ColumnImtiaz Aasi

آزاد عدلیہ کے آزادانہ فیصلے

امتیاز عاصی
مغربی دنیا کے عدالتی نظام کے پرنظر ڈالیں تو رشک آتا ہے۔مہذب معاشروں میں آزاد عدلیہ وہاں کے رہنے والوں کے لئے امیدکی آخری کرن ہوتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارا ملک عالمی دنیا کی نظروں میں تماشا بنا ہواہے۔ عدلیہ کے دوہرے معیار کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جسے صادق اور امین قرار دیا وہ جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔جب کہ ایک سیاست دان کو بیرون ملک جائیدادیں ڈکلیر نہ کرنے کی پاداش میں مبینہ طور پر کرپٹ قرار دیا تھا وہ وزارت عظمیٰ سنبھالنی کی تیاریوں میں ہے۔سرور کائنات نبی کریمؐ نے14 سو برس قبل فرمایا تھا جن قوموں میں انصاف نہیں ہوتا وہ صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ہماری تباہی میں کون سی کسر باقی ہے ہمارا ملک مقروض ترین ہے معاشی تباہی میں سرفہرست ہے۔عدالتی نظام پر سوال اٹھ رہا ہے گزشتہ کئی سال سے توشہ خانہ مقدمات زیر التواء ہیں عدلیہ کو ان کا فیصلہ کرنے کی فرصت نہیں جب کہ ایک سابق وزیراعظم کو پے درپے دو مقدمات میں سزائیں دے دی گئی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وکلا تحریک میں ہر مکتب فکر کے لوگوں نے حصہ لے کرعدلیہ کو آزاد کرایا تھا وقت گزرنے کے ساتھ عدلیہ ایک مرتبہ پھر دبائو کا شکار ہے۔عمران خان کے وکیل حامد خان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو میں تبایا وہ سزائوں کے خلاف اپیلیں دائر کریں گے ۔عدلیہ پر دبائو تھا جس سے فیئر ٹرائل نہیں ہوا ہے۔تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے نواز شریف، آصف علی زرداری، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز کے خلاف توشہ خانہ کے مقدمات جوں کے توں پڑے ہیں۔عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں رہی ہے ہماری عدلیہ آزاد نہیں ہے بلکہ دبائو کا شکار ہے۔درحقیقت جج صاحبان کو پرواز کرنے کوجاتاہے لیکن پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔عدالتی نظام مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ہم بیرونی دنیا کے نظام عدل پر نظر ڈالیں تو کسی موڑ پر کسی سے جانبداری کا شائبہ دکھائی نہیں دیتا۔یہ آزاد عدلیہ کا نتیجہ تھا امریکی صدر نکسن کو واٹر گیٹ سکینڈل میں مواخذے کا سامنا کرنا پڑا ۔برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کو عراق پر غلط معلومات کی بنا حملہ کرنے کی پاداش میں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔جنوبی کوریا کی ایک صدر کو کرپشن میں سزاء ہوئی جس نے اپنی سہیلی کی وساطت سے رشوت لی تھی۔برازیل کے صدر کو کرپشن میں سزاء ہوئی جب کہ اسرائیل کا صدر کرپشن میں سزایاب ہونے کے بعد ابھی تک جیل میں ہے۔ عدالتی نظام کی خرابی کی واضح مثال ذوالفقار علی بھٹو کیس سب کے سامنے ہے ۔ایک وزیراعظم کو تختہ در پر چڑھانے کے بعد عدلیہ سے ہی فیصلے کے خلاف آواز اٹھتی ہے۔ ملکی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کسی ملزم کو سزا یاب ہونے کے بعد جیل سے علاج معالجہ کے لئے بیرون ملک بھیجا گیا ہو ۔اس کے برعکس بے شمار قیدی جنہیں اپنے ملک کے ہسپتالوں میں علاج معالجہ کی ضرورت ہے انہیں جیل سے باہر نہیں بھیجا جاتا ہے اسی کو دوہرا معیار کہا جاتا ہے۔سات عشروں سے زیادہ وقت گزرنے کے باوجود ہمارا عدالتی نظام ٹھیک نہیں ہو سکا ہے۔ اگر دبائو کے نتیجہ میں فیصلے کرنے ہیں تو آزاد عدلیہ کا نعرہ عدالتی نظام پر بدنما داغ ہے۔ گو ہم پوری عدلیہ کو غلط نہیں کہہ سکتے ہیں کسی وقت ہمیں ایم آر کیانی اور جسٹس کیکاوس جیسے راست باز جج میسر تھے جنہیں عدلیہ کی تاریخ میں ہمیشہ شاندار الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔عہدوں اور منصب کے لالچ نے انسان کو اخلاقیات اور اپنے مذہب سے بہت دور کر دیا ہے۔ہم وہ دن بھول گئے ہیں جب ہمیں ایک ایسی عدالت میں پیش ہونا ہے جہاں نہ کسی کی سفارش کام آئے گی نہ کسی کا دبائو کام آئے گا بلکہ بے لاگ فیصلے ہوں گے۔انتخابات کے معاملے کو دیکھ لیں عوام کی مقبول ترین جماعت کوچند افراد کے کئے کی سزا دی جا رہی ہے۔چنانچہ اسی صورتحال میں انتخابات کوغیر جانبدارانہ اور منصفانہ کو ن کہے گا؟ہم جرم کی پاداش میں کسی کو سزا دینے پر معترض نہیں ہیں تاسف ہے سائفر اور توشہ خانہ مقدمات میں قانونی پہلوئوں کو نظر انداز کرکے ملزمان کو صفائی کا موقع دیئے بغیر سزا دے دی گئی ہے حالانکہ ملک کا آئین کہتا ہے Nobdody should be condmned unheard کسی کو صفائی کا موقع دیئے بغیرسزا نہیں دی جا سکتی۔افسوناک پہلو یہ ہے سیاست دان اور اداروں سے وابستہ لوگ آئین اور قانون کی بات کرتے نہیں تھکتے آئین اور قانون کا معاملہ آئے تو جابنداری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ہم نے عدلیہ اورانتظامیہ دونوں سے انتخابات کا انعقاد کے تجربات کرکے دیکھ لیا ۔ایک موقع پرسابق صدر آصف علی زرداری نے تو برملا کہاتھا یہ عوام کا نہیں بلکہ آر اوز کا الیکشن تھا۔انتخابات کے موقع پر غیر ملکی مبصرین کو دعوت دے کر الیکشن کمیشن نے اچھا اقدام کیا ہے اللہ کرے الیکشن کے انعقاد کا مرحلہ بخیر وخوبی گزر جائے کسی جماعت کو انتخابات میں دھاندلی کی شکایت نہ ہو بلکہ الیکشن میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتیں انتخابی نتائج کو صدق دل سے قبول کرلیں تو اچھا ہے ورنہ ماضی کی طرح انتخابات دھاندلی زدہ ہوئے تو اندرون اور بیرون ملک اس کا اچھا اثر نہیں ہوگا۔جہاں تک ایک مقبول جماعت کی الیکشن میں شمولیت کی بات ہے آزاد حیثیت میں حصہ لینے والوں کی بولیاں لگیں گی جس سی عوام کے مینڈیٹ کو سخت دھچکا لگنے کا قوی امکان ہے۔ ملک میں جمہوریت نواب زادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ختم ہو گئی تھی لولی لنگڑی جمہوریت سے کام چلانے سے ملک ترقی نہیں سکے گا ۔جب تک ملک میں غیر جانبدارانہ احتساب نہیں ہوگا اس وقت تک ملک سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں ۔کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو اقتدار سوپنے سے قومی خزانے کے کھربوں روپے کا ضیائع جس سے ملک اور عوام کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ملک کی تقدیر بدلنا مقصود ہے تو آزاد عدلیہ میں راست باز ججوں کی شمولیت سے ممکن ہے جو کسی قسم کے دبائو کو خاطر میں لائی بغیر آزادانہ فیصلے کرسکیں ورنہ ہمارا نام ونشان مٹ جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button