ColumnImtiaz Aasi

حکومت کی دیانت اور عزم کا امتحان

امتیاز عاصی
وفاق کی اقتصادی کمزوری کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب صدر آصف علی زرداری نے اپنے پہلے دور میں اٹھارویں ترمیم کے تحت اختیارات صوبوں کو سونپے تھے۔ اگرچہ انہوں نے آئین میں دیئے گئے صوبوں کو حقوق کی منتقلی کو یقینی بنایا لیکن اس آئینی اقدام سے وفاقی حکومت مالی مشکلات سے دوچار ہو گئی۔ صوبے صحت ، زراعت اور تعلیم کے فنڈز لینے کے باوجود وفاق یہ ذمہ داریاں نبھا رہاہے جب کہ مقامی حکومتوں کے لئے صوبے فنڈز وفاق سے حاصل کر تے ہیں جس سے وفاق مالی مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو صوبوں کو مالی خود مختاری ملنے سے ملکی معیشت کا بیڑا غرق ہو گیا ہے۔ 1973ء کے آئین کے تحت وفاق نے دس سال کے اندر اختیارات صوبائی حکومتوں اختیارات منتقل کرنے تھے جو صدر زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اپنے گزشتہ دور حکومت میں صوبوں کو منتقل کئے۔ گو وفاق مالی مشکلات سے دوچار ہے مگر حکومت کے لئے اٹھارویں ترمیم کا خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔ تازہ ترین خبر کے مطابق آئی ایم ایف نے صوبوں کو مقررہ حد سے زیادہ فنڈز خرچ کرنے پر قدغن لگادی ہے جس سے صوبائی حکومتیں وفاق سے ملنے والے فنڈز کومقررہ حد کے اندر خرچ کرنے کی پابند ہوں گی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ کے مطابق مراعات یافتہ طبقے سے ٹیکس وصولی حکومت کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے ان کا کہنا ہے برسوں سے ٹریبونلز میں زیرالتواء ٹیکس مقدمات کا جلد فیصلہ کرایا جائے گا۔ سوال ہے اب جبکہ ملکی معیشت آکیسجن پر ہے انہیں زیر االتواء مقدمات کا جلد فیصلہ کرانے کا خیال پہلے کیوں نہیں آیا۔ دراصل مراعات یافتہ طبقے سے ٹیکس وصولی حکومت کی دیانت اور عزم کا امتحان ہے جس میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتی ہے آنے والے وقت میں اس کا پتہ چل جائے گا۔ حقیقت تو یہ ہے ملک کی اشرافیہ ہی وہ واحد طبقہ ہے جو ٹیکسوں سے بچتے رہے اور کوئی حکومت ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکی لیکن اب وقت آگیا ہے ملک کو معاشی لحاظ سے دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے مشکل فیصلے کرنے ہوں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آنے والے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے چالیس پچاس کروڑ کے عوض سینیٹ اور اسمبلی کے ٹکٹ خریدتے ہیں اور انہی کی ملکی سیاست پر اجارہ داری ہے ورنہ ایک عام شہری کونسلر کا الیکشن لڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آئی ایم ایف نے ریٹیلر پر ٹیکس لگانے کو کہا ہے ملک میں اس وقت قریبا چالیس لاکھ بڑے بڑے شہروں میں مارکیٹیں ہیں ٹرن اوور دیکھا جائے تو نہ ہونے کے برابر ہے لہذا ایسے تاجروں پر فکس ٹیکس لگا کر ہی ملکی معیشت کی بہتری کی طرف قدم بڑھایا جا سکتا ہے۔ آرھتی حضرات کو دیکھ لیں ہول سیلرز لاکھوں کی تعداد میں ہیں جو پھلوں اور اجناس کا کھربوں کا کاروبار کر رہے ہیں ٹیکس دینے کا نام نہیں لیتے ہیں۔ بڑے بڑے زمینداروں کی بات کریں تو یہ لوگ کئی کئی مربع زمینوں کے مالک ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی اپنی زمینیں مزارعوں کو پٹے پر دی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ خود بڑے بڑے شہروں میں رہائش پذیر ہوتے ہیں مزارعوں کی وساطت سے کروڑوں روپے کما رہے ہیں لیکن ٹیکس وصولی ان سے صفر ہے۔ ایسے زمینداروں کو انگریزی میں Absentee landloardکہا جاتا ہے۔ حکومت کو عام شہریوں سے لے کر اشرافیہ تک ٹیکس وصولی کے لئے میکنزم بنا ہوگا ورنہ ہمارا ملک نہیں چلے سکے گا۔ سیاسی حکومتوں کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جس سے وہ ٹیکس وصولی کے لئے امراء طبقہ پر ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہوتے ہیں۔ عمران خان کے دور کی بات ہے شبر زیدی کو ایف بی آر کا چیئرمین لگایا گیا جب انہوں نے ٹیکس لگانے کی بات کی تو انہیں عہدے سے علیحدہ کر دیا گیا ۔ ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کسی ادارے کا سربراہ دیانت داری سے کام کرنا چاہے تو اسے جلد عہدے سی ہٹا دیا جاتا ہے۔ شبر زیدی کے ساتھ اسی قسم کا معاملہ پیش آیا تھا باقی کو چھوڑیں یہاں تو تمباکو پیدا کرنے والے زمیندار ٹیکس دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایک سرکاری ملازمین ایسے ہیں جن سے تنخواہوں کی ادائیگی کے ساتھ ٹیکس وصول کر لیا جاتا ہے۔ ٹیکس وصولی کے لئی حکومت کو اپنے اور پرائیوں میں تمیز نہیں کرنی ہوگی بلکہ ایک آنکھ سے سب کو دیکھنا ہوگا۔ عمران خان کے دور میں کئی لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا گیا لہذا اگر حکومت صدق دل سے کوشش کرے تو کوئی وجہ نہیں اشرافیہ سے ٹیکس وصول نہ ہو سکے۔ آئی ایم ایف نے خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری کا کہا ہے جس میں پہلے مرحلے میں قومی ایئر لائنز کو نجی شعبے میں دیا جائے گا۔ پاکستان سٹیل ملز کا جو حال ہوا ہے وہ سب کے سامنے ہے ہر سال پی آئی اے اور سٹیل ملز کو بیل آئوٹ پیکیج دے کر کام چلایا جا رہا ہے۔ آخر ایک مقروض ملک کب تک ان اداروں کو بیل آئوٹ پیکیج دیتا رہے گا۔ حکومت کے پاس خسارے میں چلنے والے اداروں کی نج کاری کے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہے۔ سیاسی حکومتوں نے قومی اداروں میں سیاسی ورکرز بھرتی کرکے ان اداروں کو تباہ کیا۔ ظلم کی انتہا ہے ایک طیارے کے ساتھ 145 ملازمین ہونے چاہیں جب کہ ہمارے ہاں ایک طیارے کے ساتھ پانچ سو سے زیادہ ملازمین کام کر رہے تھے۔ ملک کی خستہ حال معاشی صورت حال کے پیش نظر حکومت کے پاس نقصان میں چلنے والے بڑے بڑے اداروں کی نجی کاری آپشن ہے۔ خسارے میں چلنے والے اداروں کو جب نجی شعبے کے حوالے کیا جائے گا تو ملازمین کو کام کرکے ہی تنخواہیں ملیں گیں نہ کہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کریں گے۔ آئی ایم ایف نے این ایف سی ایوارڈ کے خاتمے کی طرف اشارہ دیا ہے حکومت نے آئینی رکاوٹ کے باعث آئی ایم ایف سے اس سلسلے میں معذرت کر لی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو آئی ایم ایف قرض لینے والے ملکوں کو اپنے غیر ضروری اخراجات کم کرنے پر زور دیتا ہے ہم ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں اخراجات کم کرنے کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے مگر عملی اقدامات کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ حکومتی وزراء نے تنخواہیں اور دیگر مراعات لینے سے معذرت کر لی اچھی بات ہے لیکن حکومت کو اخراجات کم کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button