازش کا ذکر نہیں ہے۔ یہ مراسلہ ایک منجھے ہوئے سفارتکار نے لکھا اور ملک میں اعلیٰ سطح پر اس مراسلہ کو پڑھا اور اس کا جائزہ لیا گیا ہے۔ امریکہ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے مراسلہ پر سابقہ حکومت کو فوری طور پر جائزہ لینے کے بعد ایکشن لینا چاہیے تھا اور انہیں امریکی سفارتخانے کو ایک مراسلہ بھیج کر اس بات کی تصدیق کرنی چاہیے تھی کہ اس مراسلے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے کیا وہ امریکی حکومت کی ہے یا کسی ایک عہدیدار کی ہے۔ اس مراسلے پر ملک کے اعلیٰ سطحی فورم پر جائزہ لیا گیا ہے، اس لیے میں سمجھتی ہوں کہ اس معاملے کو عدالتی کمیشن میں لے جانے کی ضرورت نہیں ہے، دوسری طرف تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے سپریم کورٹ سے دھمکی آمیز مراسلے پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثابت ہوگیا کہ پاکستان میں سیاسی مداخلت ہوئی ہے، قومی سلامتی کمیٹی نے گزشتہ اعلامیے کی توثیق کی ہے اور اعلامیے میں کوئی نئی بات نہیں۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں اوپن سماعت کے لیے کمیشن تشکیل دیا جائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب تحقیقات کون کرے گااور اعلامیہ سے پھر ثابت ہوا کہ عمران خان حکومت کو بیرونی مداخلت سے ہٹایا گیا۔پچھلے اجلاس کی فائنڈنگ، منٹس کی توثیق یعنی مہر ثبت کر دی، اگر ایسا
ہی ہونا تھا تو پھر اجلاس سے حاصل کیا ہوا،سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ حالیہ اجلاس سے موجودہ وزیراعظم نے اپنے لیے مزید مشکلات پیدا کی ہیںاور آج ثابت ہوگیا کہ مراسلہ درست تھا، یہ مراسلہ پچھلے منٹس کی توثیق کر رہا ہے اور پچھلے منٹس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی گئی یوں اس حکومت نے اپنی ساکھ متاثر کی ہے، لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا کہ اس حکومت کا پردہ پوشی کا ارادہ ہے۔قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ، حنا ربانی کھر اور شاہ محمود قریشی کا موقف سامنے آنے کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان نے اسی معاملے پر کہا ہے کہ نیشنل سکیورٹی کونسل (این ایس سی) نے کنفرم کیا ہے کہ مراسلہ درست تھا، پاکستانی سفیر سے جو گفتگو کی گئی وہ حقیقت تھی۔ مراسلے میں بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے جو زبان استعمال کی گئی اس میں تکبر تھا اور ملک کے وزیر اعظم کو دھمکی دی گئی۔میں نے مراسلے سے متعلق جو کچھ کہا، وہ سچ ثابت ہوا، ہماری حکومت جانے کے بعد ملک میں افرا تفری پھیلی ہوئی ہے اور معیشت نیچے جا رہی ہے۔ این ایس سی نے کنفرم کر دیا ہے کہ بیرونی مداخلت ہوئی ہے، لندن میں بیٹھ کر ایک شخص نے سازش کی ان کے ساتھ شہباز شریف اور زرداری ملے ہوئے تھے، جو لوگ منحرف ہوئے وہ کیسے سفارتکاروں سے مل رہے تھے؟سابق وزیراعظم نے بھی یہی مطالبہ دھرایا کہ سپریم کورٹ کو اس کی تحقیقات کرنی چاہیے تھی، سپریم کورٹ مراسلے کی کھلی عدالت میں تحقیقات کرے، اگر آپ نے تحقیقات نہ کیں تو مستقبل میں کوئی وزیر اعظم ملکی مفاد کے لیے کھڑا نہیں ہوگا۔ متذکرہ صورت حال بیان کرنے کا مقصد مراسلے کے معاملے پر ہونے والی تازہ پیش رفت سامنے لانا تھا۔ قومی سلامتی کمیٹی کا حالیہ اجلاس وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی زیر صدارت ہوا جبکہ قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہوا جس میں امریکہ کو ڈی مارش جاری کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ وزیراعظم میاں محمد شہبازشریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پی ٹی آئی کے امریکی سازش کے بیانیے کو مسترد کیا گیا تو دوسری طرف حکمران اتحاد کے اُس بیانیہ کو بھی مسترد کیا گیا کہ یہ سفارتی خط جھوٹ ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہ سفارتی خط سچ بھی ہے اور قومی سلامتی کمیٹی نے امریکہ کو بالکل درست ڈی مارش کیا ، بطور وزیراعظم عمران خان نے قومی سلامتی کمیٹی کے جس آخری اجلاس کی صدارت کی اِس کے سرکاری اعلامیہ میں واضح کہاگیا تھا کہ امریکہ نے پاکستان تک جو پیغام پہنچایا وہ جارحانہ نوعیت کا تھا ، اسی لیے امریکہ کو ڈی مارش جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔اگرچہ حالیہ اجلاس کے اعلامیہ کا جائزہ لیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ کمیٹی نے صرف اس امر پر توجہ مرکوز رکھی کہ کوئی سازش نہیں ہوئی، بہرحال قومی سلامتی کمیٹی کے نتائج اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں سازش کی باتیں مسترد کیے جانے کے باوجود عمران خان نے گذشتہ روز پریس کانفرنس میں اپنے اُسی موقف کو دھرایا ہے کہ اُن کی حکومت کے خلاف سازش کی گئی ہے اور اِس معاملے کی سپریم کورٹ کھلی تحقیقات کرے ۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ سفارتی مراسلہ دیکھیں تو بیرونی مداخلت کا لفظ بھی کچھ زیادہ ہوجاتا ہے، سفیراور امریکی عہدیدار کے درمیان بات چیت کو مداخلت نہیں کہہ سکتے، سفارتی مراسلہ میں تحریک عدم اعتماد اور پاکستانی سیاست کا کوئی حوالہ نہیں اور مراسلہ پڑھنے سے لگتا ہے کہ امریکی انڈر سیکرٹری سمجھتے ہیں کہ یوکرین کے معاملہ پر پاکستان کو جارحیت کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔بیان کی گئی صورتحال میں ہم سمجھتے ہیں کہ ٹیلی گرام کے معاملے پر تمام اداروں اور سیاسی قیادت کو متفقہ طور پر ایک نتیجے پر پہنچنا چاہیے اور وہ نتیجہ ایسا ہونا چاہیے کہ کوئی ادارہ یا کوئی سیاسی جماعت بالخصوص موجودہ اور سابقہ حکومت اُس نتیجے پر اپنے تحفظات ظاہر کرے اور نہ ہی اِسے ماننے سے انکاری ہوں۔ اب سابق سفیر کا موقف بھی سامنے آچکا ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کے سابقہ اجلاس کے فیصلوں کی تائید بھی ہوچکی ہے تو ہمیں سرجوڑ کر کسی نتیجے پر لازماً پہنچنا چاہیے ، اِس معاملے پر قومی اتفاق رائے سامنے نہ آیا تو وطن عزیز میں سیاسی عدم استحکام ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھے گا ، سابقہ حکومت اپنا بیانیہ عام انتخابات میں بھی یقیناً یہی رکھے گی ، اِس لیے جلد ازجلد اِس معاملے کو افہام و تفہیم اور ملک و قوم کے بہتر مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے نمٹانا چاہیے، عمران خان اِس پر عدالتی کمیشن کا قیام چاہتے ہیں اور یقیناً وہ اِس سے کم کسی مطالبے پر نہیں مانیں گے، سیاسی فہم و فراست کے ذریعے ہی تصادم کی سیاست سے بچا جاسکتا ہے اور اِس کا بہتر حل یہی ہے کہ ایسے فیصلے کیے جائیں جو متنازعہ نہ ہوں اور سبھی کے لیے قابل قبول ہوں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button