Column

حکمت کے موتی

تحریر: صفدر علی حیدری
حضرت علیؓ کو بجا طور پر حکیم اسلام کہا جاتا ہے۔ آپ علم و حکمت کا دروازہ ہیں ۔ اور کیوں نہ ہوں ،آپؓ رسالت مآبؐ کے شاگرد رشید ہیں ۔ آپؓ کے علاوہ کس کو ان کی اتنی زیادہ صحبت نصیب ہوئی ہو گی۔ آپؓ نے بیت اللہ میں جنم لینے کے بعد پہلی بار جس چہرے کی زیارت کی وہ نبی آخر الزماںؐ کا رخ انور تھا ۔ جناب ابو طالب کثیر العیال تھے سو جناب امیر کو آپ نے گود لے لیا۔ ساتھ ساتھ رکھتے۔ علم و حکمت کی باتیں سکھاتے۔ جناب رسالت مآبؐ نے آپؓ کی ایسی تربیت کی دنیا میں آپؓ ایک مثالی انسان بنے ۔ علم و حکمت کا میدان ہو رزم گاہ علیؓ مولا ہی ہمیں غالب نظر آتے ہیں ۔ آپؓ جہان بھی گئے فاتح ٹھہرے ۔ آپؓ کے اوصاف اتنے ہیں کہ انھیں بیان کرنا ممکن نہیں۔
آپؓ کی شان کے لیے یہی کافی ہے کہ جناب رسولؐ اللہ نے انھیں دنیا و آخرت میں اپنا بھائی قرار دیا ۔ آپؓ کے لیے اس سے بڑھ کر فخر کا مقام کیا ہو کہ نسل رسولؐ آپؓ ہی کے گھر سے چلی ۔ دنیا میں آج بھی جہاں جہاں سادات کرام موجود ہیں وہ آپؓ کی نسل پاک سے ہیں ۔
بقول شاعر
علیؓ کے بعد اولاد علیؓ کی یوں گزری
کہیں قید ہوئی اور کہیں شہید ہوئی
آپؓ کے فرامین کو ’’ فوق کلام المخلوق و تحت کلام الخالق‘‘ کی سند حاصل ہوئی ۔ کہتے ہیں حکمت مومن کی میراث ہے اور علیؓ امیر المومنین ہیں ۔ نہج البلاغہ آپ کی حکمت کا حکمت کا ثبوت ہے جو مومنین کے اذان و قلوب کو منور کیے دے رہی ہے ۔
آپؓ خود اپنا تعارف کرواتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ کوفہ کے منبر سے سلونی سلونی کہنے والے علیؓ بولے ۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے پوچھو ۔۔۔ رسولؐ خدا کیسے تھے کیا کیا کرتے تھے اور کیا بولتے تھے۔۔۔۔۔۔ میں علیؓ وہ ہوں جس نے آنکھ کھولی تو سب سے پہلے رسولؐ خدا کا چہرہ دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ بچپن میں رسولؐ خدا کے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹ کا بچہ اونٹنی کے پیچھے چلتا ہے۔۔۔ میں علیؓ وہ ہوں جب جوان ہوا تو لوگ تلوار نیزے لے کر میرے رسولؐ کو مارنے آتے تھے ۔۔۔ میری تلوار نے رسولؐ کے دشمنوں کو کاٹ دیا تھا۔۔۔۔ میں علیؓ وہ ہوں جس نے دنیا میں آخری مرتبہ رسولؐ خدا کا چہرہ دیکھا ۔۔۔۔ ‘‘
آئیں ان کے ایک فرمان کا بغور جائزہ لیتے ہیں جہان عرفان کی اساس قرار دیا گیا ہے۔ جس کے بارے میں خود آپؓ نے فرمایا تھا میری اس بات کو لکھ لو، اونٹوں پر بیٹھ کر بھی ڈھونڈنے نکلو گے تو یہ باتیں تمھیں ملیں گی نہیں ۔
پہلی بات یہ کہ امید صرف اپنے رب سے رکھو۔
گویا ہماری امیدوں اور آرزئوں کا مرکز صرف اور صرف ذات باری ہے۔ توحید کا تقاضا یہ ہے کہ وہ احد ہے، اس جیسا کوئی نہیں ہے۔ تو ہماری امیدوں کا مرکز بھی وہی ہونا چاہیے۔
دوسرا حصہ یہ ہے کہ صرف اپنے گناہوں سے ڈرو۔
گویا انسان کو خطرہ کسی اور سے نہیں خود اپنی ذات سے ہے۔ خارج میں نہیں ہے باطن میں ہے۔ وہ خود سے ہارتا ہے اور بار بار ہارتا ہے
میں خود تھا اپنی ذات کے پیچھے پڑا ہوا
میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا
انسان کے گناہ اس کی نیکیوں کو کھا جاتے ہیں ، رزق عمر اور برکت ختم کر دیتے ہیں ۔ نیک کام کی توفیق سے محروم کر دیتے ہیں۔
تیسرا حصہ یہ ہے کہ اگر کسی چیز کا علم نہیں ہے تو جاننے کے لیے سوال کرنے سے مت گھبرائو ۔
اگر ہم سوال سے یہ سوچ کر گھبرائیں گے کہ کہیں لوگ ہمیں لاعلم اور جاہل نہ سمجھ لیں تو یقینی طور پر ہم علم سے محروم رہیں گے اور اپنی لاعلمی پر قانع ۔ ایک طالب علم جاننے کے معاملے میں حریص ہوتا ہے تبھی وہ علم کے بڑے رتبے پر پہنچتا ہے
چوتھا حصہ یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان کو کسی بات کا علم نہیں تو وہ یہ کہنے میں عار محسوس نہ کرے کہ میں نہیں جانتا اور و اللہ اعلم ۔
انسان اگر گھبرا کر غلط معلومات فراہم کرے گا تو اصلیت سامنے آنے پر اس کی شخصیت اوج ثریا سے تحت الثریٰ میں جا گرے گی
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ لاعلمی کا علم ہونا بھی ایک علم ہے۔ ارسطو نے اپنے اور اپنے شاگردوں کے درمیان یہی فرق بتلایا تھا
تم نہیں جانتے کہ کچھ نہیں جانتے جبکہ مجھے پتہ ہے میں کچھ نہیں جانتا
اس فرمان کے آخری حصے کے مطابق صبر کو ایمان میں وہی مقام حاصل ہے جو انسانی وجود میں سر کو حاصل ہےسورہ عصر میں بھی تو بھی کامیاب لوگوں کی چوتھی صفت یہی بیان کی گئی ہے وہ صبر کی نصیحت کرتے رہتے ہیں ایمان کے دو بازو ہیں ایک صبر دوسرا شکر۔
دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
روایات میں ملتا ہے کہ ایک بار مولا علیؓ نے ایک آدمی کو دعا کرتے دیکھا ۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ یا اللہ مجھے صبر کی توفیق دے‘‘
آپؓ نے اسے ٹوکا اور فرمایا کہ دعا یوں مانگو ’’ اے اللہ مجھے شکر کی توفیق عطا فرما‘‘
اس نے وجہ پوچھی تو فرمایا’’ صبر مصیبت کے بعد آتا ہے جبکہ شکر نعمت کے بعد‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس فرمان کی روشنی میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button