35 پنکچر سے فارم 47تک
روشن لعل
وطن عزیز میں آج کل اس بات کا بہت چرچا ہے کہ قومی یا کسی صوبائی اسمبلی کا کون سا امیداوار فارم 45 اور کون فارم 47 کے مطابق جیتا ہے۔ جس طرح 8 فروری 2024 کو منعقدہ عام انتخابات کے نتائج کو فارم 45ار فارم 47 کا نام لے کر دھاندلی زدہ قرار دیا جارہا ہے اسی طرح 2013 کے عام انتخابات کے نتائج پر غیر شفاف ہونے کا الزام لگا تے ہوئے انہیں 35 پنکچروں والے الیکشن کہا گیا تھا۔ الیکشن 2013 کے بعد 35 پنکچروں کی جوگردان کافی عرصہ جاری رہی ، اس کا خاتمہ ڈاکٹر عارف علوی کی ایک ٹویٹ سے ہواتھا۔ صدر پاکستان بننے سی بہت پہلے جب عارف علوی صرف جنرل سیکرٹری تحریک انصاف ہوا کرتے تھے ، اس وقت 2 جولائی 2015 کو صبح 10.35 پر ان کی طرف سے ایک ٹویٹ جاری ہو ا جس میں کسی کا نام لیے بغیرمعافی مانگی گئی تھی۔ ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے ٹویٹ میں لکھا تھا ’’ یہ وقت 35 پنکچروں ( کے الزام) کے لیے معافی مانگنے کا ہے۔ (35 پنکچروں کے حوالے سے)کئی اڑتی ہوئی افواہیںمجھ تک پہنچیں اور میں نے ان میں سے کچھ پر یقین کر لیا ‘‘۔ڈاکٹر عارف علوی نے تو 2013 کے الیکشن میں 35 پنکچروں کا الزام لگانے پر معافی مانگ لی مگر عمران خان جوڈیڑھ سال بھی زیادہ عرصہ تک 35 پنکچروں کی گردان کرتے رہے انہوں نے عارف علوی کی ٹویٹ سے ایک دن قبل ، یکم جولائی 2015 کو کسی ٹی وی چینل پر بات کرتے ہوئے صرف یہ کہا کہ ان کی طرف سے الیکشن 2013 میں 35 پنکچر لگانے کا الزام محض ایک سیاسی بیان تھا۔ واضح رہے کہ 2013 کے جو عام انتخابات 11 مئی کو منعقد ہوئے ان میں میاں نواز شریف کی جیت کو صرف عمران خان نے بد ترین دھاندلی کا نتیجہ قرار نہیں دیا بلکہ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسے آر او الیکشن کہا تھا۔ الیکشن 2013 کے نتائج پر تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد پیپلز پارٹی نے انتخابی عذرداریاں دائر کرنے کے ساتھ ساتھ خورشید شاہ کو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنا کر اپوزیشن کی بڑی پارٹی کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا جبکہ عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی نے دھاندلی کے الزامات کی تکرار کرتے ہوئے میاں نوازشریف کی دوتہائی اکثریت رکھنے والی حکومت کے خاتمے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دینے کی تیاریاں شروع کر دیں۔اسلام آباد میں دھرنا دینے کی تیاریوں کا آغاز عمران خان نے 4 فروری 2014 کو ایک ٹویٹ کے ذریعے کیا جس میں 2013 کے انتخابات کے دوران پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ بننے والے نجم سیٹھی پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے صوبے میں قومی اسمبلی کے 35 حلقوں کے نتائج پر اثرانداز ہوتے ہوئے ان میں میاں نوازشریف کی پارٹی کے امیدوارکامیاب کروانے کے لیے خصوصی کردار ادا کیا ۔ نجم سیٹھی کے اس مبینہ کردار کو انہوں نے الیکشن میں 35 پنکچر لگانے سے موسوم کیا تھا۔
نجم سیٹھی پر 35 پنکچروں کا الزام لگانے سے پہلے 2013 کے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دینے کے بعد عمران خان نے بڑی شدو مد کے ساتھ یہ مطالبہ کیا تھا کہ ان کے بتائے ہوئے چار حلقوں میں ڈالے گئے ووٹوں کی رسیدوں پر ووٹروں کے انگوٹھوں کے نشانوں کی جانچ کرتے ہوئے دوبارہ گنتی کی جائے۔ عمران خان کے اس مطالبے کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا گیا تھا کہ الیکشن قوانین کے مطابق ڈالے گئے ووٹوں کی اس طرح گنتی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ حکومت اور الیکشن کمیشن کا یہ موقف سامنے آنے کے بعد عمران خان نے نہ صرف 35 پنکچروں کا الزام لگایا بلکہ یہ بھی کہہ دیا کہ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے اور نوازشریف کی حکومت کے خاتمہ تک وہاں دھرنا دیںگے۔ عمران خان نے اپنے اعلان کے عین مطابق اسلام آباد میں دھرنا دیا جو 126 دن جاری رہنے کے بعد آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ رونما ہونے کے بعد 17 دسمبر 2014 کوختم ہوا۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی کے واقعہ کے بعد عمران خان کچھ ہفتے خاموش رہے لیکن جونہی ملک میں سوگ کی فضا ختم ہوئی تو انہوں نے پھر سے الیکشن دھاندلی اور 35 پنکچروں جیسے الزامات کی تکرار شروع کردی۔ اس تکرار کے سبب اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے اپریل 2015 میں اپنی سربراہی میں الیکشن 2013 کے نتائج پر لگائے دھاندلی کے الزامات کی انکوائری کے لیے ایک کمیشن بنایا۔ اس کمیشن نے اپنی کارروائی مکمل کرنے کے بعد جب رپورٹ تیار کرنا شروع کی تو اس دوران یہ بات منظر عام پر آئی کہ کمیشن کو 35 پنکچر کے الزام میں کوئی حقیقت نظر نہیں آئی۔ جن ججو ں کی بحالی کو عمران خان اپنا کارنامہ قرار دیتے تھے ، ان ججوں پر مشتمل کمیشن ، 35پنکچروں کے الزام کے حوالے سے جس نتیجے پر پہنچ چکا تھا اس کی بھنک پڑنے پر عمران خان نے دھاندلی کے اپنے الزام کو سیاسی بیان کہا اور ڈاکٹر عارف علوی نے اس پر معافی مانگی تاکہ رپورٹ کے باقاعدہ اجرا پر انہیں اپنے بے بنیاد ثابت ہونے والے دھاندلی کے الزامات پر جو سبکی ہوسکتی ہے اس کے ازالے کا پہلے سے بندوبست کیا جائے۔
عمران خان اور پی ٹی آئی کے تمام لوگوں نے جس دھما چوکڑی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 35 پنکچروں کا الزام لگایا ، میڈیا اس کی بھر پور عکاسی کرتا رہا ، اس کے بعد یہ الزامات جس طرح بے بنیاد ثابت ہوئے اس کا ریکارڈ بھی محفوظ ہے ۔ جس دھما چوکڑی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 35 پنکچروں کا بے بنیاد ثابت ہوچکا الزام لگایا گیا تھا اور اس بے بنیاد الزام پر جس طرح عمران خان کے ساتھیوں نے یقین کیا تھا ، آج اس سے بھی زیادہ دھماچوکڑی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فارم 47 کاالزام لگایا جارہا ہے۔اس طرح کے الزامات جس فورم کے ذریعے سچ یا جھوٹ ثابت ہو سکتے ہیں ، 35 پنکچروں کا لزام لگا نے کے فوراً بعد جس طرح ماضی میں متعلقہ فورم میں جانے سے احتراز کیا جاتا رہا آج اسی طرح فارم 47 کا نام لے کر بھی شور شرابا تو شروع کر دیا گیا ہے مگر آئینی و قانونی راستہ اختیار کرنے سے اب بھی فرار کا راستہ اختیار کیا جارہا ہے۔
اگر یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ کی طرح آج بھی نہ انتخابی عمل کو شفاف سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ہی انتخابی عذرداریوں پر مامور لوگوں کی کارکردگی کو بلا شک و شبہ قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر اس حقیقت کو ماننے سے بھی انکار نہیں کیا جانا چاہیے کہ جن لوگوں کا 35 پنکچر کا الزام جھوٹ ثابت ہو چکا اور وہ اس جھوٹ پر معذرت بھی کر چکے ، ان کے فارم 47 کے بیانیے پر آنکھیں بند کر کے یقین نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی صورت میں صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ خود ہی مدعی، وکیل اور جج بن کر اپنا فیصلہ کرنے کی بجائے متعلقہ فورم سے رجوع کیا جائے۔