Column

23مارچ قرارداد پاکستان تجدید عہد کا دن

تحریر : حکیم سید عمران فیاض
جہاں میں اہل ایمان صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
23 مارچ1940 کا تاریخی دن ہماری قومی تاریخ میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس عظیم دن آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے ہندوستان بھر کے مسلمان رہنمائوں نے لاہور کے منٹو پارک میں منعقدہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے زیرصدارت تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرار داد منظور کی تھی، جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے حصول کیلئے انمٹ تحریک کی شکل میں اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔
قراردادِ لاہور کا مکمل متن:
1 ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ سیشن مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ اور شوریٰ کے اقدام کی منظوری اور توثیق کرتے ہوئے، جیسا کہ ان کی قرارداد مورخہ 28اگست ، 17و 18ستمبر اور 22اکتوبر 1939ء اور 3فروری 1940ء سے ظاہر ہے ، آئینی قضیے میں اس امر کے اعادے پر زور دیتا ہے کہ 1935ء کے حکومت ہند ایکٹ میں تشکیل کردہ وفاق کی منصوبہ بندی ملک کے مخصوص حالات اور مسلم ہندوستان دونوں کے لیے بالکل ناقابلِ عمل اور غیر موزوں ہے۔
2 ۔ یہ سیشن مزید براں پرزور طریقے سے باور کرانا چاہتا ہے کہ تاجِ برطانیہ کی جانب سے وائسرائے کا اعلامیہ مورخہ 18 اکتوبر 1939ء ، حکومتِ ہند ایکٹ 1935ء کی اساسی پالیسی اور منصوبے کے ضمن میں اس حد تک اطمینان بخش ہے ، جس حد تک مختلف پارٹیوں، مفادات اور ہندوستان میں موجود گروہوں کی مشاورت کی روشنی میں اس پر نظرِ ثانی کی جائے گی ۔ مسلم ہندوستان تب تک مطمئن نہیں ہو گا جب تک مکمل آئینی منصوبے پر نئے سرے سے نظرِثانی نہیں کی جائے گی ، اور یہ کہ کوئی بھی ترمیم شدہ منصوبہ مسلمانوں کے لیے صرف تبھی قابلِ قبول ہو گا اگر اس کی تشکیل مسلمانوں کی مکمل منظوری اور اتفاق کے ساتھ کی جائے گی۔
3 ۔ قرار پایا ہے کہ یہ آل انڈیا مسلم لیگ کا مسلمہ نقطہ نظر ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ تب تک قابلِ قبول نہیں ہو گا، جب تک وہ ذیل کے بنیادی اصول پر وضع نہیں کیا جائے گا، وہ یہ کہ جغرافیائی طور پر ملحق اکائیوں کی علاقائی حدبندی کر کے ان کی آئینی تشکیل اس طرح کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے، ان کو آزاد ریاستوں میں گروہ بند کر دیا جائے اور اس طرح تشکیل پانے والی یہ اکائیاں مکمل آزاد اور خودمختار ہوں گی۔
4 ۔ یہ کہ ان اکائیوں میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ، موثر اور لازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی ، ثقافتی ، معاشی ، سیاسی ، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب ، موثر اور لازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے ۔
5 ۔ یہ سیشن مزید برآں عاملہ کمیٹی کو ان بنیادی اصولوں کے مطابق ، دفاع ، خارجہ امور ، مواصلات ، کسٹم اور دیگر ضروری معاملات کے لحاظ سے مفروضے کو حتمی شکل دینے کی غرض سے، آئین سازی کی اسکیم وضع کرنے کا اختیار دیتا ہے۔
آخرکار 7برس کی طویل جدوجہد کے بعد 14اگست 1947ء کو مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک آزاد ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر معرض وجود میں آئی۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال ؒ نے 1930ء میں آلہ آباد میں مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے باضابطہ طور پر برصغیر کے شمال مغرب میں جداگانہ مسلم ریاست کا تصور پیش کیا۔ چودھری رحمت علی نے اس تصور کو 1933ء میں پاکستان کا نام دیا۔ 1930ء سے 1940ء کے دوران بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مل کر عوام کے اندر ایک آزاد وطن کے قیام ا شعور بیدار کیا۔ اور انہیں ذہنی طور پر تیار کر لیا۔ آخر کار 23مارچ 1940ء مسلمان پند نے قرارداد پاکستان منظور کی۔ اس عظیم جدو جہد میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے اس عظیم مشن کی تکمیل میں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ، آغا خان سوم، خان لیاقت علی خان، مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح، محمد ظفر اللہ خان، فضل حق، خواجہ ناظم الدین ، چودھری رحمت علی، نواب بہادر یار جنگ، غضنفر علی خان، حمید نظامی، جی ایم سید، سردار عبدالرب نشتر، حسین شہید سہروردی، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، جلال الدین بابا، ظفر علی خان، مسیح الملک حکیم اجمل خان، بیگم رعنا لیاقت علی، خلیق الزمان، علامہ شبیر احمد عثمانی، شفا الملک حکیم محمد حسن قریشی، ناصر احمد ملہی، بیگم جہاں آرا شاہنواز، محترمہ شیریں جناح، علامہ المشرقی، مولانا ظفر علی خان، زبدۃ الحکما حکیم سید الطاف حسین، مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف، سردار علی صابری، بیگم محمودہ سمیت بہت بڑی تعداد میں انمٹ عہد ساز دانشور شخصیات شامل ہیں۔ تحریک آزادی کی اس تحریک میں وطن عزیز کے تمام مکتبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کارکن جن میں بعض گمنام لوگ بھی شامل تھے، نے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے اور اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کئے۔
ہے بلندی سے فلک بوس نشیمن میرا
ابر کوہسار ہوں گل پاس ہے دامن میرا
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ اپنی فہم و فراست اور عمدہ سوچ کی بدولت پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ اور فسطائیت سے بھرپور گھٹیا، کمتر، گندی سوچ کا حامل ہندو بنیا اندر ہی اندر ان سے خوف زدہ تھا۔ وہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود قائد اعظمؒ اور ان کے جانثار ساتھیوں کو اپنی سوچ اور آزادی کی جدوجہد سے ایک انچ بھی نہ ہٹا سکا، اور آزادی ان کا مقدر بن گئی ۔ قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنی مثبت سوچ کی بدولت اپنوں کو ہی نہیں غیروں کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ ان کی اور ان کے جانباز ساتھیوں کی آواز ہندوستان کے ایوان میں گونجتی رہی۔
1۔ ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں کو آپس میں ملا دیا جائے تاکہ مسلمانوں کو ایک الگ ریاست دی جائے ۔
2۔ جن علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں پر انھیں آئین کے تحت مکمل حقوق اور اختیارات دیئے جائیں ۔
3۔ کیونکہ ہندوستان کا موجودہ آئین مسلمانوں کے حقوق پورے نہیں کرتا اور نہ ہی ان کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ لہذا ہندوستان کے مسلمان اسے قبول نہیں کریں گے۔

جواب دیں

Back to top button