Column

رمضان المبارک سے پہلے مہنگائی کا طوفان

ضیا الحق سرحدی
وطن عزیز کے عوام گزشتہ کئی برسوں سے گرانی کے عذاب کو بھگت رہے ہیں، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ مہنگائی میں مزید شدّت آتی چلی جا رہی ہے۔ ویسے تو ہر ماہ ہی گرانی میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یوں عوام کے لیے زیست کو دُشوار بنا دیا گیا ہے۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ابھی رمضان کی آمد آمد ہے کہ ہر شے کی قیمتوں کو پر لگنے شروع ہوگئے ہیں اور رمضان المبارک کی آمد سے متصل قبل ملک کے اندر مہنگائی میں طوفانی اضافے نے پوری قوم کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ جبکہ ملک بھر میں مہنگائی نے عوام سے قوت خرید چھین لی ہے، حکومت کی جانب سے مہنگائی کم کرنے اور قیمتوں میں اضافہ کو نوٹس لینے کی خبر بھی اب اپنی اہمیت کھو رہی ہے بلکہ عوامی سطح پر ایسے کسی بیان کے بعد خوف محسوس کیا جاتا ہے۔ کیونکہ حکومت میں ایسے عناصر موجود ہیں جو وزیر اعظم کے بیان کے فوراً بعد مہنگائی کا تازیانہ رسید کرکے حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ حکومت خصوصاً وزیر اعظم کی جانب سے ایسے عناصر کا نوٹس نہ لیا جانا بھی سمجھ میں نہ آنے والی بات ہے۔ رمضان المبارک کے قریب آتے ہی پشاور میں شیر فروش مافیا دودھ کے نرخ بڑھانے کے لئے سرگرم ہو گیا ہے۔ پشاور میں پنجاب اور ملاوٹ شدہ دودھ کی فروخت کنٹرول نہیں ہوسکی پشاور میں دودھ 220روپے فی کلو جبکہ دہی 250روپے فی کلو میں فروخت کیا جا رہا ہے، رمضان المبارک کی آمد کے باعث بیسن اور کجھوروں، چینی کی قیمتوں میں 150روپے فی کلو تک کا اضافہ ہو گیا ہے تاجروں نے رمضان المبارک کی آمد کے باعث ذخیرہ اندوز ی کی شروع کر دی ہے، بیسن 200روپے فی کلو سے 100روپے اضافہ کے ساتھ 300روپے فی کلو تک درجہ اول تک پہنچ گیا ہے۔ چینی 150روپے فی کلو تک ہول سیل مارکیٹ میں پہنچ گئی ہے جبکہ پرچون میں 160روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ ایرانی کھجور 400روپے سے 800روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے جبکہ سعودی عرب سمیت مختلف ممالک کی کھجور 1000ر روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ کھجوروں کے بڑے بڑے تاجروں نے قیمتوں میں خود ساختہ طور پر اضافہ کر دیا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر سارفین کی جانب سے تاجروں کی ذخیرہ اندوزی اور قیمتیں بڑھانے کے عمل کو مذاق اور تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے۔ ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق قیمتوں میں سب سے زیادہ اضافہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں الکوحل والے مشروبات، تمباکو، جلد خراب ہونیوالی غذائی اشیا، ریسٹورنٹ اور ہوٹلز کے بلوں گھروں کی تزئین و آرائش والی اشیا ادویات کپڑوں جوتوں یوٹیلیٹی بلوں اور روزمرہ استعمال کی اشیا چکن پیاز انڈے چاول دالوں آئے خوردنی تیل تازہ پھلوں دودھ مچھلی گوشت اور سبزیات کی مد میں ہوا ہے جو 12سے 96فیصد تک ہے۔ پٹرول ڈیزل گیس اور بجلی کے نرخوں میں بتدریج ہو نیوالا اضافہ تو عام آدمی بشمول غریب مزدور اور تنخواہ دار طبقات کیلئے عملا نا قابل برداشت ہو چکا ہے۔ عوام کو اس مہنگائی کا سبب آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی بحالی کی خاطر اس کی عائد کردہ نار و شرائط تک قبول کرنا بتایا جارہا ہے تو عوام یہ سوچنے اور سوال اٹھانے میں بھی حق بجانب ہیں کہ ملک کا نظام ہمارے حکمران چلا رہاہے جو ہماری آزادی اور خودمختاری کے بھی قطعی منافی ہے۔ ہارا یہ المیہ ہے کہ ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات نے اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر عوام کے مسائل اور مفادات کا کبھی سوچا ہی نہیں جن کے ہاتھوں قیام پاکستان کے مقاصد بھی گہنائے جاتے رہے ہیں۔ بانیانِ پاکستان قائد و اقبال کا قیام پاکستان کا مقصد تو یہی تھا کہ بر صغیر کے مسلمانوں کو اپنے الگ خطہ ارضی میں جہاں مذہبی آزادی حاصل ہوگی وہیں انہیں ہندو اور انگریز کی غلامی اور انکے مسلط کردہ ساہو کارانہ نظام سے بھی نجات مل جائیگی مگر قائد اعظم کے انتقال کے بعد اقتدار کی باگ ڈور جس کے بھی ہاتھ میں آئی اس نے قیام پاکستان کے مقاصد کو یکسر فراموش کر دیا۔ ہمارا خطہ ارضی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے مگر کسی حکمران نے ان وسائل کو ملک و ملت کی بہتری اور فلاح کیلئے بروئے کار لانے اور فروغ دینے کی جانب کبھی توجہ ہی نہیں دی۔ اگر تیل گیس اور قیمتی دھاتوں کی شکل میں زیر زمین موجود قیمتی ذخائر کو جامع منصوبہ بندی کے تحت بروئے کار لانے کی قومی پالیسی وضع کی گئی ہوتی تو ہم ان قیمتی قدرتی وسائل سے مالا مال ہوتے اور ہمیں انکے حصول کیلئے کسی کا دست نگر نہ ہونا پڑتا۔ ہم نہ صرف ان ذخائر سے اپنی ضروریات پوری کرتے بلکہ انہیں برآمد کر کے اپنے زرمبادلہ میں بھی اضافہ کرتے رہتے۔ نتیجتاً ہمیں آئی ایم ایف کی ناروا شرائط پر بنی قرض کے حصول کیلئے کشکول اٹھا کر اسکے در پر کبھی نہ جان پڑ تا۔ آج ڈالر 280روپے تک جا پہنچا ہے۔ نتیجتاً آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کئے گئے قرضے بھی بغیر کوئی نیا قرض لئے دو سے تین گنا بڑھ گئے ہیں۔ مگر حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے نتیجہ میں مہنگائی کی شرح بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ عملاً اس ماہ مقدس کے دوران ناجائز منافع خور طبقات کے ہی وارے نیارے ہوتے ہیں۔ مہنگائی کے سونامیوں سے عوام پر ٹوٹنے والی افتاد تو در حقیقت حکمرانوں کیلئے لمحہ فکر یہ ہونی چاہیے۔ اگر حکومت نے مہنگائی کو نہ روکا تو ستائے ہوئے عوام سڑکوں پر نکل کر سیاسی عدم استحکام کا سبب بن سکتے ہیں۔ حکومت کو رمضان سے پہلے اس مہنگائی کا نوٹس لینا چاہیے اور ابھی سے کوئی سد باب کرنا چاہیے۔ عوام ان مزید مہنگائی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جبکہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دُنیا بھر کے مہذب ممالک میں اُن کے خصوصی دنوں اور تہواروں کے موقع پر اشیائے ضرور یہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے جب کہ وطن عزیز میں اُلٹی گنگا بہتی ہے اور ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں، عوام پر مہنگائی کے نشتر اس بے رحمی سے برسائے جاتے ہیں کہ الامان والحفیظ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر سال ماہ رمضان المبارک سے قبل اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو مہنگائی پشتو کی اس کہاوت کے برابر ہے کہ ’’ لاس د بری کار دے‘‘ یعنی اپنے ہاتھ کا کام ہے جس نے ریٹ جتنا زیادہ بڑھا دیا بس بڑھ گیا کوئی پوچھنے والا ہی نہیں ہے، آخر یہ مجسٹریسی نظام کس مرض کی دوا ہے کہ مہنگائی تو روز بروز ترقی کر رہی ہے لیکن مجسٹریسی نظام تاحال کارگر ثابت نہیں ہوسکا جبکہ گزشتہ کئی سال سے یوٹیلیٹی سٹورز کے ملازمین سبسڈی والی اشیا صارفین کو فروخت کرنے کے بجائے پچھلے دروازے سے مافیا کے ساتھ ساز باز کرکے کروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔ یاد رہے ملک کی آبادی 25کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلیٹی سٹورز کی کل تعداد 5491ہے۔ اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزائوں کے اقدامات کیے جائیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی ناقص کارکردگی ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلعی حکومت کے نمائندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لئے مرکزی کردار ادا کرایا جائے۔ ضروری ہے کہ حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے، کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے نا صرف راست اقدامات کیے جائیں بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی کے عذاب سے بچانے کو موثر بندوبست بھی کیا جائے۔ تمام بازاروں کا ذمے داران دورہ کریں اور وہاں سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیاء ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیں، گراں فروشوں کے خلاف کڑی کارروائیاں کی جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button