ColumnImtiaz Aasi

حکومت مخالف گرینڈ الائنس

امتیاز عاصی
عام انتخابات کی متاثرہ جماعتیں حکومت کے خلاف گرینڈ الائنس بنانے میں کامیاب ہو گئیں ۔ حکومت مخالف جماعتوں کے الائنس میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے سوا دیگر جماعتوں میں سٹریٹ پاور کا فقدان ہے۔ مذہبی جماعتوں میں جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جس کی تاریخ اپنے کارکنوں کی شہادتوں سے لبریز ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ تنظیموں، پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن اور پی ایس ایف اور اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی نے پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ نون اور جماعت اسلامی کو بہت نقصان پہنچایا۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی سے آنے والے وقتوں میں لیڈرشپ کا قحط پڑ گیا۔ طلبہ تنظیموں سے وابستہ اس دور کے لوگ آج بھی مسلم لیگ نون کی حکومت کا حصہ ہیں۔ حکومت مخالف الائنس نے 16اپریل کو پہلا جلسہ کوئٹہ میں کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پشتونخواہ ملی پارٹی کے محمود خان اچکزئی حکومت مخالف الائنس کا سربراہ مقر ر کیا گیا ہے۔ بی این پی، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین گرینڈ الائنس کا حصہ ہیں۔1970 ء میں ہونے والے انتخابات پر نظر ڈالیں تو حقیقت آشکار ہوتی ہے پی ٹی آئی کی طرح دو معتوب سیاسی جماعتوں کو الیکشن سے باہر رکھنے کی کوشش کے باوجود انہی دو پارٹیوں کو عوام نے ووٹ دے کر کامیاب بنایا۔ مشرقی پاکستان میں عوامی مسلم لیگ جس کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان تھے جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا عوام نے انہی دونوں جماعتوں کو کامیاب کرکے جمہوریت کا راستہ روکنے والی قوتوں کو سخت پیغام دیا۔ سیاسی جماعتوں کے گرینڈ الائنس کے پاس حکومت مخالف تحریک چلانے کے لئے ایک اچھا موقع ہے۔ پی ڈی ایم اور موجودہ سیٹ اپ ایک تھالی کے چٹے بٹے ہیں جیسا کہ سترہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت عوام کو کوئی ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی نہ آئندہ اس حکومت سے عوام کا یہ بڑا مسئلہ حل ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ حکومت میں موجودہ لوگوں کا مطمع نظر عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے ذاتی مفادات ہیں۔ اقتدار میں آنے والوں میں حکمرانی کی ذرا سی اہلیت ہوتی وہ ملک کے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لئے ہنگامی طور پر اقدامات کرتے۔ دراصل مہنگائی نے اپوزیشن کا کام آسان کر دیا ہے وہ جلسوں میں حکومت کی اس کمزوری سے بھرپور فائدہ اٹھائے گی۔ حکومت مخالف جماعتوں کے گرینڈ الائنس کی خاص بات ان کا مطالبہ ہے ملک میں عام انتخابات ازسر نو کرائے جائیں۔ ہم پی ٹی آئی دور سے موجودہ دور کا موازنہ کریں تو حقیقت سامنے آتی ہے آٹا، چینی دالیں اور پٹرول سستا تھا۔ عمران خان نے کرونا کے دوران عالمی بینک سے ملنے والی امداد کو خوش اسلوبی سے عوام میں تقسیم کیا یہی وجہ ہے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں پی ٹی آئی دور میں کوئی سکینڈل سامنے نہیں آیا۔ اسی دور میں صحت کارڈ کی سہولت سے غریب اور امیر لوگوں نے بھرپور استعفادہ کیا۔ گزشتہ دور میں ترسیلات زر 32ارب تھیں جو کئی گنا کم ہو چکی ہیں۔ موجودہ حکومت معاشی بحران سے نپٹنے کے لئے ملک کے ہوائی اڈے اور قومی اداروں کو آئوٹ سورس کرنے کی طرف گامزن ہے جو اس امر کا واضح ثبوت ہے حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے اور معیشت کی بہتری کے لئے کوئی ٹھوس پروگرام نہیں ہے۔ جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کے الائنس کی بات ہے ابھی تک یہ بات واضح نہیں آیا اپوزیشن جماعتوں کا الائنس کا مقصد صرف ملک میں جلسوں کا انعقاد ہے یا پھر وہ عوام کو سڑکوں پر بھی لائیں گے۔ اگرچہ سانحہ نو مئی میں پی ٹی آئی کے بے شمار ورکرز جیلوں میں ہیں تاہم اس کے باوجود یہ امید کی جا سکتی ہے اگر اپوزیشن نے عوام کو سڑکوں پر آنے کی کال دی تو مصائب کی مارے عوام سڑکوں پر ضرور آئیں گے۔ اس حقیقت میں دو آراء نہیں اپوزیشن جماعتوں میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی واحد جماعتیں ہیں جن کے ورکرز سڑکوں پر آنے میں دیر نہیں کریں گے۔ ایک معاشی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو آئندہ دو تین سال میں ایک سو ستائیس ارب ڈالر کی ضرورت ہوتی گی جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ہماری معاشی صورت حال کس قدر خستہ حال ہے۔ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے ملک میں انتخابات جب بھی ہوئے متنازعہ رہے کوئی جماعت شکست تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتی۔ حالیہ الیکشن میں جو کھلواڑ ہوا اس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی جس کے باعث ملک میں سیاسی عدم استحکام برقرار ہے۔ آئی ایم ایف سر پر بیٹھا ہے اپوزیشن کی احتجاجی تحریک سے آئی ایم ایف پروگرام پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اب تو دوست ملک قرض دینے سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔ یہ ہماری ناقص معاشی پالیسیوں کا نتیجہ ہے ہمارا ملک مقروض سے مقروض تر ہو رہا ہے غریب عوام مہنگائی تلے دب چکے ہیں۔ جہاں تک اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک کی بات ہے اگر اپوزیشن نے عوام کو سڑکوں پر آنے کی کال دی یہ بات یقینی ہے عوام کا سمندر سڑکوں پر ہوگا۔ حکومت نے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے لئے ابھی تک کوئی ٹھوس حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا ہے بلکہ اس کی نظریں آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض پر ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے انتخابات میں مبینہ دھاندلی نے سیاسی جماعتوں اور عوام کو مایوس کیا ہے اپوزیشن جماعتوں کے الائنس کی اسی صورت میں ضرورت پڑتی ہے جب عوام کے مینڈیٹ کے برعکس سیاسی رہنمائوں کو اقتدار میں لایا جائے۔1985 ء کے بعد سے ہمارا ملک تاجر پیشہ لوگوں نے وقفے وقفے سے یرغمال بنائے رکھا جو ابھی تک جاری ہے۔ عوام پرانے چہروں سے بے زار ہو چکے ہیں۔ عمران خان کو لوگوں نے تبدیلی کے نام پر ووٹ دیا تھا اگرچہ وہ تبدیلی نہ لا سکا کیونکہ اس کے ہاتھ پائوں باندھے ہوئے تھے البتہ ملک و قوم کو لوٹنے والوں سے لوگوں کو ضرور متعارف کر ا دیا۔ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ ملنے کی بڑی وجہ عوام تبدیلی کے خواہاں ہیں وہ کسی صورت مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتے۔ بہرکیف اپوزیشن کا گرینڈ الائنس کس حد تک کامیاب ہوتا ہے اس کا آنے والے وقت میں علم ہو جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button