Columnمحمد مبشر انوار

مٹھی کھولنی پڑیگی

محمد مبشر انوار( ریاض)
کفر کا نظام چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں چل سکتا کہ یہی قانون قدرت ہے ۔نظام ظلم میں مظلوم و محکوم مخلوق خدا اپنے حقوق کو کو ترستی اور اشرافیہ کی نہ ختم ہونے والی مراعات کا ایندھن بنی دکھائی دیتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران چرچل کا شہرہ آفاق فقرہ ایک ضرب المثل بن چکا ہے اور ہمارے بیشتر مغرب زدہ دانشور عام زندگی میں اس کی مثال دیتے نہیں تھکتے کہ اگر برطانیہ میں عدالتیں کام کر رہی ہیں تو برطانیہ کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی جبکہ پہلی جنگ عظیم میں خلافت عثمانیہ کولپیٹنے والے یہ بھول/ فراموش کر گئے کہ سلطنت عثمانیہ کی بنیاد ہی عدالت پر رکھی گئی تھی اور جیسے جیسے عثمانی سلطان اپنے اس آفاقی اصول سے روگردانی کرتے رہے،ان کا اقتدار روبہ زوال ہوتا گیا۔ذرا مزید ماضی کے جھرونکوں میں جھانکیں تو مسلمانوں کے عدل و مساوات کو کون فراموش کر سکتا ہے وہ خواہ ثمرقند کی فتح میں بنیادی اصول کی روگردانی کے باعث اسلامی لشکر کا انخلاء ہو یا امین الامت حضرت ابو عبیدہ رض کا غیر مسلموں سے وصول شدہ جزیہ کی واپسی ہو یا عدل فاروقی سے کون انکار کرسکتا ہے اور سب سے بڑھ کر سرکار دوعالمؐ کی ذات اقدس نے جو معیار عدل و انصاف کے خود طے کردئیے،ان کے بعد کسی بھی حکمران کا اس روش پر چلنا،انہی کے مرہون منت ہے۔ تاہم قبل از اسلام پیغمبران کے علاوہ چند ایک بادشاہوں کے دور میں عدل وانصاف کو فوقیت رہی اور ان کا نام بھی تاریخ میں سنہری حروف سے رقم ہے لیکن موجودہ دور میں اسے صرف ایک حکمران سے منسوب کرنا،بذات خود ناانصافی ہے۔اسلامی تاریخ تو ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جہاں حکمران وقت کو بلا امتیاز قاضی اپنے حضور نہ صرف طلب کر سکتا تھا بلکہ تاریخ تو یہ بھی بتاتی ہے کہ ایک طرف قاضی حکمران وقت کو بطور ملزم طلب کرتے وقت ،اس کے مرتبہ کو نظر انداز کرتا ہے تو دوسری طرف حکمران وقت یہ تہیہ کر کے عدالت میں پیش ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا تو وہ مقدمہ کے بعد قاضی کو سزا دے گا،کہاں اسلامی تاریخ میں عدالت کا یہ معیار اور کہاں آج کی صورتحال کہ ہماری عدلیہ کے معزز جج صاحبان بذات خود عدل کے متلاشی ہیں۔
عجیب صورتحال ہے کہ جس انتظامیہ کے خلاف معزز ججز نے اپنی درخواست دائر کی ہے،قاضی وقت ،اسی انتظامیہ کے سربراہ سے اس معاملے کی تفتیش چاہتے ہیں۔کیسا تماشہ ہے کہ جنہیں عدالت کے کٹہرے میں ہونا چاہئے ،وہ اس شکایت پر کمیشن بنا رہے ہیں،یوں1996میں اپنے وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے عدلیہ میں سیاسی مداخلت و اثرورسوخ کو ختم کرنے کے لئے چیف جسٹس کی تقرری سنیارٹی کی بنیاد پر طے کر دی لیکن سیاسی مداخلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہیں اپنے ہی طے کردہ اصول کے تحت ماضی میں کی گئی اپنی تعیناتی قربان کرنا پڑی۔بعد ازاں 2007میں عدلیہ کی آزادی کا دوسرا دور شروع ہوا جب جنرل پرویز مشرف نے ایک بار پھر عدلیہ کی آزادی پر شب خون مارنے کی کوشش کی لیکن عدلیہ کے سربراہ اس مداخلت کے خلاف ڈٹ گئے اور ان کے ساتھ وکلاء برادری اور بعد ازاں سیاسی جماعتیں ،واضح رہے کہ ذاتی مفادات کی خاطر اور جنرل پرویز مشرف کو رخصت کرنے کے ارادے سے اس احتجاج کا حصہ بنی،جبکہ اپنی حمایت میں عوام کو بھی عدلیہ کی آزادی کا حصہ بنایا۔ افسوس صد افسوس کہ عدلیہ اتنی قربانیوں کے باوجود ہنوز اتنی طاقتور نہیں ہو سکی کہ آزادانہ فیصلے دے سکے اور اس کے فیصلوں میں آج بھی دباؤ کی جھلک انتہائی واضح دکھائی دیتی ہے،جس سے عوام تو دور کی بات خواص کو بھی انصاف کی فراہمی دکھائی نظر نہیں آتی،تاہم وہ خواص جو کسی بھی خاص منصوبہ کے حصہ دار ہیں،ان کے لئے عداتیں اور انصاف ان کی چوکھٹ پر دکھائی دیتا ہے۔ایسے انصاف اور فیصلوں کی حالت یہ ہے کہ آج پینتالیس برس بعد عدالت ذوالفقار علی بھٹو کو دی گئی پھانسی کے فیصلے پر رائے دے رہی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف کے تقاضے پورے کئے بغیر پھانسی کی سزا دی گئی جبکہ دوسری طرف طرفہ تماشہ یہ بھی ہے کہ لمحہ موجود میں بھی ایک سیاسی فریق کو انصاف کے تقاضوں کا صریحا قتل کرتے ہوئے ،فیصلے دئیے جا رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی کو توشہ خانہ میں دی گئی سزائیں بھی اعلی عدالت نے معطل کر دی ہیں گویا چھوٹی عدالتوں اور ان میں بیٹھے ہوئے معزز جج صاحبان کی اہلیت پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے یا ان کی اخلاقی جرآت پر،کہ وہ ایک سیاسی مقدمے میں دباؤ برداشت نہیں کر پائے اور طاقتوروں کی منشا کے عین مطابق منصوبے کا حصہ بنتے ہوئے،فیصلے صادر کئے؟اس صورتحال میں کون یہ تصور کر سکتا ہے کہ ہماری عدلیہ بطور ادارہ ایک طاقتور ادارہ ہے اور ان کے سامنے آنے والے مقدمات پر فیصلے بعینہ آئین و قانون کے مطابق دئیے جا رہے ہیں،اس عدالتی ضعف کے باعث دیگر اداروں کی کارکردگی کو سامنے رکھیں تو انہیں یہ جرآت کمزور عدلیہ کے باعث ہی ملتی ہے کہ وہ آئین و قانون کو پرکاہ کی حیثیت دینے کے لئے بھی تیار نظر نہیں آتے۔حالیہ عام انتخابات اس کی ایک سادہ سی مثال ہیں کہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں،جس کے قواعد و ضوابط کے مطابق، زیادہ سے زیادہ دس /بارہ بجے رات تک غالبا نتائج کا اعلان کیا جانا ضروری تھا لیکن ہوا اس کے برعکس اور کئی حلقوں کے نتائج تیسرے دن موصول اورمنتشر ہوئے،دوسری طرف اس وقت جاری دوبارہ گنتی کی مشق میں کئی ایک حلقوں میں لاکھوں ووٹوں کی گنتی زیادہ سے زیادہ تین سے پانچ گھنٹوں میں سنائی جار ہی ہے اور اس کے دوران مخصوص نا پسندیدہ سیاسی جماعت کامیاب امیدوار کے مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد سابقہ نتیجہ میں ہونے والی برتری کے برابر دکھائی دے رہی ہے،اس طرح جیتا ہوا امیدوار شکست سے دوچار کر دیا جاتا ہے۔
بہرکیف اس ہیجان میں کہ جب عدالت عظمی کے سربراہ نے اولااپنی ماتحت عدلیہ کے ججز کی شکایت پر خود بروئے کار آنے کی بجائے،فریق مخالف کو ہی اس شکایت کاازالہ کرنے کا اختیار سونپ دیا ہے اور فریق مخالف نے ایک پہلے ایک سابق چیف جسٹس کو کمیشن کا سربراہ تعینات کیا،جس کے اپنے لخت جگر نے اس تعیناتی کے خلاف اظہا ررائے کیا تو سابق چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی نے اس کمیشن کی سربراہی سے معذر ت کر لی،تاہم اب عدالت عظمی نے اس شکایت پر ازخو نوٹس لے کر سات ججز کا بنچ بنا دیا ہے اور ممکنہ طور پرتحریر کی اشاعت تک مقدمہ کی سماعت شروع ہو چکی ہو گی۔کمیشن کی حد تک یہ بات واضح تھی کہ ایسے کسی بھی کمیشن کا مقصد ’’ مٹی پائو‘‘ سے زیادہ کچھ نہ ہوتا لیکن عدالت عظمیٰ کے ازخود نوٹس لینے کے بعد معاملہ کی نوعیت بہرطور بدل چکی ہے اور اشک شوئی کی حد تک ہی سہی،گمان ہے کہ آڈیو/ویڈیو کا ناجائز کاروبار کرنے والوں کو سرزنش کی جائے گی کہ بظاہر نیشنل سیکورٹی کا معاملہ راستے کی دیوار بنتا نظر آتا ہے۔نیشنل سیکیورٹی کی خاطر ایسے اقدامات کا کیا جانا، پاکستان جیسی ریاست میں کو ئی انوکھی بات تصور نہیں ہوتی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نیشنل سیکورٹی کے نام پر ایسے اقدامات کا دائرہ کار اب خلوتوں تک جا پہنچا ہے،ذاتی کمروں تک پہنچ گیا ہے،جسے کسی بھی طور نیشنل سیکیورٹی کی آڑ میں چھپایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اس قسم کا ریکارڈ واقعتا نیشنل سیکورٹی میں کارآمد ثابت ہو رہا ہے کہ نہ صرف نیشنل سیکورٹی بلکہ قومی مفادات دن بدن تنزلی کا شکار ہے۔ان تمام جدید ترین آلات کی عدم موجودگی میں بھی حضرت عمرکے تعینات کئے گئے عمال کی کارکردگی ،موجودہ دو ر کی آسائشوں ،پر کشش مراعات کے باوجود کئی گنا بہتر تھی،اس کی وجہ ہر صاحب ذمہ دار کا خود کو ادنی تصور کرنا اور اللہ کے حضور جوابدہی کا عنصر تھا۔بدقسمتی سے ہمارے ارباب اختیار نے زمینی خدائوں کی خوشنودی کو مد نظر رکھا ہے یا طاقتوروں کے ہاتھوں ملکی مفادات کو زیادہ محفوظ تصور کر رکھا ہے اور طاقتوروں کی خوبی یہ ہے کہ وہ پس پردہ رہ کر زیادہ متحرک و فعال نظر آتے ہیں۔ ملکی معاملات پر ان کی گرفت دن بدن مضبوط تر ہوتی جار ی ہے جبکہ سویلین کی حالت یہ ہے کہ وہ ہاتھ باندھے ،اشارہ ابرو کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ان حقائق کی روشنی میں ،بندہ ناچیز کے تو پر جلتے ہیں کہ کسی کا ذکر خیر کر سکے کہ اس کوشش میں ہمارے ہی بھائی بندوں میں ارشد شریف کو شہید کیا جا چکا تو کئی ایک کے سوفٹ وئیر اپ ڈیٹ ہو گئے جبکہ ایک عمران ریاض خان ایسا ہے کہ بار بار مہمان نوازی کا لطف اٹھا کر بھی پھر وہیں سے شروع کرتا ہے ، جہاں سے چھوڑ کر جاتا ہے۔لہذا یہی کہا جا سکتا ہے کہ ریاست کے مفادات کو جس سختی سے اپنی مٹھی میں بند کر رکھا ہے کہیں ان مفادات کی سانسیں ہی نہ ٹوٹ جائیں،سانسیں چلتی رہنے کے لئے ضروری بلکہ ناگذیر ہے کہ مٹھی میں بند ریاست پاکستان کے مفادات کو زندہ رہنے کے لئے ،اسے ازخود کھول دیں وگرنہ یا تو ریاست کے مفادات آپ کی مٹھی میںہی دم توڑ جائیں گے یا پھر جمہور ریاست آپ کی بند مٹھی کھلوانے پر نہ تل جائیں،اس صورت میں بھی نقصان ریاستی مفادات کا ہے،بند مٹھی تو بہرطور جلد یا بدیر کھولنی ہی پڑیگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button