قصہ تمام

تحریر : محمد مبشر انوار( ریاض )
نجانے پاکستان کو کس کی نظر لگی ہے یا اس پر ایسا کون سا آسیب چھایا ہے کہ اس کی مشکلات ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مشکلات مزید بڑھتی جارہی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ آسیب اس کو نگل ہی جائے گا، نعوذ باللہ خاکم بدہن۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مشکلات میں بیرونی عناصر گو کہ اپنی جگہ موجود ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس خطے میں موجود ضد و انا جیسی لعنتوں نے ہمیں اس نہج تک پہنچا رکھا ہے کہ ضد وانا کے چکر میں ہم قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے، اپنی انائوں کی تسکین کے لئے روبہ عمل دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری ضد و انا اتنی طاقتور ہے اور اس قدر بڑی ہے کہ ہم کسی بھی نقصان بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اٹھانے کے لئے تیار نظر آتے ہیں، کسی اصول و ضابطے کی پروا کئے بغیر، قوانین کو اپنی سہولت کے مطابق ترتیب دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اس وقت بھی ہماری صورتحال ایسی ہی نظر آ رہی ہے کہ ایک غلطی کوس سدھارنے کی خاطر ہم مسلسل غلطیوں پر غلطیاں کرتے جارہے ہیں لیکن ایک غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے، قانون کے مطابق روبہ عمل آنے کے لئے قطعی تیار نہیں۔ دنیا ہمیں دیکھ رہی ہے، ہم پر ہمس بھی رہی ہے لیکن چونکہ یہ عدم استحکام اور رسہ کشی بہرطور ان کے مفاد میں ہے بلکہ ان کی خواہشات کے عین مطابق ہے، اس لئے وہ ہمیں ان غلطیوں کو کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ یوں تو ہم ایک آزاد، خودمختار ملک اور قوم ہیں لیکن بدقسمتی دیکھئے کہ ہماری آزادی و خودمختاری کی دھجیاں ایک عالمی مالیاتی ادارہ کس طرح اڑا رہا ہے کہ اس کاایک وفد پاکستان میں موجود ہے ،جو ہمارے معاملات کو دیکھے گا اور ہمیں اس کا اصلاح احوال تجویز کرے گا۔ کسی خودمختار ریاست کے لئے یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ کوئی عالمی مالیاتی ادارہ اس کے اصلاح احوال کا تعین کرے اور تجاویز بھی دے۔ بہرکیف یہ ان ریاستوں میں ممکن ہوتا ہے جہاں اشرافیہ ملک کو ان عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھ چکی ہو، ان عالمی مالیاتی اداروں سے بے تحاشہ قرض لے چکی ہو، جو نہ تو مالیاتی نظام کو بہتر کر پایا ہو اور نہ ہی ان قرضوں سی ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھی ہوں، حقیقت تو یہ ہے کہ ان قرضوں کے بعد رہی سہی معاشی سرگرمیاں بھی بند ہوئی ہیں۔ پاکستان کا سرمایہ کار و صنعتکار درون خانہ حالات سے اس قدر دل برداشتہ ہو چکا ہے اور اشرافیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، اپنی سرمایہ کاری کا بیشتر حصہ بیرون ملک منتقل کر چکا ہے جبکہ باقی ماندہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں۔ صنعتی پہیہ تقریبا بند ہونے کو ہے کہ صنعت کو چلانے کے لئے جن بنیادی عناصر کی ضرورت ہے، وہ پاکستان میں انتہائی گراں ہو چکے ہیں، جن کو تصرف میں لاتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ کسی بھی طرح عالمی منڈی میں اپنی مصنوعات کو بیچا جا سکے۔ پاکستان کی بیشتر مصنوعات خصوصی رعایت یا سہولت کی بنا پر یورپ و امریکہ میں برآمد ہوتی تھی، جہاں کھلی منڈی میں ان سہولتوں کے باعث تاجر اپنی مصنوعات فروخت کرنے کی پوزیشن میں تھا لیکن یہ سہولتیں بھی چند شرائط سے مشروط تھی، جن کی کھلی خلاف ورزی گزشتہ چند سالوں، تقریبا تین سالوں سے یعنی رجیم چینج کے بعد سے، انتہائی زیادہ ہوئی ہیں اور خبر یہ ہے کہ یورپی یونین پاکستان کو دی جانے والی اس سہولت پر ازسرنو جائزہ لینے جارہی ہے ۔ اس جائزے کے نتیجہ میں، کیا پاکستان کو ان شرائط کی خلاف ورزی کے بعد بھی یہ سہولتیں میسر رہیں گی، یہ ملین ڈالر سوال ہے؟، زیادہ امکان اسی امر کا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کی گئی خلاف ورزیاں شدید نوعیت کی ہیں، اس لئے پاکستان کو دی گئی یہ سہولت واپس لے لی جائیگی، اس کے بعد رہی سہی صنعت کی کمر بھی ٹوٹ جائیگی، آنے والے دنوں میں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے، بہرکیف حالات بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
معاشرہ واضح طور پر دو طبقوں میں منقسم دکھائی دیتا ہے ایک طرف غریب و بے بس و لاچار شہری ہیں کہ جن کا کوئی پرسان حال نہیں اور ان کی حالت دن بدن مزید مشکلات کا شکار ہوتی جارہی ہے اور دوسری طرف طبقہ اشرافیہ ہے ،جسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا کہ اس ملک کے تمام تر وسائل پر وہ ہزارپا کی طرح قابض ہیں ۔ قانون سے جس طرح کھلواڑ اس وقت ہو رہا ہے، اس کا تصور بھی کسی معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا بشرطیکہ وہ واقعی عدل و انصاف پر یقین کرنے والا ہو اور اس کی فراہمی کو یقینی بنانے والا ہو۔ اس کے برعکس پاکستان میں عدلیہ جیسے آئینی ادارے کو فتح کرنے کے لئے قوانین بنائے گئے ہیں اور کسی بھی طور عدلیہ سے ایسے ججز کو نکالنا مقصود ہے، جو آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے کی جرآت و ہمت رکھتے ہوں۔ دنیا بھر میں عدلیہ کو آزاد حیثیت حاصل ہوتی ہے اور عدلیہ کے معاملات میں انتظامیہ کا کردار ایک حد تک ہوتا ہے جبکہ انتظامیہ یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ عدلیہ کے کئے گئے فیصلوں پر عملدرآمد کروائے، ایسا خال ہی نظر آتا ہے کہ انتظامیہ و مقننہ مل کر عدالتی فیصلے کا توڑ کرتے دکھائی دیں۔ پاکستانی مقننہ و انتظامیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ عدالتی فیصلوں کے خلاف ایسے قوانین متعارف کروائے ہیں کہ جن کا واحد مقصد ہی ان فیصلوں کے اثر کو زائل کرنا ہے، اس کے لئے وہ کس حد تک گئے ہیں، اس کا اندازہ بلاول بھٹو کے الفاظ میں ’’ جبری اکثریت‘‘ یعنی بروٹ میجورٹی سے قوانین بنائے جانے کا عمل ہے تو دوسری طرف حکومت کی جانب سے کئے گئے ظلم و ستم کی ناقابل فراموش داستان ہے کہ جس میں مخالفین کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ہر فاشسٹ قدم اٹھایا گیا ہے۔ چھبیسویں آئینی ترمیم جس طرح پاکستانی پارلیمان نے منظور کی ہے، اس کی مثال خال ہی پارلیمانی تاریخ میں ملے گی، جبکہ اس سے قبل مخصوص نشستوں کے مقدمہ میں دئیے گئے فیصلے کا اثر زائل کرنے کے لئے، جس طرح قانون بناکر اسے موثر بہ ماضی کیا گیا، ایسی بدنیتی سوائے پاکستان کے کہیں اور نہیں مل سکتی۔ جبکہ آئینی ترمیم کا مقصد ہی یہی تھا کہ کسی طرح بھی ایسے منصف عدلیہ میں نظر نہ آئیں، جو انصاف فراہم کرتے ہوئے، صرف حال کو سامنے نہ رکھیں بلکہ ماضی کے ان حالات کو بھی مدنظر رکھیں کہ جن کے باعث ایسے مسائل نے جنم لیا اور معاشرے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔ اگر مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد ہوجاتا اور اس کا اثر زائل کرنے کے لئے قوانین نہ بنائے جاتے تو عین ممکن تھا کہ معاملات بتدریج بہتر ہوتے اور معاشرے میں ایسا عدم استحکام دیکھنے کو نہ ملتا لیکن ایک طرف ذاتی پرخاش، انتقام تھا تو دوسری طرف ذاتی لوٹ مار کا تحفظ، جس نے فریقین کو یہ گھنائونا کھیل کھیلنے کی اجازت دی۔
بعد ازاں، دیگر قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے، ایک آئینی ادارے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا گیا اور ماہرین قانون بجا طور پر یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ ایسی عدلیہ سے کس قسم کے انصاف کی توقع رکھی جائے کہ جس میں انتظامیہ کو جج تعینات کرنے کا اختیار حاصل ہو، جس میں عدالتی بنچ تک بنانے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس نہ ہو، کیا ایسے ججز حکمرانوں کے خلاف کسی مقدمے کا فیصلہ کر سکیں گے؟ تاریخ میں بہت سے ایسے ججز کا نام محفوظ ہے، جنہوں نے ذاتی مفادات یا عہدے کے لالچ میں عدالتی آزادی کو گروی رکھا ہے لیکن ان کے نام سنہری حروف سے قطعی نہیں لکھے گئے، بلکہ ان پر تبری ہی بھیجا گیا ہے۔ آج بھی صورتحال ایسی ہی ہے اور آنے والا مورخ آج کے ذمہ دار یا عدلیہ کی آزادی گروی رکھنے والے ججز کا نام انہی الفاظ میں لکھے گا، جس کے وہ حقدار ہیں۔ بہرکیف چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی صاحب نے، سینئر موسٹ ججز کے اختلاف کے باوجود نئے ججز کی تقرریوں کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس طلب کر کے، متنازعہ قانون کا فیصلہ کرنے سے قبل ہی تقرریاں کرنے جارہے ہیں، کیا ان نئی تقرریوں کے بعد، متنازعہ قانون کے خلاف فیصلہ دیا جا سکے گا؟، کیا متنازعہ قوانین کے بعد، بھرتی ہونے والے ججز ، ایک ایسے مقدمے کی شنوائی کا حصہ بن سکتے ہیں، جس کے فیصلے سے ان کے مفادات براہ راست جڑے ہوں؟26ویں آئینی ترمیم ہو یا اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تعداد بڑھانے کا معاملہ ہو اور اس کے نتیجہ میں ہونیوالی نئی تقرریاں ہوں، یہ تمام اقدامات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کا ’’ قصہ تمام‘‘ ہو چکا ۔