ColumnImtiaz Aasi

جوڈیشل انکوائری واحد حل

امتیا زعاصی
پرانے وقتوںکی بات ہے تھانہ گوجرخان کی حوالات میں برطانیہ پلٹ مسعودنامی ایک شہری کو تشدد کرکے نہ صرف ہلاک بلکہ اس کی نعش کو جلا دیاگیا۔سانحہ کا اتنا شورغوغا ہوا پنجاب حکومت کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج سے عدالتی تحقیقات کرانا پڑی۔ نیک نام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی افتخار احمد چیمہ تھے جو مسلم لیگ نون کے سابق ایم این اے ڈاکٹر نثار چیمہ اور سابق آئی جی پولیس ذوالفقار چیمہ کے بڑے بھائی ہیں۔انکوائری میں تفتیشی سب انسپکٹر اور محرر تھانہ کوحوالاتی کی موت کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔سانحہ نو مئی ملکی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ تھا جس کی جینتی مذمت کی جائے کم ہے۔سانحہ کے نتیجہ میں جو قومی نقصان ہوااورعالمی سطح پر ہماری جگ ہنسائی ہوئی اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی تاریخ میں عسکری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کا سانحہ اس سے قبل کبھی نہیںہوا تھا۔سانحہ میں ملوث مرد وخواتین کو گرفتار کرکے جیلوں میں بھیجے نو ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا ہے ملزمان کے خلاف عدالتوںمیں چالان اور نہ انہیں ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔سانحہ نو مئی جس طرح پیش آیا ملزمان کی نشاندہی خاصا مشکل کام تھا ۔شائد اسی وجہ سے ابھی تک ملزمان کے خلاف حتمی چالان مرتب نہیںہو سکا ہے ۔دراصل ایسے واقعات میں ملزمان کی نشاندہی اور اصل حقائق سامنے لانے کا واحد راستہ جوڈیشل انکوائری ہے ۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے حکومت اس سانحہ کی جوڈیشل انکوائری کرانے میں لیت ولعل کیوں کر رہی ہے ۔پی ٹی آئی کے نو منتخب رکن اسمبلی اور ممتاز قانون دان لطیف کھوسہ نے حکومت سے سانحہ کی عدالتی انکوائری کرانے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس سانحہ کے فوری بعد بعض حلقوں نے جوڈیشل انکوائری کرانے کی مطالبہ کر دیا تھا۔حقیقت یہ ہے سانحہ کی عدالتی انکوائری ہو جاتی تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا۔ عدالتی انکوائری میں سانحہ کی منصوبہ بندی کرنے اور سہولت کاروں کا پتہ چل جاتا اس طرح بے گناہ لوگ سزائوں سے بچ جاتے۔تعجب ہے حکومت آئے روز مختلف واقعات کی عدالتی انکوائری کرانے کے احکامات دیتی رہتی ہے ملکی تاریخ کا اتنا بڑا سانحہ ہو گذرا عدالتی انکوائری کرانے میں حکومتی پس وپیش سے شکوک وشہبات جنم لے رہے ہیں۔عام طور پر کسی جگہ قتل ہو جائے اور پولیس بہت سے ملزمان کو ایف آئی آر میں نامز کر دے تو متاثرہ فریق انکوائری تبدیل کرنے کی درخواست کر تا ہے ۔ پہلے تک انکوائری تبدیل کرنے کا اختیار ضلع کے پولیس آفیسر کے پاس ہوتا تھااب اس مقصد کے لئے ضلعی سطح پر بورڈ قائم کر دیا گیا ہے جو درخواستوں کا جائزہ لینے کے بعد تفتیش بدلنے یا نہ بدلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔سانحہ نو مئی میں گرفتار افراد کو سزا ہوئے نو ماہ ہو چکے ہوتے تو قیدیوں کو ماہانہ لگنے والی معافی کے ساتھ گرفتار لوگوں کو جیلوں میں گئے ایک سال سے زیادہ عرصہ شمار کیا جاتا۔عجیب تماشا ہے فوجی عدالتوں میں ملزمان کے خلاف مقدمات چلانے کامعاملہ سپریم کورٹ تک گیا جس کے بعد خاموشی ہے۔ہم آئین اور قانون کی بات کرتے ہیں جب آئین اور قانون کا معاملہ آئے تو نہ جانی اس پر عمل کرنے سے پہلو تہی کیوں کرتے ہیں۔کسی واقعہ میں ملوث شخص کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا انکوائری میں پتہ چلایا جا سکتا ہے۔عدالتی انکوائری ایسا فورم ہوتا ہے جہاں سے فریقین کو انصاف کی پور ی توقع ہو تی ہے۔ سانحہ میں ملوث جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہی بظاہر ان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہے۔اگر ہم قانونی پہلوئوں پر غور کریں تو جب کوئی شخص بلوئے میں مارا جائے تو تفتیشی افسران اور عدالتوں کے لئے اس چیز کا فیصلہ کرنامشکل ہوجاتا ہے کسی کی لاٹھی سے بندے کی موت واقع ہوئی ہے۔اس طرح کے معاملات میں نہ تو کوئی ڈاکٹر اور نہ کوئی جج اس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ کسی کی لاٹھی سے موت واقع ہوئی ہے۔سانحہ نو مئی کسی ایک شخص کا کام نہیں بلکہ جب لوگوں کاگروہ کسی جگہ حملہ آور ہو تو ایسے میں اصل ملزمان کا سراغ فوعدالتی انکوائری سے لگایا جا سکتا ہے ہے ۔پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سانحہ کے روز پولیس کی کسڈی میں تھا اگرچہ وہ بھی اس سانحہ میں نامز دہے سوال ہے حکومت کو سانحہ کی جوڈیشل انکوائری کرانے میں کون سا امر مانع ہے۔اسی حوالے سے سپریم کورکے کئی فیصلے موجود ہیں جن میں عدالت عظمیٰ نے معاملے کی سچائی کی تہہ تک پہنچنے کی ہدایات دی ہیں تاکہ کسی کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے پائے۔سانحہ کے کئی ماہ گزرنے کے باوجود چالان کا مکمل نہ ہونا اور ملزمان کے خلاف مقدمات کی سماعت میںتاخیر انصاف سے انکار کی ایک صورت ہے۔ہمارے مشاہدات کے مطابق کسی مقدمہ میں بہت سے ملزمان لکھوا دیئے جائیں تو پولیس ملزمان کے گناہ گار یا بے گناہ ہونے کا چند روز میں تعین کر دیتی ہے سانحہ نو مئی کو کئی ماہ گزرنے کے باوجود پولیس تفتیش مکمل نہیں ہو سکی ہے اور نہ گرفتار افراد میں سے کسی کو بے گناہ یا گناہ گار قرار دیا گیا ہے۔بدقسمتی سے ملک میں بہت سے سانحات ہو گزرے ہیں چندروز ان کا شورغوغا ہونے کے بعد ایسے سانحات کو بھلا دیاجاتا ہے۔غالبا سانحہ نو مئی میں گرفتار سیاسی کارکنوں کو بھی حکومت گرفتار ی کے بعد بھول گئی ہے۔نئی حکومت نے اقتدار سنبھال لیا ہے ۔سیاسی جماعتوںکو دل بڑا کرتے ہوئے ملک وقوم کے مفاد میں اپنے اپنے اختلافات ختم کرکے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کی کوشش کرنی چاہیے ۔حسن اور حسین نواز جو کئی سال سے ملک سے باہر تھے اور برطانونی شہریت حاصل کر چکے ہیں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت ہنگامی بنیادوں پر ہو رہی ہے اور ضمانت بھی دے دی گئی جس کے بعد ان کے خلاف مقدمات ختم ہونے کے قومی امکانات ہیںلہذا حکومت کو سانحہ نو مئی میں گرفتار ملزمان کو انصافی کی فراہمی کے لئے ان کے خلاف جلد چالان مرتب کرکے عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے ۔انصاف کا تقاضا تو یہی ہے اگر ان کے خلاف کوئی شہادت نہیں ہے تو انہیں فوری طور پر رہا دیا جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button