ورلڈ گورنمنٹس سمٹ وزیراعظم کا صائب خطاب

پاکستان ترقی و خوش حالی کی جانب قدم بڑھارہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی صورت مدبر رہنما ملک کو میسر ہیں، جو پوری تندہی سے ملک و قوم کی ترقی کے لیے کوشاں اور انتھک محنت کر رہے ہیں۔ ان کی شبانہ روز محنتوں کے ثمرات بھی ظاہر ہورہے ہیں۔ معیشت درست سمت پر گامزن ہوچکی۔ صنعتوں کا پہیہ تیزی سے چل رہا ہے۔ برآمدات بڑھ اور درآمدات گھٹ رہی ہیں۔ شرح سود میں بہت بڑی کمی آچکی۔ مہنگائی کم ہورہی ہے۔ حکومت کے تحت تمام شعبوں میں اصلاحات کے سلسلے جاری ہیں، جن کے ثمرات ظاہر ہورہے ہیں۔ سرمایہ کاریاں آرہی ہیں۔ دوست ممالک بڑی سرمایہ کاریاں کر رہے ہیں۔ دُنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لیے حالات کو سازگار بنا دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں بھی پیش رفتیں جاری ہیں۔ پاکستان میں افرادی قوت کی چنداں کمی نہیں۔ ہمارے ہنرمند ملک سمیت دُنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوارہے ہیں۔ پاکستان کی خوش قسمتی کہ اُسے 65فیصد نوجوان آبادی کا ساتھ حاصل ہے، جو ملک کی قسمت بدل ڈالنے کی قوت رکھتے ہیں۔ حکومت ملک و قوم کو ترقی کی معراج پر پہنچانے کا عزم رکھتی ہے۔ ملک میں تمام شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے میں مصروف ہے۔ گرین انرجی پر منتقلی کے حوالے سے اس کی کاوشیں جاری ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف متحدہ عرب امارات گئے تھے، جہاں صدر یو اے ای سے بھی ملاقات ہوئی اور مختلف امور پر گفتگو کی گئی۔ وہاں منعقدہ ورلڈ گورنمنٹس سمٹ سے وزیراعظم شہباز شریف نے صائب خطاب کیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر سبز معیشت پر منتقلی مشترکہ ذمے داری ہے، پاکستان کو گرین انرجی پر منتقلی کیلئے 100ارب ڈالر درکار ہیں، حکومت ملک میں ماحول دوست توانائی کے فروغ کیلئے مراعات سمیت دیگر اقدامات کر رہی ہے، پاکستان کی ہنر مند افرادی قوت اور اسٹرٹیجک محل وقوع سرمایہ کاری کیلئے بہترین ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ورلڈ گورنمنٹس سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان اور شیخ محمد راشد المکتوم کی قیادت میں اس سمٹ میں ہم خیال ممالک کو اکٹھا کرنے، ان کے درمیان آئیڈیاز کے تبادلے اور انسانیت کو مستقبل میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے اس اقدام کو سراہتا ہوں، یہ سمٹ انسانیت کے بہتر مستقبل کیلئے چیلنجز اور مواقع پر اجتماعی غوروفکر کا موثر فورم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اجلاس ایسے وقت میں منعقد کیا جارہا ہے جب غزہ المناک تنازع کے تباہ کن اثرات سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے، جہاں 50ہزار کے لگ بھگ فلسطینی شہید ہوئے، فلسطینیوں کی نسل کشی سے پائیدار امن کو دھچکا پہنچا تاہم پائیدار اور منصفانہ امن صرف دو ریاستی حل کے ذریعے ممکن ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ضروری ہے، القدس الشریف جس کا دارالحکومت ہو۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ریزیلینس اور بین الاقوامی تعاون کے عزم کا اعادہ کرتا ہے، متعدد چیلنجز کے باوجود گزشتہ سال کے دوران نمایاں معاشی بہتری آئی ہے، پاکستان معاشی تبدیلی کی راہ پر گامزن ہے، مہنگائی میں کمی آئی ہے جو رواں سال جنوری میں 2.4فیصد رہی، شرح سود 12فیصد پر آچکی، ہم فائیو ایز کے ذریعے قومی اقتصادی ٹرانسفارمیشن پلان پر عمل پیرا ہیں، اڑان پاکستان ملک کی اقتصادی ترقی کا منصوبہ ہے، جس میں برآمدات، ای پاکستان، موسمیاتی تبدیلی، توانائی، انفرا اسٹرکچر، ایکویٹی اور امپاورمنٹ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، اس کا کلیدی ایجنڈا انرجی سیکیورٹی اور پائیداریت ہے جس میں نہ صرف معیشت بلکہ پاکستان ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 2030ء تک 60فیصد کلین انرجی مکس کے حصول کیلئے پُرعزم ہے، 30فیصد گاڑیاں الیکٹرک پر منتقل کی جائیں گی، ہم شمسی، ونڈ، پن بجلی اور نیوکلیئر انرجی کو بروئے کار لانے کیلئے مسلسل اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے جنوبی علاقوں میں 50ہزار میگاواٹ ونڈ انرجی کی بڑی صلاحیت ہے، ناردرن پن بجلی منصوبہ 13ہزار میگاواٹ کلین انرجی کی صلاحیت رکھتا ہے، سولر انرجی آڈپٹیشن میں پالیسی اور ٹیکس اصلاحات، سرمایہ کاری، مراعات اور نیٹ میٹرنگ کے ذریعے تیزی لائی گئی ہے، سولر پینلز اور دیگر آلات پر کسٹمز ڈیوٹی میں رعایت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کاروباری قوانین میں آسانی پیدا کی ہے، قانونی تحفظ کو وسعت دی ہے اور سرمایہ کاری کی منظوری میں بہتری لائے ہیں، پاکستان کو عالمی سرمایہ کاری کا مرکز بنانے کے خواہاں ہیں، خصوصی کاروباری مراکز قائم کیے گئے ہیں، قابل تجدید توانائی پر توجہ مرکوز کی ہے، معدنیات، صنعتوں کی ترقی، زراعت اور تحفظ خوراک ہماری پالیسی کا کلیدی محور ہے۔وزیراعظم کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ گرین انرجی سمیت اُنہوں نے سرمایہ کاری دوست ماحول سمیت دیگر معاملات میں صائب گفتگو کی ہے۔ ماحول دوستی کے لیے حکومت کی جانب سے خاصے اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان تمام معاملات میں بہتری کے لیے حکومتی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ فلسطین کا معاملہ اُنہوں نے ایک بار پھر بھرپور طور پر اُٹھایا اور پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی۔ آزاد اور خودمختار فلسطین ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مہذب دُنیا کو اس حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
درجہ حرارت میں اضافہ، بدترین سیلابوں اور طوفانوں کا خطرہ
ماحولیاتی آلودگی کا عفریت انتہائی بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے۔ سردی اور گرمی کی شدّت میں اضافے دیکھنے میں آرہے ہیں، جس کے انسانوں، حیوانوں اور نباتات پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ نت نئے امراض جنم لے رہے ہیں۔ اطفال اور بزرگ زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ فصلوں پر منفی اثر پڑ رہے اور پیداوار میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ درجہ حرارت میں تبدیلی آرہی ہے۔ دُنیا کے مختلف ممالک میں سیلاب، سمندری طوفان، زلزلے اور دیگر قدرتی آفات نازل ہورہی ہیں۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ 2022ء کے بدترین سیلاب نے وطن عزیز میں بڑی تباہ کاریاں مچائی تھیں دو ہزار لوگ جاں بحق ہوئے تھے جب کہ انتہائی بڑی تعداد میں مال مویشی سیلاب کی نذر ہوگئے تھے۔ گھر سیلابی ریلوں میں بہہ گئے تھے۔ تیار فصلیں برباد ہوگئی تھیں۔ گلوبل وارمنگ لگ بھگ پوری دُنیا کا مسئلہ ہے، جس کے لیے سب اقدامات کررہے ہیں۔ اگر ماحولیاتی آلودگی کے عفریت کو روکا نہ گیا تو اگلے وقتوں میں حالات مزید سنگین شکل اختیار کرنے کا اندیشہ ہے۔ اس متعلق سائنس دان خبردار کرتے رہتے ہیں اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کو بدترین طوفانوں اور سیلابوں کا پیش خیمہ ٹھہرا رہے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کا ریکارڈ توڑ درجہ حرارت اس بات کی علامت ہوسکتا ہے کہ دُنیا گلوبل وارمنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہونے جارہی ہے، جس میں درجہ حرارت 1.5ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی اوپر جاسکتا ہے، جس کا تجربہ انسانوں نے کبھی نہیں کیا۔ رپورٹ کے مطابق پیرس معاہدہ جس میں عالمی حدت میں اضافے کی حد 1.5ڈگری سیلسیس رکھی گئی تھی، اس چھوٹے نمبر کے انسانوں اور فطرت پر بڑے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ خطرے کی علامت ہے، کیونکہ زمین پر حدت میں اضافہ کرنے والے اخراج سے گرمی، بدترین سیلاب، ہیٹ ویو اور طوفانوں کے ساتھ سمندر کی سطح میں اضافے اور جانوروں و پودوں کی مختلف اقسام کے معدوم ہونے کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے۔ اوریگون اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم ریپل کا کہنا ہے کہ اس سطح سے زیادہ درجۂ حرارت شدید موسم، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور انسانوں کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا بالکل درست ہے۔ اگر اب بھی ماحول دوست سرگرمیوں کو فروغ نہ دیا گیا تو آگے چل کر حالات انتہائی گمبھیر ہوسکتے ہیں۔ اس تناظر میں ہمارے ملک کے عوام کا فرض بنتا ہے کہ وہ ماحول دوست سرگرمیوں کو اختیار کریں۔ جس طرح اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اُسی طرح گلی، محلوں اور سڑکوں کو بھی صاف ستھرا رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ عوامی مقامات پر کچرا پھینکنی سے گریز کریں۔ پودے اور درخت لگائیں اور ان کی آبیاری کریں۔