Column

ہمارا گائوں ’’ برج اٹاری‘‘ اور ہم

تحریر : محمد قاسم آصف جامی
وطن اور مٹی سے محبت فطری و ایمانی تقاضہ ہے اور انسان چاہے دنیا کے جس کونے میں پہنچ جائے لیکن جائے پیدائش اور جنم دھرتی سے اس کی وابستگی اور لگائو کبھی کم نہیں ہوتا۔ وہ گلیاں، وہ چوبارے کبھی اس کی یادداشت سے محو نہیں ہو پاتے جہاں اس کا بچپن گزرا ہوا، اسی الفت اور محبت کا اظہار ہمارے گائوں کے ایک 90سالہ بزرگ حاجی محمد اسحاق صاحب اپنے تاثرات اور جذبات کا اظہار یوں فرماتے ہیں اور ان کی فرمائش پہ وہ احساسات آپ کے پیشِ نظر ہیں! ’’ لاہور سے شرقپور، مانگٹا نوالہ،جڑانوالہ، لائل پور ( موجودہ فیصل آباد) جھنگ اور بھکر تک لے جانے والی قدیم شاہراہ پر لاہور سے 16کلومیٹر دور واقع برج اٹاری میرا گائوں ہے۔ آج سے ایک سو سال پہلے سے شیخو پورہ ضلع اور شاہدرہ ( موجودہ فیروز والا) تحصیل میں واقع ہے۔ سن 1924ء میں ضلع شیخوپورہ کا ڈپٹی کمشنر جو کہ انگریز تھا، شیخوپورہ سے شرقپور شریف نالہ ڈیک کے پُل کا افتتاح کرنے آیا۔ راستے میں برج اٹاری رُکا اور یہاں کے ملک مولا بخش چوہان سے ملاقات کی اور گائوں جس میں صرف لڑکوں کے لیے پرائمری سکول تھا، لڑکوں کے لیے مڈل سکول لڑکیوں کے لیے پرائمری سکول اور رورل ڈسپنسری کے قیام کا اعلان کیا۔ آج کل لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ہائی سکول قائم ہیں ۔ ہمارا گائوں تحصیل اور ضلع میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ یہاں کے وسیع و عریض لہلہاتے کھیت، غلّہ اُگلتے کھلیان اور پھلوں سے بھرے باغات ہمارے گائوں کی شان تھے۔ یہاں کی خوراک یہیں کی پیداوار گندم، مکئی چنا، جو، جوار، باجرہ اور دھان ( مونجی) سے چاول بھی دستیاب تھا۔ تمام اجناس کافی مقدار میں پیدا ہوتی تھیں اور باہر سے کچھ بھی نہیں منگوانا پڑتا تھا۔ گنّا یہاں پیدا ہوتا تھا جس سے ہم گُڑ اور شکر بناتے تھے۔ پھلوں میں امرود سنگترہ، میٹھا، آڑو، آم اور بیر یہاں کی شناخت تھی۔ گائے اور بھینسوں کا تازہ اور خالص دودھ ملتا تھا۔ یہاں کے کسان، ہنر مند اور مزدور بہت محنتی تھے۔ یہاں کے ہنر مند مقامی ضرورت کی اشیاء کھیتی باڑی کا سامان، کنوئیں سے پانی نکالنے والے آلات بار برداری کے لئے گاڑیاں، گھوڑے کا تانگہ، ٹم ٹم اور گدھا گاڑیاں خود بناتے تھے۔ یہاں کا لباس یہیں کے بُنے ہوئے کھدر سے بنایا جاتا گویا ضرورت کی ہر چیز مٹی کے برتن، پائوں کے جوتے تیار ہوتے تھے۔ نیز مقامی طور پر ضرورت کی ہر چیز دستیاب تھی۔
پاکستان معرض وجود میں آنے والی پہلی اسلامی سلطنت کا قیام رمضان المبارک میں لیلتہ القدر اور جمعۃالوداع جمعرات اور جمعہ14 اور 15اگست 1947ء کی درمیانی گھڑی ہوا رات بارہ بج کر ایک منٹ پر مصطفیٰ علی ہمدانی صاحب نے یہ اعلان کیا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے۔ دوسرے دن قائد اعظمؒ نے اعلان فرمایا کہ بھارت 15اگست کو یوم آزادی منائے گا، مگر ہم ایک دن پہلے 14اگست کو یوم آزادی منائیں گے۔ چنانچہ یومِ آزادی پاکستان 14اگست 1947ء قرار پایا۔ میں ( محمد اسحاق) اس وقت ڈسٹرکٹ بورڈ ورنیکلر مڈل سکول کا پانچویں جماعت کا طالب علم تھا۔ وہ لمحات ناقابل فراموش ہیں، ہمارے ہیڈ ماسٹر فضل احمد صاحب کی زیرِ نگرانی پورے سکول نے پہلا یومِ آزادی خوشی سے منایا اور سڑک پر جلوس کی صورت میں اس کا اظہار کیا۔ 15اگست کی رات کو ہم نے اپنے سکول کی عمارت کو مٹی کے دیوں میں سرسوں کا تیل ڈال کر روشن کیا ہر فرد خوشی سے سرشار تھا۔
صدر ایوب خان کے دور میں ہمارے گاں کو یونین کونسل کا درجہ ملااور اس کے پہلے چیئرمین محمد افضل خان مرحوم بنے۔ انہوں نے گاں میں کافی ترقیاتی کام کروائے۔ نالیاں پکی کرائیں اور کچی راہوں سے گزرنے والی نالیوں پر پُل بنوائے۔ اس کے بعد 1964ء میں ملک محمود احمد خاں یونین کونسل کے چیئرمین بنے انہوں نے اور زیادہ ترقیاتی کام کرائے۔ گلیوں اور کچے راہوں پر سولنگ لگوائے، زچہ بچہ سینٹر قائم کیا۔ گائوں کے تما م لوگوں سے اچھے تعلقات بنائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ برج سے تشریف لائے۔
قیاس کے پیشِ نظر اس گاں کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ بُرج کسی بھی سڑک پہ آگے کے رستے کی نشاندہی و آگہی کے لئے موجود ہوتے ہیں یہاں بھی ایک برج موجود تھا جس پہ آگے کے سفر کے متعلق معلومات موجود تھیں اور جھونپڑی کو پنجابی میں ٹارِی کہتے ہیں بھی یہیں موجود تھی جو پھر بگڑتے سنورتے اٹاری کی شکل اختیار کر گیا یوں برج اور ٹاری کے ایک ہی جگہ موجود ہونے کی وجہ سے یہ برج اٹاری کے نام سے مشہور مستعمل ہونے لگا۔ ا س زرخیز دھرتی سے کافی نامور لوگ نکلے ہیں، لاہور میونسپل کارپوریشن کے سیکرٹری چودھری غلام رسول مرحوم، ضلع شیخو پور کے ڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ چودھری محمد شریف مرحوم، ہمارے گائوں کی ہر دلعزیز شخصیت سید منور علی شاہ محکمہ واپڈا میں بہت بڑے افسر رہ چکے ہیں۔ پاکستان ریلوے بورڈ اسلام آباد کے سیکرٹری میاں محمد دین مرحوم اسی گائوں کے باشندے تھے۔ یہاں سے ڈاکٹر حبیب اللہ بھی محکمہ صحت میں ضلع شیخوپورہ کے انچارج سی ڈی سی آفیسر رہے ہیں۔ احمد حسین چوہان ریٹائرڈ سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس گوجرانوالہ، چودھری سجاد احمد بھٹی انکم ٹیکس آفیسر ضلع شیخوپورہ جو ابھی حیات ہیں کا تعلق بھی اسی گاں سے ہے۔ شیخ رشید احمد مرکزی وزیرِ صحت پیپلز پارٹی 1970ء بھی ہمارے سکول کے ہی طالب علم تھے۔ آج کل ملک شفقت محمود چوہان سابقہ صدر لاہور ہائی کورٹ بار اور موجودہ ممبر پاکستان بار کونسل بھی ہمارے ہی گائوں سے ہیں۔ علیٰ ہذالقیاس یہاں سے اور بھی لوگ اچھی اچھی ملازمتوں پر فائز رہے ہیں اور آج کل بھی پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز اور وکلا مختلف سرکاری محکموں میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ہمارے اردگرد کے دیہاتوں سے بھی کئی لوگ اچھی اچھی ملازمتوں پر فائز رہے ہیں انہوں نے بھی ہمارے گائوں کے گورنمنٹ سکول سے ہی تعلیم حاصل کی تھی۔
مین بازار چوہاناں خورد کی مرکزی مسجد کی تعمیرِ نو 1952ء میں ملک محمد افضل خان اور میاں غلام محمد کی زیرِ نگرانی سارے گائوں نے مل کر کرائی اور موجودہ مسجد کی تعمیر ملک محمد افضل کے بیٹے حاجی محمد ایوب اور راقم محمد اسحاق نے مل کر 1994ء سے دوبارہ تعمیر نو کا ارادہ کیا اور 6اپریل 1996ء کو پرانی مسجد کو شہید کر کے موجودہ مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا جوکہ پورے گائوں کی پُر خلوص مدد اور ہمت سے ابھی تک جاری ہے اور مسجد احاطہ میں بہت زیادہ توسیع ہو چکی ہے۔ مسجد میں ماشاء اللہ لڑکوں اور لڑکیوں کو ناظرہ قران پڑھانے کے لیے نمازِ فجر کے بعد کلاسز لگائی جارہی ہیں جس میں تقریباً 175سے 200تک بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور 10سے زائد حفاظِ کرام ان کو تعلیم دے رہے ہیں۔ حفظ کی دو کلاسیں جس میں تقریباً 35 بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں اسی مسجد میں قائم ایک قدیم و معروف دینی ادارے سے عالمِ دین بھی پیدا ہور ہے ہیں۔ ہمارے گائوں کے ایک فرد اور یہیں سے تعلیم حاصل کرنے والے ہونہار طالب علم محمد قاسم آصف جامی نے درسِ نظامی کے پہلے سال سے دورہ حدیث تک تمام اسلامی علوم کے امتحانات میں پورے پاکستان کے مدارس میں چار دفعہ پہلی پوزیشن حاصل کر کے گاں کا نام روشن کیا ہے اور اب مفتی کورس کے ساتھ ساتھ ایم فل اسلامیات بھی کر رہے ہیں۔ عمرے کی سعادت کے علاوہ ملکِ شام اور بحرین کے علمی و تحقیقی دورے بھی کر رکھے ہیں اور بھی ملکی سطح پر کئی انعامات حاصل کرنے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ 12ربیع الاول کے دن عید میلاد النبی ٔ یہاں خصوصی طور پرمنائی جاتی ہے۔ ایک فقید المثال اور عظیم الشان محفلِ میلاد بھی منعقد کی جاتی ہے جس میں اردگرد کے 50سے زائد گائوں اپنے اپنے علاقوں سے جلوس لے کر اسی گائوں میں
شامل ہوتے ہیں۔ اور حسبِ توفیق ان میں تبرک اور لنگر بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم کی بدولت ہمارے اس گائوں کو علاقہ میں ایسا مقام حاصل ہے کہ پورے روڈ پہ یہ ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارا گائوں لاہور سے نزدیک ہے اور شیخوپورہ سے دور ہے مگر دونوں اضلاع کی طرف سے یہاں پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ برلبِ سڑک ہے اور نئے تعمیر ہونے والی کئی ہائوسنگ سوسائٹیز کے درمیان واقع ہے لیکن گندگی سے بھرپور ہے۔ صاحبِ اقتدار لوگوں سے درخواست ہے کہ اس کے گندے پانی کے نکاس اور صفائی پر توجہ دی جائے اور گائوں کی صفائی کا انتظام جائے۔ علاقے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے ڈگری کالجز کا قیام عمل میں لایا جائے کیونکہ علاقہ کی آبادی میں کافی اضافہ ہو چکا ہے اور بچوں اور بچیوں کو تعلیم کے لیے لاہور جانا پڑتا ہے۔ کثیر آبادی کی ضروریات کے لئے یہاں پر بہترین ہسپتال جس میں زچہ بچہ، ایمرجنسی اور صحت عامہ کے علاج معالجہ کی خصوصی سہولیات موجود ہوں، کی بھی اشد ضرورت ہے۔ محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم کی زمین یہاں موجود ہے جو ویران پڑی ہوئی ہے۔ لائبریری کا قیام بھی ناگزیر ہے اور ٹرانسپورٹ کے لئے سپیڈو بس سسٹم بھی اس روڈ کی ضروریات میں سے ہے۔ اس گائوں اور علاقہ کے نو جوانوں، دانشوروں اور بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کی بقا اور خوشحالی کے لئے کردار ادا کریں اور اپنے گائوں کو مثالی بنانے کے لیی بھی جدوجہد کریں‘‘۔

جواب دیں

Back to top button