پاکستان میں کتاب کلچر کی ترویج اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر : شیر افضل ملک
کتاب محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ تہذیب وتمدن، علم و ادب، فکر اور شعور کی بہترین نمائندہ ہوتی ہے۔ یہ انسانی ذہن کو وسعت عطا کرکے تخلیقی بلندی تک پہنچانے کے قابل بناتی ہے، کتاب سوچ کے نئے زاویے فراہم کرتی ہے اور شخصیت سازی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ جن اقوام کے افراد کتاب سے رشتہ جوڑے رکھتے ہیں، وہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں اور دنیا میں اپنی شناخت قائم کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں، جہاں نوجوان آبادی کا بڑا حصہ ہے، وہاں کتاب کلچر زوال پذیر دکھائی دیتا ہے۔ کتابوں سے دوری کا سبب صرف ڈیجیٹل تفریح نہیں بلکہ تعلیمی نظام کی کمزوریاں، مطالعے کے فقدان کو فروغ دینے والے رجحانات اور کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں بھی اس زوال میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ تاہم، یہ صورتحال حتمی نہیں، کیونکہ اگر ایک منظم حکمت عملی کے تحت مطالعے کو فروغ دیا جائے تو کتاب دوستی کو پھر سے زندہ کیا جا سکتا ہے۔ تعلیمی ادارے کسی بھی قوم میں علمی انقلاب برپا کرنے کے ضامن ہوتے ہیں۔ اسکول، کالج اور جامعات میں لائبریریوں کو محض رسمی کتب خانے نہیں بلکہ تحقیق، تخلیق اور فکری آزادی کے مراکز کے طور پر ترقی دی جانی چاہیے۔ طلبہ کو نصابی تعلیم کے ساتھ غیر نصابی کتب کے مطالعے کی جانب راغب کرنے کے لیے تحقیقی سرگرمیوں، مطالعاتی گروپس، اور کتابی مباحثوں کا انعقاد ضروری ہے۔پاکستان میں پبلک لائبریریوں کی تعداد تشویشناک حد تک کم ہے، اور جو موجود ہیں، وہ جدید سہولیات سے محروم یا غیر فعال ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ قومی سطح پر ایک منظم مہم کے ذریعے پبلک لائبریریوں کے قیام اور ان کی بہتری پر توجہ دے۔ انہیں جدید ٹیکنالوجی، ای۔ بکس، ڈیجیٹل آرکائیوز، اور ریسرچ ڈیٹا بیسز سے آراستہ کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ جدید قارئین کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ کتاب میلوں، ادبی نشستوں، اور علمی مکالموں کے ذریعے مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے بڑے کتاب میلوں کی طرز پر ملک کے دیگر شہروں میں بھی ایسی تقریبات منعقد کی جانی چاہئیں تاکہ کتاب کلچر کو معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچایا جا سکے۔ ڈیجیٹل دور میں مطالعے کی عادت کو تقویت دینے کے لیے ای۔ بکس اور آڈیو بکس کے فروغ کی ضرورت ہے تاکہ لوگ موبائل اور دیگر آلات پر بھی کتب سے استفادہ کر سکیں۔ آن لائن ریڈنگ پلیٹ فارمز، ڈیجیٹل لائبریریز، اور سوشل میڈیا کے ذریعے کتابوں کے بارے میں آگہی پیدا کرنا ایک موثر حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ پاکستان میں کتب بینی کے فروغ کے لیے سب سے اہم عنصر نوجوان نسل ہے۔ ان کے اندر توانائی، جوش اور تجسس موجود ہے، جو اگر علم اور تحقیق کی سمت میں مائل ہو جائے تو ایک فکری انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔ انہیں محض نصابی کتب تک محدود رکھنے کے بجائے اسلامی تاریخ، فلسفہ، سائنس، ادب، اور سوانح عمریوں کے مطالعے کی جانب راغب کرنا چاہیے تاکہ ان کی سوچ میں وسعت اور گہرائی پیدا ہو۔تعلیمی اداروں میں بُک کلبز کے قیام سے طلبہ
کے درمیان کتابوں کے تبادلے، مطالعہ کی عادت اور فکری مکالمے کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرتے ہوئے ادبی مباحثے، بک ریویوز اور مصنفین کے انٹرویوز کو عام کیا جائے تاکہ مطالعے کی روایت پھر سے زندہ ہو سکے۔ پبلک لائبریریاں کسی بھی مہذب معاشرے کا علمی، ثقافتی اور فکری سرمایہ ہوتی ہیں۔ یہ محض کتب کے ذخیرے کا نام نہیں بلکہ تحقیق، مطالعے اور فکری تبادلے کے مراکز ہوتے ہیں۔ پاکستان میں پبلک لائبریریوں کو فعال بنانا، ان کے لیے بجٹ میں اضافہ کرنا اور نوجوان نسل کو ان سے جوڑنے کے لیے جدید سہولیات فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔ کتابوں پر ٹیکس کم یا ختم کیا جانا چاہیے تاکہ وہ عام آدمی کی دسترس میں آ سکیں۔ مصنفین اور ناشرین کے لیے مالی معاونت، بلا سود قرضے، اور انعامات کا نظام ترتیب دینا چاہیے تاکہ معیاری علمی مواد کی اشاعت میں اضافہ ہو۔ والدین اور اساتذہ کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں مطالعے کی عادت ابتدائی عمر سے ہی پروان چڑھائیں۔ گھروں میں ایک چھوٹا سا بک کارنر بنایا جائے، جہاں ہر عمر کے افراد کے لیے دلچسپ اور معیاری کتب موجود ہوں ۔ حکومت کو چاہیے کہ تعلیمی پالیسیوں میں مطالعے کی اہمیت کو اجاگر کرے اور نصاب میں غیر نصابی کتب کا مطالعہ لازمی قرار دے۔ خاص طور پر پنجاب میں تیس سال سے بند اسکول لائبریریوں کو دوبارہ کھولا جائے اور لائبریرین کی خالی آسامیوں کو پر کیا جائے، کیونکہ جب کتب خانے ہی غیر فعال ہوں گے تو مطالعے کے فروغ کی امید کیسے کی جا سکتی ہے؟، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پبلک لائبریریوں کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے مہمات چلائیں، وہاں مشاعرے، ادبی نشستیں، اور مطالعہ جاتی پروگرام منعقد کریں۔ تعلیمی اداروں میں ’’ کتاب دوست تحریک‘‘ کے تحت رضاکارانہ مطالعہ مہمات کا آغاز کیا جا سکتا ہے، تاکہ کم عمر بچوں میں بھی مطالعے کا شوق پیدا ہو۔ کتاب کلچر کے فروغ میں کئی چیلنجز درپیش ہیں، جیسے کہ ڈیجیٹل میڈیا کی بڑھتی ہوئی مقبولیت، مہنگے کتب، اور تعلیمی نظام میں مطالعے پر عدم توجہ۔ تاہم، اگر حکومت، والدین، اساتذہ، اور نوجوان مل کر اس ضمن میں مثر اقدامات کریں تو پاکستان میں کتاب دوستی کو دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ہے۔کتاب نہ صرف علم کا سرچشمہ ہے بلکہ تہذیبوں کی محافظ بھی ہے۔ یہی وقت ہے کہ ہم سب مطالعے کی عادت کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں اور علم کے چراغ کو روشن رکھیں تاکہ آنے والی نسلیں بھی اس روشنی سے فیض یاب ہو سکیں۔ علم کے بغیر ترقی ممکن نہیں، اور کتابوں کے بغیر علم کی ترویج ایک خواب ہے۔ کتاب انسانی تہذیب و تمدن کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ یہ علم کا ایسا خزانہ ہے جو نہ صرف فرد کی فکری و ذہنی بالیدگی کا باعث بنتا ہے بلکہ اقوام کی ترقی و استحکام میں بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ کسی بھی ملک کی تعلیمی، ثقافتی، اور علمی پختگی کا اندازہ اس معاشرے میں موجود کتاب کلچر سے لگایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ کلچر زوال پذیر ہوتا جا رہا ہے، اور اس کی متعدد وجوہات میں تعلیمی پسماندگی، جدید ڈیجیٹل ذرائع کی فراوانی، کتب بینی کے رجحان میں کمی، اور حکومتی سطح پر غیر تسلی بخش پالیسیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں، حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے موثر اور پائیدار اقدامات کرے تاکہ ایک علمی و فکری معاشرہ تشکیل پا سکے۔ حکومت کو سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ کتاب صرف معلومات کا ذریعہ نہیں بلکہ فکری آزادی، تخلیقی صلاحیتوں اور معاشرتی ترقی کی بنیاد بھی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں حکومتیں کتب بینی کے فروغ کو قومی پالیسیوں کا حصہ بناتی ہیں۔ پاکستان میں بھی اس کلچر کو بحال کرنے کے لیے تعلیمی اصلاحات، پبلشنگ انڈسٹری کی ترقی، لائبریریوں کی بہتری، اور عوامی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے نظام میں اصلاحات کے بغیر کتاب کلچر کو فروغ دینا ممکن نہیں۔ ہمارے نصاب میں کتابوں کی افادیت پر زور دینا ضروری ہے تاکہ بچے ابتدا ہی سے مطالعے کی عادت اپنا سکیں۔ نصاب میں ایسی کتب شامل کی جائیں جو صرف درسی مقاصد تک محدود نہ ہوں بلکہ بچوں کی تخلیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کو بھی پروان چڑھائیں ۔ ساتھ ہی، اسکولوں اور کالجوں میں لائبریریوں کو لازم قرار دیا جائے اور ان میں معیاری کتب فراہم کی جائیں تاکہ طلبہ میں مطالعے کا شوق پیدا ہو۔ پاکستان میں پبلشنگ انڈسٹری کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ کتب کی اشاعت مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی کے لیے معیاری کتابوں تک رسائی محدود ہو چکی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کتابوں پر عائد ٹیکسوں میں کمی کرے، اشاعتی اداروں کو سبسڈی دے، اور مقامی مصنفین اور ناشرین کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ معیاری اور کم قیمت کتابیں شائع ہو سکیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے کتاب میلوں، ادبی کانفرنسوں اور کتب نمائشوں کو فروغ دینا چاہیے تاکہ عوام کو کتابوں کے قریب لایا جا سکے۔پاکستان میں لائبریریوں کی زبوں حالی بھی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں پبلک لائبریریاں علم کے فروغ میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن پاکستان میں ان کی تعداد نہایت کم ہے اور جو موجود ہیں، وہ بھی حکومتی عدم توجہی کا شکار ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ہر شہر، ہر قصبے اور ہر تعلیمی ادارے میں جدید سہولیات سے آراستہ لائبریریاں قائم کرے۔ ان میں ڈیجیٹل سہولیات بھی فراہم کی جائیں تاکہ نئی نسل جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی کتابوں تک رسائی حاصل کر سکے۔ عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے بھی حکومت کو اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کو کتاب کلچر کے فروغ میں ایک فعال کردار ادا کرنا چاہیی۔ سرکاری اور نجی ٹی وی چینلز پر ایسے پروگرام نشر کیے جائیں جو کتاب اور علم کے موضوعات پر مبنی ہوں۔ اہلِ علم و ادب کی گفتگو، کتابوں پر تبصرے، اور مصنفین کے انٹرویوز نشر کیے جائیں تاکہ عوام میں کتب بینی کی رغبت پیدا ہو۔ سوشل میڈیا کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مختلف حکومتی ادارے کتابوں سے متعلق مہمات چلائیں، کتابوں کی اہمیت پر مضامین اور تجزیے شائع کیے جائیں، اور معاشرتی سطح پر کتب بینی کو فروغ دینے کے لیے تحریکیں چلائی جائیں۔ کتاب کلچر کے فروغ کے لیے عملی اقدامات بھی ضروری ہیں۔ حکومت کو چاہیی کہ وہ ’’ ایک گھر، ایک لائبریری‘‘ جیسی مہمات کا آغاز کرے، جس کے تحت ہر گھر میں کم از کم بنیادی علمی اور ادبی کتب دستیاب ہوں۔ اسی طرح، کتابوں کو تحفے کے طور پر دینے کے رجحان کو فروغ دیا جائے۔ اگر تعلیمی اداروں، سرکاری دفاتر اور عوامی مقامات پر کتابوں کو نمایاں مقام دیا جائے، تو یہ رجحان خود بخود پروان چڑھے گا۔عالمی سطح پر ایسے کئی ممالک ہیں جنہوں نے حکومتی سرپرستی میں کتب بینی کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔ ترکی میں ’’ ہر شہری کے لیے ایک کتاب‘‘ مہم کے تحت عوام کو مفت کتابیں فراہم کی گئیں، جبکہ یورپی ممالک میں لائبریریوں کو جدید سہولیات سے آراستہ کر کے عوام کو مطالعے کی طرف مائل کیا گیا۔ پاکستان میں بھی اس طرز کے منصوبے متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں علمی و ادبی شخصیات نے ہمیشہ کتاب کلچر کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جب تک حکومتی سطح پر سنجیدہ کوششیں نہیں کی جاتیں، تب تک عوام میں کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینا ممکن نہیں ہوگا۔ اگر حکومت موثر حکمت عملی اپنائے، تعلیمی نظام میں اصلاحات کرے، لائبریریوں کی ترقی کو یقینی بنائے، اور اشاعتی صنعت کو سہولتیں فراہم کرے، تو پاکستان ایک بار پھر علمی و فکری ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔
کتاب کلچر کے احیا کے بغیر کوئی بھی قوم ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف ماضی کا ایک خوبصورت خواب نہیں بلکہ مستقبل کی ناگزیر حقیقت بھی ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ حکومت اور عوام مل کر علم و آگہی کے چراغ جلائیں، تاکہ جہالت کی تاریکیاں ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں اور پاکستان ایک باشعور، مہذب، اور ترقی یافتہ قوم کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھر سکے۔
شیر افضل ملک