Column

میں کیوں خاموش تھا ؟

تحریر : امجد آفتاب
مجھے پچھلے کئی دن سے بلکہ دو تین ماہ سے اپنے حلقہ احباب اور قارئین کی طرف سے مسیجز موصول ہو رہے ہیں کہ آپ کا ناں تو کوئی نیا آرٹیکل پڑھنے کو ملا ہے اور نا ہی کوئی تحریریں پڑھنے کو مل رہی ہیں، آپ کی طرف سے مکمل خاموشی ہے خیریت ؟
حلقہ احباب اور قارئین کے گلے شکوے بجا ہیں کیونکہ گزشتہ دو تین ماہ سے میں نے اخبار کے لیے کوئی نیا کالم نہیں لکھا اور نہ ہی سوشل میڈیا پر کوئی تحریریں شئیر کیں، اِس کی بھی بہت سی وجوہات ہیں۔
سب سے بڑی وجہ کہ میں پاکستان کا ایک ’’ عام آدمی‘‘ ہوں اور پاکستان میں رہنے والے عام آدمی کی طرح اس ملک میں زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہا ہوں۔ میری طرح پاکستان کا ہر عام آدمی اس ہوشربا اور کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہو گا۔ جہاں ایک عام آدمی کے لیے دو وقت کے کھانے کے حصول کے لیے جان کے لالے پڑے ہوں وہاں وہ کیا لکھے گا اور کیا سوچے گا ؟۔
بہرحال پچھلے دو تین مہینوں میں مملکت خداداد میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی تبدیلی نئی حکومت کا قائم ہونا جی ہاں میاں شہباز شریف صاحب کا دوبارہ وزیراعظم کی کرسی پر براجمان ہونا اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے منصب پر مریم نواز صاحبہ کا بیٹھنا شامل ہے۔ میں مریم نواز کا ایک زمانے میں فین ہوتا تھا اور کیوں، کس وجہ سے وہ کسی اور دن سہی۔
بہرحال، اس دو تین ماہ کے عرصے میں بہت سارے دکھوں کا سامنا کرنا پڑا کچھ ذاتی نوعیت کا مسائل میں زندگی گھری رہی اور بہت سارے مسائل اور پریشانیاں وہی ہیں جو عام آدمی کے روز مرہ کے دکھ ہیں، پتہ نہیں ان مسائل سے کب جان چھوٹے گی اور عام آدمی کی منجھدار میں پھنسی کشتی کب بھنور سے نکلے گی کچھ معلوم نہیں۔
بیچارے پاکستان کے عام آدمی کو ہر آنے والی حکومت سے ایک امید سی لگی رہتی ہے کہ شاید یہ ان کے مسائل حل کر دے گی مگر آخر میں سب تدبیریں الٹ ہو جاتی ہیں۔
میری تحریریں زیادہ تر پاکستان کے عام آدمی کے لیے ہوتی ہیں کیونکہ میں اسی جگہ بیٹھا ہوں اور اسی کرب میں مبتلا ہوں جس میں پاکستان کا ہر عام آدمی مبتلا ہے۔
اس وقت عام آدمی اس سوچ میں گم ہے کہ موجودہ
شہباز حکومت کیسے اس کے حالات کو بہتر کرے گی؟
کیسے اس کی کشتی کو بھنور سے نکالے گی؟ نکالے گی بھی یا مزید اس کشتی کو ڈبونے کا بندوبست کرے گی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر گزشتہ چند ماہ کی حکومت نے عوام کی چیخیں نکال دیں۔ مہنگائی کا جن بے قابو ہے اور روز بروز بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے عام عوام فاقوں اور خود کشیوں پر مجبور ہے۔ بے روزگاری انتہا کو چھو رہی ہے نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے روزگار کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ ملک میں امن و امان کی مخدوش صورتحال ہے جہاں پر دہشتگردی کی خطرناک لہر پیدا ہے ۔
دہشتگردوں کیخلاف جنگ لڑتے ہوئے آئے روز ہمارے جوان شہید ہو رہے ہیں.ملک کے سب سے بڑے تجارتی شہر کراچی کی یہ صورتحال ہے کہ دن دیہاڑے اور ڈنکے کی چوٹ پر ڈکیتیاں عروج پر ہیں۔ کراچی میں لوگ اپنے گھروں کی دہلیز پر بھی محفوظ نہیں۔ ڈکیتی کے دوران عام آدمی مزاحمت تو دور کی بات اگر تھوڑا سا شور بھی کرتا ہے تو اس کو موقع پر ہی بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔ والدین کے سامنے ان کی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سندھ کے اندرونی اضلاع لاڑکانہ،شکار پور،کشمور،گھوٹکی اور پنجاب کی تحصیل روجھان مزاری میں کچے کے ڈکیت دن دیہاڑے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ ارد گرد اور دیگر اضلاع کے افراد کو اغوا کر کے کچے کے علاقوں میں لے جایا جاتا ہے اور ان کی رہا کرنے کے بدلے ان کے اہلخانہ سے موٹی تاوان کی رقم کی ڈیمانڈ کی جاتی ہے۔ تاوان کی رقم نا ملنے کی صورت میں ان کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ یہ واضح طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے اور ہماری ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے جہاں کے شہری امن و امان کے ساتھ نہیں رہ سکتے اور محفوظ طریقے کے ساتھ ایک شہر سے دوسری شہر تک سفر بھی نہیں کر سکتے۔
یقین جانیں عام آدمی کی زندگی اس ملک میں اجیرن ہو چکی ہے، زندہ رہنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔
ان حقیقی مسائل کے علاوہ ہم اخلاقی طور پر پر بھی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ عام آدمی اور ان کے اہل و عیال کو روندنے ان کی عزت نفس کو مجروح کرنے ان پر ظلم کرنا جیسے ایک ٹرینڈ بن گیا ہے ان پر کوئی رحم کھانے کو تیار نہیں ۔ اس کی مثال اُس ویڈیو میں دیکھ لیں جب ایک عام آدمی جو بیرون ملک سے واپس اپنے پیارے ملک واپس آ رہا تھا اس عام آدمی کو رسیو کرنے اس کے اہل و عیال کراچی ایئر پورٹ پر پہنچے اور جیسے ہی بچی نے والد کو دیکھا تو اس کو گلے لگانے کے لیے اس کی جانب دوڑی مگر کراچی ایئر پورٹ کے اے ایس ایف کے درندہ صفت انسان نے اس کو بالوں سے پکڑ کر پیچھے دھکیل دیا جس کی وجہ سے وہ معصوم بچی نیچے گر گئی اور روتے ہوئے جا کر باپ کو اُس آفیسر کی متکبرانہ عمل کی شکایت کی مگر وہ بے بس عام آدمی اور مجبور باپ اپنی بچی کو کیسے بتاتا کہ یہاں صرف اشرافیہ کو عزت دی جاتی ہے پاکستان کے ہر عام آدمی اور اس کے بیوی بچوں کے ساتھ یہی سلوک رکھا جاتا ہے۔ وہ بیچارہ اپنی بیٹی کو یہ کیسے بتاتا کہ اس ملک میں عام آدمی صرف ظلم سہنے کے لیے زندہ ہے اور اپنے اوپر بیتے ظلم کی شکایت کرنے کی بھی اسے اجازت نہیں مگر ہاں،
وہ خاموشی اور صبر سے اللہ کی عدالت میں ضرور شکایت کر سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button