Editorial

نئے صدر مملکت کا انتخاب آج

کہا جاتا ہے کہ اتحاد میں بڑی برکت ہوتی ہے، اس کی بدولت بڑی سے بڑی مشکل کو حل کیا اور حالات کو اپنے حق میں بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ملک میں گزشتہ ماہ عام انتخابات کا انعقاد عمل میں آیا تھا۔ اس بار عوام نے جو فیصلہ دیا، اُس کے مطابق وفاق میں کوئی بھی سیاسی جماعت تن تنہا حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ چند ہی روز میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے سے رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر کچھ دنوں بعد مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم (پاکستان)، مسلم لیگ ق، استحکام پاکستان پارٹی و دیگر کی جانب سے مشترکہ پریس کانفرنس میں مرکز میں اتحادی حکومت بنانے کا اعلان کیا گیا۔ مل کر ملک و قوم کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو وزیراعظم کے لیے مشترکہ امیدوار نامزد کیا گیا جب کہ آصف علی زرداری صدر مملکت کے لیے مشترکہ امیدوار نامزد کیے گئے۔ میاں شہباز شریف اپنے عہدے کا حلف اُٹھاچکے اور وزیراعظم کی حیثیت سے اُنہوں نے ذمے داریاں سنبھال لی لیں۔ صدر مملکت عارف علوی کے عہدے کی میعاد گزشتہ برس ختم ہوچکی تھی، منتخب عوامی نمائندے نہ ہونے کے باعث نئے صدر پاکستان کا انتخاب عمل میں نہیں آسکتا تھا، اس لیے یہ معاملہ پارلیمان کے قیام تک کے لیے التوا کا شکار ہوا۔ اب عام انتخابات کے نتیجے میں حکومتوں کے قیام کے بعد اگلا پڑائو ملک کے نئے صدر مملکت کا انتخاب ہے، جو آج (ہفتہ) عمل میں لایا جائے گا۔ اس کے لیے حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے آصف زرداری کے نام کی توثیق کردی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، استحکام پاکستان پارٹی سمیت دیگر اتحادی جماعتوں نے صدر کے انتخاب کیلئے آصف زرداری کے نام کی توثیق کردی۔ وزیراعظم نے منتخب ارکان کے اعزاز میں وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد میں عشائیہ دیا، جس میں اتحادی جماعتوں کے سربراہان و قائدین، سینیٹرز اور منتخب ارکان نے شرکت کی۔ عشائیے میں صدر کے مشترکہ امیدوار آصف علی زرداری، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو، ایم کیو ایم پاکستان کی خالد مقبول صدیقی، ڈاکٹر فاروق ستار، مصطفیٰ کمال، عبدالحفیظ شیخ اور آئی پی پی رہنما عون چودھری نے بھی شرکت کی۔ مسلم لیگ ن، پی پی کے اہم رہنما، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی بھی اس موقع پر موجود تھے۔ عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے آصف علی زرداری کو ووٹ دینا ہے، ہم نے مل جل کر ملک کی تقدیر بدلنی ہے، ملکی معیشت مشکلات کا شکار، سب مل کر اپنا اپنا حصہ ڈالیں گے تو بحران ختم ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ چیلنج بہت بڑے ہیں، ہمیں ٹیکس دائرہ کار اور محاصل کو بڑھانا ہے، خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کا بوجھ عوام پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1.7ٹریلین محاصل کے مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں، ان شاء اللہ 9مارچ کو آصف علی زرداری صدر پاکستان منتخب ہوجائیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کی عکاسی صدارتی الیکشن میں ہوگی، ملک اور قوم کی تقدیر مل کر تبدیل کریں گے۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا ہمارا اپنا صوبہ ہے، کوشش ہوگی مل کر ساتھ چلیں، اتفاق رائے سے وفاق میں حکومت قائم ہوئی ہے، عوام کے فیصلے کا سب کو احترام کرنا ہے۔ عشایئے سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ مشکلات بہت ہیں لیکن ناممکن کچھ نہیں، ملکی ترقی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے، ہم پاکستان کو ایسے مقام پر لے کر جائیں گے جہاں پر سب کو فخر ہو۔ سابق صدر نے کہا کہ آئن اسٹائن مشکل چیلنجز سے نہیں ڈرا تو شہباز شریف بھی مشکل چیلنجز سے نہیں ڈریں گے، ہم شہباز شریف کے پیچھے کھڑے ہوں گے، جہاں ضرورت پڑی اپنا زور بازو بھی دیں گے، زراعت بنیادی مسئلہ ہے اسے ٹھیک کریں اور ڈیمز بنائیں۔ عشائیے سے خطاب میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آصف زرداری نے اپنے اختیارات پارلیمان کو دلوائے تھے، اگر آصف زرداری کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے سویلین صدر ہوں گے جو دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ آصف زرداری کی سپورٹ کرنے والی تمام جماعتوں کا شکر گزار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اُمید ہے آصف زرداری بطور صدر مملکت وفاق کو مضبوط کریں گے، ہم سب کو ملکر ملک کے مسائل کو حل کرنا ہے، اصلاحات کے عمل کو آگے بڑھائیں گے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے صدارتی انتخابات میں آصف زرداری کو ووٹ دینے کا اعلان کر دیا۔ اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف سے ایم کیو ایم وفد نے ملاقات کی جس میں ایم کیو ایم نے صدارتی الیکشن میں آصف زرداری کو ووٹ دینے کی ہامی بھری۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کا وفد ایم کیو ایم سے ووٹ مانگنے خالد مقبول صدیقی کی رہائش گاہ پہنچا، وفد میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو بھی موجود تھے۔ وفد سے ملاقات کے بعد خالد مقبول صدیقی نے صدارتی انتخابات میں آصف زرداری کو ووٹ دینے کا اعلان کیا۔ اتحادی جماعتوں کی جانب سے تدبر کا مظاہرہ لائق تحسین ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ ملک کو درپیش چیلنجز کوہِ ہمالیہ ایسے ہوش رُبا ہی ہیں اور ان سے تمام اتحادی جماعتیں مل کر ہی نبردآزما ہوسکتی ہیں۔ صورت حال بہت نازک ہے۔ معاشی بہتری کا سب سے سنگین چیلنج درپیش ہے، مہنگائی ہولناک سطح پر پہنچ چکی ہے، بے روزگاری کا عفریت سر اُٹھائے کھڑا ہے، ملک پر قرضوں پر بے پناہ بار ہے، ان سب اور دیگر چیلنجز سے عہدہ برآ ہونا چنداں آسان نہیں، لیکن اگر مل کر کوششیں کی جائیں تو یہ اہداف بھی عبور ہوسکتے ہیں۔ آج ملک کے نئے صدر کا انتخاب ہونے جارہا ہے۔ سابق صدر زرداری اس کے لیے مضبوط ترین امیدوار دِکھائی دیتے ہیں۔ اُنہوں نے بارہا سیاسی دُوراندیشی، تدبر اور دانش کا مظاہرہ کرکے ملک کو بحرانوں سے نکالا ہے۔ اگر صدر مملکت کی حیثیت سے اُن کا انتخاب عمل میں آتا ہے تو وہ ضرور ملک و قوم کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا۔
عالمی یومِ خواتین اور اُس کے تقاضے
اچھی، صحت مند اور تعلیم یافتہ مائیں ہی بہترین معاشرے کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت ہر روپ میں قابلِ احترام ہے۔ خواہ وہ ماں ہو، بہن ہو، بیٹی یا بیوی، ہر رشتہ ہی قابلِ قدر اور اہمیت کا حامل ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں تو خواتین مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کے ہر میدان میں چلتی دِکھائی دیتی ہیں اور اُنہیں اُن کے حقوق بھی حاصل ہیں جبکہ وطن عزیز میں اس حوالے سے صورتحال تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ شہری علاقوں میں تو پھر بھی غنیمت ہے، جہاں عورتوں کو تھوڑے بہت حقوق میسر ہیں، لیکن دیہی معاشروں میں اس حوالے سے حالات انتہائی دگرگوں ہیں، وہاں خواتین مردوں کے استحصال کا شکار دِکھائی دیتی ہیں۔ وہ صدیوں سے ظلم و جبر کی چکی میں پستی چلی آرہی ہیں۔ اُنہیں پیروں کی جوتی سے زیادہ حیثیت حاصل نہیں ہوتی۔ اُن پر تشدد کیا جاتا ہے۔ تعلیم جیسی بنیادی ضرورت اُن کے لیے شجر ممنوعہ بنا دی جاتی ہے۔ جائیداد میں سے اُنہیں حصّہ نہیں دیا جاتا، یایوں کہہ لیں غصب کرلیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ غیرت کے نام پر اُنہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ غرض ایسے ایسے مظاہر دِکھائی دیتے ہیں کہ انسانیت بھی شرما جائے۔ کتنی ستم ظریفی کی بات ہے کہ ہماری آبادی کا نصف سے زائد حصّہ انتہائی مذمومانہ طریقے سے مغلوب کیا جارہا ہے اور ہمارے ہاں خواتین کے حقوق کے علمبردار محض اپنی بیان بازیوں تک محدود ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے عملاً کچھ کرتے دِکھائی نہیں دیتے۔ خواتین کو حقیقی معنوں میں اُن کے حقوق کی فراہمی ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر میں جمعہ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو منانے کا مقصد عورتوں کو درپیش معاشرتی مسائل کے بارے میں حل تلاش کرنا اور ان کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتی کا تدارک کرنا تھا۔ اس دن کی مناسبت سے پچھلے برسوں کی طرح امسال بھی سیمینارز، واکس اور دیگر تقریبات کا انعقاد کیا گیا، جن میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے گئے اور اُن کے حق کے لیے آوازیں بلند کی گئیں، محض ایک روز خواتین کا دن منا لینے اور لمبی چوڑی تقاریر کرلینے سے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا، محض ان پروگراموں کے ذریعے خواتین کو اُن کے جائز حقوق نہیں دلائے جاسکتے۔ اس کے لیے سب سے پہلے مردوں کو اپنی حاکمانہ ذہنیت کو تج دینا ہوگا۔ خواتین کا عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ ہر لڑکی کے لیے تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔ حکومت، غیر سرکاری تنظیموں، غرض ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو انسان ہونے کے ناتے خواتین کے حقوق کی فراہمی کو ممکن بنانے میں اپنا اپنا حصّہ ڈالنا چاہیے۔ اگر ہر گھر میں عورتوں کو اُن کے حقوق میسر ہوں تو اس سے سماج میں بہتری کا عنصر جنم لے سکتا ہے۔ عورتوں کو خودمختار بنانے کے ضمن میں کوششیں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ حکومت کو بھی اس حوالے سے مزید راست اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر خواتین کو اُن کے جائز حقوق میسر آجائیں تو یہ امر ہمارے معاشرے کے لیے انتہائی خوش گوار ثابت ہوسکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button