ColumnImtiaz Aasi

دھرنا جاری رکھنے کا عزم

امتیاز عاصی
پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے جب کبھی مذہبی جماعتوں نے حکومت کے خلاف تحریک چلائی وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مذہبی جماعتوں کی تحریک فیصلہ کن ثابت ہوئی اور ملک میں مارشل لاء نافذ ہو گیا جس کے بعد اقتدار گیارہ برس تک غیر جمہوری قوتوں کے پاس رہا۔ عوام حکومتوں کے خلاف کسی تحریک کا اسی وقت حصہ بنتے ہیں جب انہیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہو اور ان کے حق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہو۔ ملک میں اس وقت کچھ صورت حال ایسی ہے غریب عوام مہنگائی اور بجلی کے بلوں کی ادائیگی سے عاجز آچکے ہیں۔ آزاد کشمیر کے بعد اب وفاق میں بجلی کے بلوں میں ریلیف اور آئی پی پی پیز سے کئے جانے والے معاہدوں کے خاتمے تک تحریک کا آغاز آج جمعہ کے روز وفاقی دارالحکومت کے ڈی چوک سے کیا جا رہا ہے جس میں ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت نے مطالبات کی منظوری تک دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قاضی حسین احمد مرحوم اور مولانا سراج الحق کے بعد جماعت اسلامی کی باگ دوڑ ایک ایسے امیر کے ہاتھ میں آئی ہے جس نے ملک کے سب سے بڑے شہر جہاں کبھی ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا صوبائی اسمبلی کی نشست لینے سے انکار کر دیا۔ جماعت اسلامی کا یہ دھرنا حافظ نعیم الرحمان جیسے متحرک امیر کی قیادت میں وفاقی دارالحکومت میں دیا جا رہا ہے۔ دھرنے کی اہم بات یہ ہے جو مطالبات کی منظوری تک جاری رہے گا۔ شدید گرمی اور حبس کے اس موسم میں جماعت اسلامی کا دھرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس وقت عوام کے ساتھ حکومت نے جو تماشا بنا رکھا ہے اس کی روشنی میں پوری قوم کو جماعت اسلامی کا ساتھ دینا چاہیے۔ مہنگائی، بجلی کے بلوں اور آئی پی پی پیز معاہدوں کے خلاف دھرنے کا مقصد غریب عوام کو سیاست دانوں کی لوٹ کھوسٹ سے بچانا ہے اس لئے پوری پاکستانی قوم کی یہ ذمہ داری ہے وہ اپنے حقوق کے لئے دھرنے میں شریک ہو۔ ہمارا جماعت اسلامی سے کوئی لینا دنیا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے جماعت اسلامی نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات ہے جب کبھی ضرورت پڑی جماعت نے عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لئے جدوجہد کی۔ اس کے ساتھ ہمیں قومی امید ہے پرامن دھرنے کے شرکا ء سے حکومت کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرے گی بلکہ پرامن دھرنے کے شرکاء کے مطالبات پر غور و خوض کے بعد ان کے حل کے لئے جلد سے جلد اقدامات کرے گی۔ بدقسمتی سے ہمارا ملک ابھی تک سیاسی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا رہتا ہے۔ ملک کے دو صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات نے دفاعی اداروں کی تمام تر توجہ دہشت گردی کے خاتمے پر مرکوز کر رکھی ہے۔ دہشت گردی کے نتیجہ میں افواج پاکستان کے بہادر سپوتوں اور شہریوں کی شہادتیں کسی سانحہ سے کم نہیں لہذا ایسے وقت میں ملک میں استحکام کی خاطر حکومت کو دھرنے کے شرکاء کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ ان کے خلاف مقدمات قائم کئے جائیں ۔ حکومت نے ایسی صورت حال پیدا کی تو جماعت اسلامی کے دھرنے میں دیگر جماعتوں کی شمولیت کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا اس وقت پچاس ہزار پاور لومز بند ہیں آئی پی پی پیز بجلی پیدا کریں نہ کریں انہیں اربوں روپے ادا کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا گزشتہ تین ماہ کے دور آئی پی پی پیز کو چار سو پچاس ارب روپے ادا کئے گئے ہیں۔ ان کا یہ مطالبہ بھی ہے سیاسی کارکنوں کو فوری طور رہا کیا جائے اور سیاسی کارکنوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں بند کی جائیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی پر پابندی کا شوشہ چھوڑا گیا ہے اس مقصد کے لئے کابینہ اجلاس طلب کرنے کے باوجود یہ معاملہ موخر کرنا پڑا جس کی اہم وجہ یہ ہے حکومت کی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی پر پابندی کے حق میں نہیں ہے۔ سیاسی سوچ رکھنے والے سیاست دان سمجھتے ہیں پی ٹی آئی پر پابندی لگی
تو کل کلاں کسی اور جماعت کو بھی پابندی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما سید خورشید شاہ کے مطابق پیپلز پارٹی پی ٹی آئی پر پابندی کے حق میں نہیں ہے۔ ان حالات میں حکومت کے لئے پی ٹی آئی پر پابندی لگانا آسان نہیں ہوگا۔ ملک میں استحکام کی خاطر سیاسی جماعتوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند ہونا چاہیے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لئے صدق دل سے کوشش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں سیاست دان سیاسی مخالفت کے باوجود ملکی استحکام کے لئے یکجا نہ ہوں۔ حکومت کو عمران خان کو نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ملک اور عوام کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے معاملات کو حل کرنے کی طرف لے جانا چاہیے۔ آج کسی سیاست دان کے خلاف مقدمات قائم ہو رہے ہیں تو مستقبل قریب میں ایسی صورت حال کسی دوسری جماعت کے رہنمائوں کے ساتھ پیش آسکتی ہے۔ سیاست دان آئین اور قانون کی بات تو کرتے ہیں مگر عملی طور پر آئین اور قانون کی بالادستی نہیں چاہتے۔ سیاسی جماعتیں آئین اور قانون کی بالادستی چاہتی تو ملک کا یہ حال نہیں ہوتا۔ کرپشن میں ملوث سیاست دان آئین اور قانون کی بالادستی نہیں چاہتے انہیں اس بات کا ادراک ہے اگر آئین اور قانون کی عمل داری ہوئی تو وہ اس کی زد میں آسکتے ہیں۔ توقع ہے سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن اور مہنگائی اور بجلی کے بلوں سے تنگ آئے ہوئے عوام جماعت اسلامی کے دھرنے میں بھرپور شرکت کرکے حکومت کو مطالبات کی منظوری پر مجبور کر دیں گے۔ دراصل کسی ملک کے عوام ہی ہوتے ہیں جو حکومتوں کی تبدیلی اور انقلاب کا باعث بنتے ہیں۔ ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں ہم کسی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ گو پاکستان کے عوام ایران کے روحانی پیشوا حضرت آیت اللہ خمینی جیسا انقلاب تو نہیں لا سکتے البتہ اس بات کی قوی امید ہے آنے والے وقتوں میں عوام اپنے جائز حقوق اور لوٹ کھوسٹ کے خلاف باہر نکلیں گے۔

جواب دیں

Back to top button